ماضی کی فصیلیں اور آج کی گیٹڈ کمیونٹی



کراچی کے مضافات میں قایم ہونے والی ایک نئی اور جدید بستی بحریہ ٹاؤن کے مکین چھ جون 2021 کی صبح اپنے گھروں میں سکون سے سو رہے تھے۔

اتوار تھا چھٹی کا دن لیکن بحریہ ٹاؤن کے باہر موٹر وے ایم نائن پر صبح سے ہی کچھ غیر معمولی سر گرمی دیکھنے میں آ رہی تھی۔ بحریہ ٹاؤن کی مرکزی دروازے کے عین سامنے، آہستہ آہستہ لوگuجمع ہو رہے تھے۔ ان کی اکثریت اندرون سندھ سے بسوں میں بھر کر آ رہی تھی۔ بظاہر یہ لوگ بحریہ ٹاؤن کے مالک /ڈیویلپر کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے جمع ہو رہے تھے۔ شام ہوتے ہوتے یہ اجتماع دس سے پندرہ ہزار افراد کا ہجوم بن گیا۔ اچانک اس ہجوم نے بحریہ ٹاؤن کے مرکزی دروازے پر ہلہ بول دیا۔

بحریہ ٹاؤن ایک گیٹڈ کمیونٹی ہے اس کے اندر کوئی شخص بغیر شناخت، بغیر اجازت اور بغیر سکیورٹی چیک کے داخل نہیں ہو سکتا۔ اس بستی کے چاروں اطراف فصیل نما دیوار موجود ہے اور دیو ہیکل مرکزی دروازہ ہے جس کے سامنے کنکریٹ سے بنی ہوئی رکاوٹیں بھی نصب ہیں۔ یہاں ہمہ وقت چوکس حفاظتی عملہ بھی تعینات رہتا ہے۔ اس وقت صورتحال مزید بگڑ گئی جب ہجوم نے کنکریٹ سے بنی ہوئی رکاوٹیں بھی عبور کر لیں اور مرکزی دروازے کا ایک حصہ توڑ کر اندر داخل ہو گیا۔

ہجوم نے اندر داخل ہوتے ہی لوٹ مار شروع کر دی دفاتر، ریستوراں، شو روم، موٹر سائیکلوں اور کاروں کو آگ لگانی شروع کر دی جس سے مکینوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ تمام حفاظتی انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر پورے ملک میں جو بھی نئی ہاؤسنگ سکیم بن رہی ہیں عام طور پر اس کے چاروں اطراف موٹی اور اونچی حفاظتی دیوار تعمیر کی جاتی ہے اور اس کے اوپر لوہے کے خاردار تار اور جابجا کیمرے بھی نصب کیے جاتے ہیں اور نجی طور پر بھرپور سیکورٹی کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ افراد کی آمدورفت بھی سیکورٹی کے اجازت نامہ سے مشروط ہوتی ہے، ایسی آبادی کو فخریہ طور پر گیٹڈ کمیونٹی کہا جاتا ہے۔ لیکن چھ جون 2021 کو بحریہ ٹاؤن میں یہ تمام انتظامات ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور مشتعل ہجوم اندر گھس گیا

دنیا روشنی کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے اور میرے دیس میں آہستہ آہستہ، خراماں خراماں وقت کا پہیہ پیچھے کی جانب سفر کر رہا ہے۔ پچھلے ستر بہتر برسوں میں ہم نے ”من حیث الہجوم“ ایسے ایسے کارنامے انجام دیے ہیں کہ اب ہم بڑی شان و شوکت سے واپس مغلیہ دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ میری پیدائش سن 1957 میں شہر کراچی ہی کی ہے۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو کراچی ایک کھلا ڈھلا شہر تھا، بچپن میں ہم نے یہاں پر فصیل نام کی کوئی چیز دیکھی نہ کبھی سنی۔

میں غالباً جب ساتویں جماعت کا طالبعلم تھا تو اپنے والدین کے ساتھ پہلی بار لاہور گیا۔ 1960 کی درمیانی دہائی کا لاہور آج کے لاہور سے قدرے مختلف تھا۔ اس زمانے میں شہر کی بیشتر آبادی اندرون شہر رہا کرتی تھی۔ اس آبادی میں داخل ہونے کے لیے کبھی ہم دہلی دروازے سے گزرتے تو کبھی لوہاری و بھاٹی دروازے سے اور کبھی ہمارا گزر موچی دروازے سے ہوتا تھا۔ اس طرح کے شہر کے دروازے کراچی میں تھے ہی نہیں میرے ذہن میں سوال آیا کہ اس قسم کے دروازے کراچی میں کیوں نہیں ہیں؟

معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ لاہور ایک قدیم شہر ہے، بادشاہوں کے زمانے میں بڑے شہروں کے ارد گرد موٹی حفاظتی دیوار تعمیر کی جاتی تھی جس کو فصیل کہا جاتا تھا اور اس میں شہر کے حجم کے مطابق مختلف داخلی و خارجی راستوں پر دروازے بنائے جاتے تھے۔ بنیادی طور پر ان دروازوں اور فصیلوں کو بنانے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ ان کی مدد سے شہر کو بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ ساتھ ڈاکوؤں اور لٹیروں سے بھی محفوظ رکھا جا سکے۔ ان دروازوں پر حفاظتی چوکیاں اور سپاہی بھی مامور ہوتے تھے۔

عام طور پر یہ دروازے طلوع آفتاب کے وقت لوگوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیے جاتے تھے اور غروب آفتاب کے وقت ان دروازوں کو بند کر دیا جاتا تھا۔ جب کے کراچی میروں اور تالپوروں کی حکمرانی کے زمانے سے پہلے تک مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی شہر نہیں تھا البتہ کہا جاتا ہے کہ سترہویں صدی کے اواخر میں کراچی شہر کے گرد ایک فصیل تعمیر کی گئی تھی۔ اس فصیل میں دو دروازے بنائے گئے تھے۔ ایک دروازے کا رخ سمندر کی طرف تھا جس کو کھارادر کا نام دیا گیا جبکہ دوسرے دروازے کا رخ لیاری ندی کی طرف تھا اور ندی کے میٹھے پانی کی نسبت سے اس کو میٹھا در کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ کم سے کم 1947 میں نہ تو اس فصیل کا کوئی نام و نشان تھا اور نہ ہی میٹھا در و کھارا در کے دروازوں کے کوئی آثار باقی تھے۔ ہاں دو تھانے ضرور ہیں جن کا نام میٹھا در اور کھارا در ہے

سندھ میں انگریزوں کے قبضہ کرنے کے بعد کراچی آہستہ آہستہ ایک چھوٹے سے بندرگاہی شہر کا روپ دھارنے لگا۔ چونکہ انگریزوں نے برصغیر میں ایک مہذب سماج اور سخت گیر انتظامیہ کی بنیاد ڈالی اس لئے، ڈاکوؤں، لٹیروں اور بیرونی حملہ آوروں کا اندیشہ و خطرہ رفتہ رفتہ بالکل مٹ گیا۔ شاید یہ ہی وجہ تھی کراچی میں فصیل اور اس کے دروازے بنانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی

بہرحال اس تمام صورتحال سے یہ بات بالکل عیاں ہوتی ہے کہ انگریزوں کا نظم و نسق اتنا عمدہ تھا کہ کسی قسم کی لوٹ مار کا اندیشہ تک نہ تھا اور شہروں پر بیرونی حملہ آوروں کی یلغار کا تو تصور ہی مٹ گیا تھا۔

تقسیم ہند سے صدی قبل جب انگریزوں نے برصغیر پر باقاعدہ قبضہ کر کے یہاں پر اپنے دور حکمرانی کا آغاز کیا تو انہوں نے پورے برصغیر کو جدید دنیا کے تمام لوازمات سے بہرہ ور کرنا بھی شروع کر دیا۔ پکی سڑکیں تعمیر کیں اور پورے برصغیر میں ریلوے کا مضبوط جال بچھا دیا۔ آبپاشی کا جدید نہری نظام تعمیر کیا جس کی وجہ سے خصوصاً پنجاب تو گل گلزار بن گیا۔ اس کے علاوہ نئے نئے شہر بھی تعمیر کیے گئے مثلاً لائل پور (فیصل آباد) ، منٹگمری (ساہیوال) ، ایبٹ آباد اور جیکب آباد وغیرہ، لیکن ان میں سے کسی بھی شہر کے گرد فصیل نہیں تعمیر کی گئی

قیام پاکستان کے وقت انگریزوں کا جاری کردہ انتظامی طریقہ کار ہی اپنایا گیا۔ 1947 کے بعد کراچی کی نئی نئی آبادیاں وجود میں آئیں اور آزادی کے ابتدائی زمانے کے ساڑھے چار لاکھ نفوس کی آبادی کا یہ شہر 1980 کی دہائی تک آتے آتے غیرسرکاری اندازے کے مطابق لگ بھگ ایک کروڑ نفوس تک پہنچ چکا تھا لیکن اس وقت بھی نہ شہر کے ارد گرد کسی فصیل کی ضرورت پڑی اور نہ ہی داخلی و خارجی دروازوں کی۔ کراچی میں نئی نئی بستیاں آباد ہوتی رہیں جس میں لاکھوں لوگ رہائش پذیر ہوتے رہے۔

ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، گلشن اقبال، لانڈھی، کورنگی، نئی کراچی، پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی، اورنگی ٹاؤن اور بلدیہ ٹاؤن اور انگنت بستیاں وجود میں آئیں لیکن کسی فصیل کی ضرورت نہیں پڑی۔ بدقسمتی سے پھر ہم اسی کی دہائی کے درمیانی دور میں پہنچے جب پاکستان پر ایک فوجی آمر کی حکمرانی تھی، کراچی شہر کے ایک علاقے اورنگی ٹاؤن میں نامعلوم دہشت گردوں نے باقاعدہ ایک جتھے کی شکل میں نہتی آبادی پر جدید ہتھیاروں سے حملہ کر دیا۔ مکانوں کو آگ لگا دی گئی اور مکینوں کو لوٹ لیا گیا۔ کہتے ہیں کہ اس منظم دہشتگردانہ حملے میں غیر سرکاری اندازے کے مطابق کم از کم تین سو نہتے شہری مارے گئے۔ یہ افسوسناک سانحہ 14 دسمبر 1986 کو پیش آیا جس کی بنیاد وہ آپریشن تھا جو کہ سہراب گوٹھ میں منشیات فروش دہشت گردوں اور اسلحہ مافیا کے خلاف 12 دسمبر 1986 کو شروع کیا گیا تھا۔

یہ آپریشن تو کامیاب نہ ہو سکا البتہ سہراب گوٹھ کے ان مفرور اسلحہ و منشیات فروشوں نے اورنگی ٹاؤن اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ہولناک خون ریزی شروع کر دی تھی۔ مورخہ 14 دسمبر 1986 کی صبح تقریباً چھ بجے منشیات و اسلحہ مافیا کے دہشت گرد سینکڑوں کی تعداد میں جدید ترین ہتھیاروں، ہینڈ گرینیڈ اور آتشیں پاوڈر سے لیس ہو کر پہاڑوں سے اترے اور انھوں نے اورنگی ٹاؤن کے علاقے قصبہ کالونی اور علیگڑھ کالونی کے مکینوں پر حملہ کر دیا۔

مسلح دہشت گرد بے گناہ شہریوں پر گولیاں برساتے رہے، جیتے جاگتے بچوں کو دہکتی آگ میں جھونکتے رہے اور کئی گھنٹوں تک بے خوف ہو کر بربریت اور درندگی کا مظاہرہ کرتے رہے لیکن ان دہشت گردوں کو روکنے والا کوئی نہ تھا۔ بے گناہ شہریوں کی جان و مال عزت و آبرو سے کھیلنے والے دہشت گرد بلا خوف و خطر انتہائی درندگی کا مظاہرہ کرتے رہے اور سینکڑوں گھروں کے چراغ گل کر کے، ان گھروں میں صف ماتم بچھا کر اور بزرگ والدین سے ان کے سہارے چھین کر، درندہ صفت دہشت گرد پہاڑیوں پر چڑھ کر فرار ہو گئے۔

یہ اندوہناک واقعہ کراچی میں بستیوں کے گرد حفاظتی دیواریں داخلی اور خارجی راستوں پر بڑے بڑے آہنی گیٹ حتی کے اندرونی گلیوں میں بیریئر نصب کرنے کا نقطہ آغاز ثابت ہوا اور آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہر نئے رہائشی منصوبے کے چاروں اطراف حفاظتی دیوار ضرور تعمیر کی جاتی ہے

مجھے نہایت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ آج بحریہ ٹاؤن، ڈی۔ ایچ۔ اے۔ 09، مختلف شہروں میں واقع عسکری کی رہائشی اسکیموں اور دوسرے رہائشی کمپلیکسز کی طرف سے پرنٹ میڈیا میں دیے گئے اشتہارات میں یہ عبارت فخریہ طور پر لکھی ہوتی ہے ؛

”مکمل طور پر گیٹڈ کمیونٹی“

اس عبارت کو دیکھ کر میرا دھیان پرانے بادشاہوں خصوصاً مغلیہ دور کی طرف چلا جاتا ہے جب بڑے شہروں کے ارد گرد فصیلیں تعمیر کی جاتی تھیں اور ان میں بڑے بڑے دروازے نصب کیے جاتے تھے، دراصل یہ اس زمانے کی گیٹڈ کمیونیٹیز ہی تو تھیں۔

میں ڈرتا ہوں کہ اگر من حیث القوم پیچھے کی جانب ہمارا سفر اسی طرح جاری رہا تو ہم بیرونی حملہ آوروں کی آمد کے دور میں نہ پہنچ جائیں کہ ہماری گیٹڈ کمیونیٹیز کی دیواروں پر شگاف پڑنے لگیں اور حکمرانوں کو پہاڑوں و جنگلوں کی جانب راہ فرار نہ اختیار کرنی پڑ جائے۔

عوام کا آکسیجن کا سیلنڈر بھی ختم ہونے کو ہے۔ اگر یہ کھیل تماشے چلتے رہے اور عوام صرف اپنے دکھ لے کر باہر نکل آئے تو حکمران اشرافیہ اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو اس کا کچھ بھی باقی نہیں بچے گا بات سیدھی سادھی ہے اور ان پڑھ غریب بیروز گار جاہل یہاں تک کے نیم پاگل کو بھی سمجھ آ جاتی ہے لیکن پاکستانی تاریخ میں اگر سمجھ نہیں آئی تو حکمران اقلیت کے پلے کبھی نہیں پڑی کہ جب عوام کے چولہوں کی آگ ٹھنڈی پڑ جائے تو شہروں میں چنگاریاں سلگنے لگتی ہیں۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے زمین سے بلند ہونے والے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں جس میں شاہ اور شاہ کے سب مصاحبوں کو ”ستی“ کی رسم ادا کرنا پڑتی ہے

اللہ نہ کرے کہ آج کی گیٹڈ کمیونیٹیز پر کبھی ایسا کڑا وقت آئے

افسوس اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ ماضی کی فصیلیں بیرونی حملہ آوروں سے بچاؤ کے لئے بنائی جاتیں تھیں اور آج کی گیٹڈ بستیاں اپنے ہی ہم وطنوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہنے کے لئے تخلیق کی جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments