پنجاب کا چوہدری پرویز الہیٰ ہوگا


بائیس کروڑ عوام کی نظریں ملک کی سب سے بڑی عدلیہ پر لگی ہوئی تھیں۔ عدلیہ میں جاری وکلا کے دلائل اور معزز جج صاحبان کے ریمارکس پر ہر کوئی اپنی سمجھ کے مطابق نتیجہ اخذ کر رہا تھا۔ ہماری قوم کے دو ہی تو شوق ہیں ایک چائے پینا دوسرا سیاست پر کھل کر گفتگو کرنا اسی سبب چائے خانے، نجی نشستوں اور یار بیلیوں کی محفلوں میں عدالت کی کارروائی کی ایک ایک بات کی تفصیل پر بحث و مباحثہ جاری رہا۔ عدالت میں مقدمے کے فریقین کے سپورٹرز کی عدالت سے باہر سوشل میڈیا پر اعصاب شکن جنگ جاری تھی کہ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی تو دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ ورکرز اور سپورٹرز کے اعصاب پر گزرنے والا ہر لمحہ کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔ بالآخر فیصلہ آ گیا۔

11 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلے کی گو کہ روداد اور سیاق و سباق کافی طویل سہی مگر اس فیصلہ سے طے ہو گیا کہ پنجاب کا چوہدری اب پرویز الہیٰ ہو گا۔ حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ آفس چھوڑنے، 63 رکنی کابینہ کو غیر قانونی قرار دینے کے ساتھ ساتھ فی الفور نوٹیفیکشن جاری کرنے اور رات ساڑھے گیارہ بجے گورنر سے حلف لینے کی تاکید اور بصورت دیگر صدر مملکت کو وزیراعلیٰ کا حلف لینے کا فیصلہ پی ڈی ایم اور نون لیگ کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھا۔ خیر عدلیہ کے احکامات کی تعمیل ہوئی اور حسب توقع گورنر کے حلف لینے سے انکار کے بعد رات دو بجے صدر مملکت عارف علوی نے چوہدری پرویز الہیٰ سے وزیراعلیٰ پنجاب حلف لیا۔

سوال یہ ہے کہ کی اس فیصلے سے ملک میں جاری سیاسی بحران کا خاتمہ ہو گیا تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ نہیں بلکہ سیاسی بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ حالیہ عدالتی فیصلے کے بعد ملکی سیاست ایک بار پھر تین دہائیاں پیچھے کی طرف چلی گئی جب 1988 میں وفاق میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت تھی۔ اس وقت بھی مرکز اور صوبے کے تعلقات بہتر نہیں ہو سکے تھے اور اب بھی مرکز اور صوبے میں سیاسی تناؤ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا۔ اس بار مرکز اور صوبے کے مابین جو جنگ شروع ہوگی اس کی شدت کا محض اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو ایک ہی بات اس سیاسی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے کہ مختاریا گل ودھ گئی اے پر حکومت دسدی نہیں پئی۔

جس طرح تحریک انصاف نے پنجاب میں حمزہ سرکار کو نہیں چلنے دیا اسی طرح ہی پی ڈی ایم والے پنجاب میں چوہدری سرکار کو نہیں چلنے دیں گے۔ ہر قدم پر رکاوٹیں، ہر کام میں مشکلات یوں سمجھ لیں کہ یہ وزارت اعلیٰ چوہدری پرویز الہیٰ کے لیے پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چوہدری کتنے دن میں اس مشکل صورتحال پر قابو پا سکتے ہیں اور پا بھی سکتے ہیں یا نہیں۔ بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھنے والی اور بہت جلد ڈیڈ لاک ہو گا اور شاید یہی ڈیڈ لاک نئے انتخابات کی بنیاد بن جائے۔ اور قبل از وقت انتخابات کے لیے تمام سیاسی و غیر سیاسی فریقین راضی ہوجائیں۔

اور جب تک نئے انتخابات کا بگل نہیں بجتا تب تک ایک نیا تماشا شروع ہونے جا رہا ہے ایک ایسا سیاسی تماشا جس میں عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا بلکہ یہ سیاسی تماشا بنیادی طور پر ہماری سیاسی اشرافیہ کی میوزیکل چیئر کا کھیل ہو گا۔ ایک ایسا کھیل جس میں کرسی پر بیٹھنے کی فکر میں اس کے گرد چکر لگانے والے کو یہ ہوش نہیں ہو گا کہ ملک میں اس وقت شدید بارشوں کے سبب نشیبی علاقے زیرآب آچکے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح غریب اور متوسط طبقہ اس آسمانی آفت کے سامنے بے بس و لاچار ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس کی جمع پونجی بے رحم پانی کی موجیں بہا کر لے جا رہی ہیں۔ اور یہ مجبور طبقہ ہمیشہ کی طرح اس کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے کو تیار ہے۔

ویسے بھی موسلا دھار بارش میں ننگے سر کھلے آسمان تلے بیٹھے شخص کے لیے یہ خوشخبری کیا کم ہے کہ اس کی خدمت کا وعدہ کر کے اسمبلیوں میں پہنچنے والے اس کے نمائندوں نے اقتدار کی جنگ جیت لی ہے۔ بے رحم سیلاب میں جن کا گھر بار ڈوب گیا ہے ان کو نوید ہو کہ ان کا دیا گیا مینڈیٹ بہرحال محفوظ ہے۔ اس دور نامراد میں بھلے دو وقت کی روٹی میسر نا ہو یہ خوش بختی کیا کم ہے کہ ان کو جمہوریت تو میسر ہے۔ ریلیف کیمپوں میں پناہ لینے والوں کا بھلے احترام نا ہو مگر ان کی رائے کا احترام تو کیا جا رہا ہے۔

پہلے بھی عرض کی تھی ایک بار پھر دست بستہ عرض ہے کہ موجودہ اسمبلیاں عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ ملک میں جاری معاشی او سیاسی بحران میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ نا ہی معیشت سنبھل رہی ہے اور نا ہی سیاسی استحکام نصیب ہو رہا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ معیشت سنبھالتے ہیں تو سیاست جاتی ہے اور اگر سیاست کرتے ہیں تو معاشی حالات کنٹرول سے باہر ہوتے ہیں۔ المیہ یہ کہ پنجاب کے بعد بالفرض وفاق میں بھی حکومت تبدیل ہو جائے تو بھی عام آدمی کی مشکلات میں کمی ہونے کا کوئی چانس نہیں ہے۔

تو کیوں نا جیسے تیسے کر کے ایک بار پھر عوام کی طرف جایا جائے اور ان کی رائے لی جائے کہ وہ کس کو برسر اقتدار دیکھنا چاہتے ہیں کم سے کم اس سیاسی عدم استحکام سے تو جان چھوٹ جائے گی اور جب سیاسی استحکام نصیب ہو گیا تو معاشی حالت بھی بہتر ہونا شروع ہو جائے گی۔ اور آخری بات یہ کہ نون لیگ کبھی بھی پنجاب کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دے گی۔ ایک بڑی سیاسی جنگ کی امید رکھیں جو شروع ہو چکی ہے اس میں شدت آئندہ چند روز میں نظر آئے گی۔ یہ نون لیگ کی سیاسی بقا کا معاملہ ہے اور وہ کبھی بھی پنجاب کی حق حاکمیت پر سمجھوتہ نہیں کرے گی شاید یہی وجہ ہے کہ اب نون لیگ کی قیادت شاید مریم نواز شریف کریں کیونکہ میڈٰیا ذرائع کے مطابق نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف کو لگتا ہے کہ شہباز شریف نے اقتدار لینے میں عجلت کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments