بچوں کی تربیت: محنت، لگن اور جستجو کی جیت


ہماری شخصیت کے بننے اور سنورنے کا دار و مدار ہماری مثبت سوچ پر منحصر ہے۔ اگر سوچ مثبت ہے تو اردگرد رونما ہونے والے حالات و واقعات کو دیکھنے کا زاویہ بھی مختلف ہو گا۔ ہم اپنی مثبت سوچ کی وجہ سے درپیش مسائل کو خود پر اپنے اعصاب پر حاوی کرنے کی بجائے ان کا حل تلاش کرتے ہیں اور اپنے لئے خود مواقع پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوشش کرنا یعنی پہلا قدم اٹھانا ہی کامیابی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ جو لوگ کوشش نہیں کرتے وہ ناکامی اور لوگوں کی باتوں سے ڈرتے ہیں ایسے لوگ خود اپنے ہاتھوں سے ترقی کے دروازے بند کر دیتے ہیں پھر سارا قصور اپنی بد نصیبی پر ڈال دیتے ہیں حالانکہ انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے اپنی سوچ اور اپنے عمل سے ہی منزلیں طے کرتا ہے۔

والدین بچوں کی سوچ بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک ہمارا زمانہ تھا جب بچوں کے دلوں میں ماں، باپ کا ڈر و خوف ہوتا تھا۔ ان کا کسی غلطی پر ہمیں آنکھیں دکھا دینا ہی کافی ہوتا تھا۔ کسی کے گھر جانے سے پہلے ایک ہدایت نامہ جاری ہوتا تھا کہ وہاں آرام سے بیٹھنا ہے، تمیز سے بات کرنی ہے، زیادہ نہیں بولنا ہے، کھانے کی چیزوں کو نہیں چھیڑنا اور چھوٹا نوالہ لینا ہے چبا چبا کر آرام سے کھانا ہے۔ اسی طرح کی کئی اور باتیں جو ہمارے ننھے منے دماغوں میں ڈالی جاتی تھیں۔

امی بتایا کرتی تھیں کہ ایک بار وہ ہم بچوں کو لے کر اپنی ایک سہیلی کی طرف گئیں اس سے پہلے ہدایت نامہ ازبر کروایا گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ بڑا بھائی جو صحت مند اور گپلو سا تھا جب صوفے پر بیٹھا تو ٹانگ پر ٹانگ چڑھانے کی کوشش میں ٹانگ بار بار پھسل جاتی یہ دیکھ کر سب ہنسنے لگتے۔ اسی طرح جب امی کی سہیلی نے کھانے کے لوازمات سامنے رکھے اور ایک پلیٹ میں سموسہ ڈال کر بھائی کو دیا تو بھائی کہنے لگے کہ بہت شکریہ آنٹی میں گھر سے کھا کر آیا ہوں جس پر آنٹی ہنسنے لگی اور پوچھا اچھا بتاؤ کب کھایا تھا۔

اب یہ سوال غیر متوقع تھا جس پر بھائی نے بوکھلا کر امی کی طرف دیکھا اور بولا آنٹی کل کھایا تھا۔ اس پر پھر سے وہاں موجود سب ہنسنے لگے آخر امی کے اشارہ کرنے پر بھائی نے سموسہ لے لیا۔

بتانے کا مقصد یہ ہے کہ پہلے کیسے بچوں کی پرورش کی جاتی تھی اور بچے اپنے والدین کی بات مانتے بھی تھے اور ان کو احساس ہوتا تھا کہ ہم نے کیسے اچھا برتاؤ کرنا ہے دوسرے لفظوں میں ہدایات پر عمل کرنا ہے۔ اس کے برعکس آج کل کے بچے ایک کان سے بات سنتے ہیں اور دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ باہر جا کر زیادہ ادھم مچاتے ہیں اور خوب ناک کٹواتے ہیں۔ جو چیزیں بچے گھر میں نہیں کھاتے وہی کسی دوسرے گھر میں جا کر نہ صرف بڑے شوق سے کھاتے ہیں بلکہ ندیدے پن کا بھی بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں۔

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ بچوں کی تربیت میں ماں باپ کے باہمی تعلقات، گھر والوں اور گھر کے ماحول کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ پھر اگر ہم بات کریں ذہانت کی تو سائنسی اعتبار سے بھی یہ تحقیقات سامنے آئیں ہیں کہ ذہانت ماں سے بچوں میں آتی ہے۔ یہ فلسفہ کسی حد تک درست بھی ہے۔ فیصلہ کرنے کی قوت، معاملہ فہمی، محنت کرنے کی عادت اور اپنے خوابوں کو پانے کے لئے جستجو کرنے کی لگن بچوں کو وراثت میں ملتی ہے۔ اس کے علاوہ اردگرد کے لوگوں اور ماحول پر بھی منحصر ہوتا ہے۔

جیسا ماحول بچے کو دیا جاتا ہے وہ اس کے مطابق ہی پروان چڑھتا ہے۔ بچہ اپنے اردگرد لوگوں کا بغور معائنہ کرتا ہے اور ان کے رویے کو اپنی سوچ کے مطابق ڈھالتا ہے۔ اب سوچ کیسے بنتی ہے تو یہ بہت آسان سی بات ہے، ہماری سوچ ہمارے اردگرد کے لوگوں کے رویوں سے، روزمرہ کے تجربوں سے بنتی ہے۔ بچہ جو دیکھتا ہے وہی سیکھتا ہے۔ حتٰی کہ کس سے کس طرح بات کرنی ہے یہ بھی وہ اپنے بڑوں سے سیکھتا ہے۔

عام مشاہدے میں آتا ہے کہ جن بچوں کو زندگی کی تمام سہولیات بآسانی میسر ہوتی ہیں، وہ جو فرمائش کرتے ہیں ان کے منہ سے نکلتے ہی پوری ہو جاتی ہے، ہر چیز چاہے وہ ضرورت کی ہو یا نہیں ان کو بغیر کسی محنت و تگ و دو کے حاصل ہو جاتی ہے ایسے بچے عمومی طور پر کاہل، سست اور لا پرواہ ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ محنت کے لفظ سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ ان کو خوابوں کی قیمت چکانی نہیں پڑتی اور جو چیز بغیر چاہت کے حاصل ہو جائے اس کی وقعت نہیں رہتی اور نا ہی خوشی حاصل ہوتی ہے۔

اس کے برعکس متوسط یا غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے اپنے والدین کو تنکا تنکا جوڑتے دیکھتے ہیں۔ محنت کیسے کی جاتی ہے ان کو بخوبی اندازہ ہوتا ہے، خواب کیسے بنے جاتے ہیں اور ان خوابوں کے ٹوٹنے کی تکلیف کیا ہوتی اس کرب کو وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔

ایسے بچے ہی منزل کو پہنچتے ہیں کیونکہ ان کے خواب مختلف ہوتے ہیں اپنے حالات کو بدلنے کی جستجو ان کو اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ خود سے بہتر لوگوں کو دیکھ کر کمتری کا شکار نہیں ہوتے بلکہ اپنے حالات بدلنے کے لئے کوشش کرتے ہیں۔

اس کی کئی مثالیں ہمارے اردگرد پھیلی ہوئے ہیں۔ جیسے ہم آئے دن سنتے ہیں کہ ایک موچی کی بیٹی ڈاکٹر بن گئی، تندور پر کام کرنے والے کے بیٹے نے میٹرک کے امتحانات میں اول پوزیشن حاصل کر لی۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جو ہمیں آئے دن سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کامیابی کی لگن انھی لوگوں کو ہوتی ہے جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔

بہت کم یہ سنا ہے کہ فلاں سیاستدان، بیوروکریٹ یا بزنس مین کے بچے نے بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کی؟ نہیں نا کیونکہ ان کو سب آسائشیں حاصل ہوتی ہیں۔ ان کی تمام خواہشات بغیر کہے پوری ہو جاتی ہیں۔ ان کے پاس روپیہ، پیسہ، اختیارات و مراعات سب ہوتا ہے لہذا ان کو کچھ مزید پانے کی نہ خواہش ہوتی ہے اور نہ ان کی زندگی کا کوئی مقصد ہوتا ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ ان کو پرائیویٹ داخلے مل جائیں گے، اس کے علاوہ بیرون ملک پڑھنے بھی چلے جائیں گے، اثر و رسوخ استعمال کر کے اچھی نوکریاں بھی مل جائیں گی یا اپنے خاندانی کاروبار کو سنبھال لیں گے ان کو اپنے مستقبل کو لے کر کسی قسم کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔

آخر وہ محنت کریں بھی تو کس لئے سب چیزیں ان کو حاصل ہیں۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ایسے نازوں میں پلے ہوئے بچے ہی ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ ناکامی وہ برداشت نہیں کر سکتے اور والدین کے ساتھ تعلقات میں دوری کی وجہ سے اکیلے پن کا شکار ہو کر غلط راہوں کے مسافر بنتے ہیں۔ ایسے میں ان کا ایمان کمزور ہو جاتا ہے سوچنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، معمولی بات کو وہ اعصاب پر سوار کر لیتے ہیں نتیجتاً وہ انتہائی قدم کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔

سیدھی اور غلط راہ میں بہت ہی معمولی فرق ہوتا ہے اور کوئی بھی کمزور لمحہ غالب آ سکتا ہے اور بچہ بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے۔

والدین کو اپنے بچوں کی تربیت اس طرز پر کرنی چاہیے کہ وہ مضبوط اعصاب کے حامل ہوں، زندگی میں چیلنجز کا سامنا کر سکیں، اپنے لئے درست اور وقتی فیصلے کر سکیں، صحیح اور غلط کی پہچان کر سکیں، صرف اپنا نہیں دوسروں کا بھی اچھا سوچ سکیں، اپنی زندگی کے مقصد کو کھوج کر اس کو پانے کی تگ و دو کر سکیں۔ اپنے خوابوں کو پانے کے لئے مختصر راستوں کا انتخاب نہ کریں بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے بنیں۔ جو خوشی محنت کر کے مقام بنانے میں ہے اس کا کوئی مول نہیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ جیت ہمیشہ محنت، لگن اور جستجو کی ہوتی ہے۔ خواب چھوٹے ہوں یا بڑے ان کو دیکھنا بہت ضروری ہے۔ زندگی میں مقصد کا ہونا ہی زندگی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments