نوے برس کی بھارتی خاتون: پاکستانیوں کی محبت کبھی نہیں بھلاسکتی


90برس کی بھارتی خاتون رینا چھبر ورما خوشیوں سے نہال۔ دس روزہ دورہ پاکستان مکمل کر کے واہگہ کے راستے واپس وطن پہنچ گئیں۔ اس دوران انہوں نے ہر اس جگہ کو دیکھا جہاں پچھتر برس قبل بچپن میں انہوں نے اپنا وقت گزارا تھا۔

راقمہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم نے سب سے پہلے رینا چھبر ورما کی خواہش کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ”کاش مرنے سے پہلے ایک بار اپنا گھر دیکھ سکوں“ کے نام سے ہماری نیوز اسٹوری ایک بڑے عالمی ادارے کی زینت بنی۔ ہم نے نہ صرف ان کی آواز حکام بالا تک پہنچائی اور پاک بھارت کے کشیدہ تعلقات کے دوران محبت اور خلوص کی ایک ایسی مثال قائم کی جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔

لاہور پہنچتے ہی رینا ماں کی خوشی دیدنی تھی۔ تین دن لاہور میں گزارے۔ اس کے بعد عازم سفر ہوئیں پنڈی کی طرف جہاں رستے میں چکوال میں بھی کچھ دیر ٹھہریں۔ کیونکہ ان کے والدین کا آبائی تعلق چکوال سے ہی تھا اور وہ بچپن میں ان گلیوں میں خوب گھومیں پھری ہیں۔ چکوال میں کچھ دیر ٹھہر کر وہ روانہ ہوئیں وہاں، جہاں جانے کی خواہش انہیں پچھتر برس سے بے چین کی ہوئی تھی۔ راولپنڈی میں فیض آباد پر ایک ہوٹل میں ان کے لیے کمرا پہلے ہی بک کیا جا چکا تھا۔

لیکن یہاں پہنچ کر مزا کچھ کرکرا ہو گیا۔ وہ یوں کہ جیسے ہی ہوٹل انتظامیہ کو معلوم ہوا کہ خاتون بھارتی شہری ہیں انہوں نے کمرے کی بکنگ کینسل کردی۔ کیونکہ بھارتی شہریوں کو ہوٹل میں کمرا دینے سے پہلے اداروں سے اجازت نامہ جمع کروانا ضروری ہے۔ کنٹونمنٹ ایریا کی وجہ سے پنڈی حساس علاقہ بھی ہے۔ اسی دوران ایجنسیز کے لوگوں نے آ کر کمرا فوری خالی کرنے کی ہدایت کردی۔ میزبان حیران اور آنٹی پریشان تھیں۔ کیونکہ ان کے پاس اسی وقت راولپنڈی سے واپس روانہ ہونے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔

ہم بھی حیران تھے کہ ایک نوے برس کی معمر خاتون سے کسی کو بھلا کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔ کئی گھنٹوں کی پریشانی کے بعد مختلف صحافیوں سے رابطے شروع ہوئے۔ لیکن معاملہ حل کرانے کا کریڈٹ معروف صحافی اعزاز سید صاحب کو جاتا ہے جنہوں نے دفتر خارجہ سے رابطے کر کے مسئلہ حل کرایا یوں رینا ماں کو اسی ہوٹل میں رہائش کی اجازت مل گئی۔ بھلا رینا صاحبہ کوئی عام فرد تو تھیں نہیں۔ معاون خصوصی حنا ربانی کھر کی خصوصی ہدایت پر انہیں ویزا جاری کیا گیا تھا۔

لیکن رینا ماں کی اکلوتی بیٹی سونیا اس تمام صورتحال سے پریشان ہو چکی تھیں۔ ہمیں کال کر کے انہوں نے درخواست کی کہ میں ممی کو سمجھا سمجھا کر تھک گئی۔ اب ہم ماں جی کو سمجھائیں کہ پنڈی میں کسی صورت اجازت مل گئی بس اسے ہی غنیمت سمجھیں۔ اپنا گھر دیکھیں اور واپسی کی فکر کریں۔ ان کا جو آگے مری جا نے کا بھی ارادہ ہے اسے کینسل کر دیں۔ کیونکہ ان کے پاس مری کا ویزا نہیں ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر ایجنسیز کے لوگ ان کی خیریت دریافت کرنے آجائیں۔ لیکن رینا جی تو اب پاکستانیوں کی من چاہی دادی ماں بننے والی تھی۔ انہوں نے ویزے کی فکر کیے بغیر ہر وہ جگہ دیکھی جہاں جانے کی ان کی خواہش تھی۔

اگلے روز صبح راولپنڈی کے کالج روڈ پر واقع اپنے آبائی گھر پہنچیں تو محلے داروں کی جانب سے شاندار استقبال پر جذبات پر قابو نہ پا سکیں۔ ڈھول کی تھاپ اور پھولوں کی برسات پر لگتا ایسا تھا جیسے کسی دلہن کا استقبال کیا جا رہا ہو۔ اس گھر کو رینا کے والد نے بہت محبتوں سے تعمیر کروایا تھا۔ رینا ماں انتہائی خوش قسمت ٹھہریں کہ ان کا خوابوں کا گھر اب بھی بالکل ویسا ہی تھا جیسا انہوں نے پچھتر برس قبل چھوڑا تھا۔ چھے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی رینا ماں اپنے فوت شدہ بہن بھائیوں اور والدین کو یاد کر کے آبدیدہ ہو گئیں۔ ان در و دیوار کو غور سے دیکھتی اور یادوں کا اشتراک کرتی رہیں۔

تقسیم کے بعد یہ گھر مزمل حسین ساقی کے دادا ڈاکٹر ممتاز حسین نے خریدا تھا۔ ممتاز حسین تو اب موجود نہیں لیکن ان کے گھر والوں نے رینا ماں کی نہ صرف بہترین میزبانی کی بلکہ اپنے گھر پر ”ریناز ہاؤس“ کا بورڈ بھی لگادیا۔ ساقی اسی کمرے کے مکین ہیں جہاں کبھی رینا ماں رہا کرتی تھیں اس لیے ساقی نے انہیں بہت محبتوں سے اپنے گھر رکنے کی دعوت دی اور انہیں رات اسی کمرے میں ٹھہرایا جو پندرہ برس تک رینا ماں کا ہی کمرا تھا۔ مزمل ساقی شاعری بھی کرتے ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ شعر سنا کر داد وصول نہ کرتے۔ یہاں چائے اور لوازمات کے ساتھ ساتھ مزمل نے رینا ماں کو اپنی شاعری بھی سنائی۔

رینا ماں کے لیے راولپنڈی میں انتظامات کرنے والے سجاد حیدر صاحب بھی کافی پرجوش تھے۔ اگلے ہی روز وہ انہیں گورڈن کالج لے گئے جہاں رینا ماں کے بہن بھائی اور کزنز نے تعلیم حاصل کی تھی۔ کالج پرنسپل سے اچانک ملاقات کے لیے پہنچے تو انہوں نے پرتپاک استقبال کیا۔ کہا اگر رینا ماں پہلے سے اطلاع دیتیں تو وہ ان کے استقبال کے لیے بھرپور اہتمام کرتے۔ رینا ماں کی تواضع مٹھائی اور لوازمات سے کی گئی۔ اور انہیں سوینیئر بھی پیش کیا گیا۔

اس کے بعد سجاد صاحب انہیں ایوب پارک اور لیاقت باغ بھی لے گئے جہاں بچپن میں وہ بہت شوق سے جایا کرتی تھی۔ اس کے بعد لال حویلی کے قریب موتی بازار پہنچیں تاکہ اس مہربان درزی سے ملاقات کرسکیں جنہوں نے جولائی 1947 کے فسادات میں ان کی والدہ کو اپنی دکان میں پناہ دی تھی۔ کچھ گھنٹے بعد جب حالات بہتر ہوئے تو شفیع صاحب خود رینا جی کی والدہ کو ان کے گھر چھوڑنے آئے تھے۔ لیکن جیسے ہی وہ لال حویلی تک پہنچیں گھٹا ٹوٹ کر برسی اور انہیں مجبوراً اپنی ماں کے محسن یا ان کے خاندان سے ملے بغیر واپس لوٹنا پڑا۔

رینا ماں نہ صرف اپنے محلے اور پرانی پنڈی کے علاقوں میں گھومیں پھریں بلکہ مری بھی گئیں جہاں تقسیم سے قبل وہ ہر سال گرمی میں چھٹیاں منانے جاتی تھیں۔ رینا ماں کو مری میں سیاحوں نے خوب ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان سے پرانے مری کی یادیں تازہ کیں اور سیلفیاں بھی بنائیں۔

رینا ماں پاکستانیوں کی مشکور ہیں۔ اتنی محبتیں اتنی عنایتیں ملنے پر کہتی ہیں نوے برس میں میری ایک ہی خواہش باقی تھی جو اب پوری ہو گئی۔ پاکستانیوں نے اتنا پیار دیا ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ کسی دوسرے ملک میں ہوں۔ پاکستانیوں کی یہ محبت کبھی بھلائی نہیں جا سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments