کیا واقعی وہ نفسیاتی مریض ہے؟


ہمارے ہاں آج کل ایک سیاسی رہنما کے بارے میں مسلسل یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ سائیکو پیتھی (psychopathy) کا شکار ہیں۔ یہ ازحد خطرناک امر ہے کیونکہ کسی بھی لیڈر کے چاہنے والے اسے کاپی کرتے ہیں اور اس کی بیماری اس کے پورے فین کلب کی بیماری بن جاتی ہے۔ اسی تجسس نے مجھے اس بیماری کی جدید نفسیاتی علامات جاننے پر ابھارا۔ میں چونکہ کوئی ڈاکٹر نہیں لہذا کوئی بھی فیصلہ یا رائے دیے بغیر وہ جدید نفسیاتی علامات لکھ کر فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں۔ علامات اگرچہ بہت سی ہیں لیکن میں پندرہ عمومی علامات ہی پر اکتفا کروں گا۔

( 1 ) ;ڈاکٹر شاگ (Schug) کے مطابق سائیکو پیتھی کے شکار انسان کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا مقصد پانے کے لیے بار بار بلا ضرورت جھوٹ بولتا ہے۔ مثلاً وہ اپنے مفادات کی خاطر سرعام جھوٹ بولے گا اور ضرورت پڑے تو انھیں سیاسی بیان دے کر یوٹرن لے لے گا۔ ( 2 ) ; ایسا انسان نہ ہی حقیقت پسند ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کوئی طویل المدت منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔ وہ لمحہ موجود میں زندہ ہوتا ہے اور اس سے آگے اسے کچھ نظر آتا بھی نہیں۔

مثلاً وہ یہ سمجھتا ہے کہ مسائل کا حل میں ہی ہوں اور اسی وجہ سے وہ باقی لوگوں کو بددیانت سمجھتا ہے لیکن چونکہ کوتاہ نظر ہوتا لہذا ذمہ داری نبھانے کا وقت آئے تو ”ہم تیار نہیں تھے“ کہہ کر دامن چھڑا لیتا ہے۔ ( 3 ) ; ڈاکٹر سالیکن (Salekin) ، ڈاکٹر بیبیاک (Babiak) اور ڈاکٹر ہیر (Hare) کے مطابق ایسا انسان خود کو سب سے افضل سمجھتا ہے۔ وہ انتہائی مکاری سے اپنی حقیقی خواہشات کو لوگوں سے چھپائے رکھتا ہے اور ظاہر یوں کرتا ہے جیسے وہ سب کچھ دوسرے لوگوں کے بھلائی کے لیے کر رہا ہو۔ مثلاً اس کے باطن میں تو وزارت عظمیٰ رچ بس چکی ہو لیکن وہ دوسروں کو یہی بتائے کہ اسے وزارت عظمیٰ کی خواہش تھی اور نہ ہی کسی اور چیز کی ضرورت تھی وہ تو بس قوم کی خاطر اتنا ذلیل ہو رہا ہے۔

( 4 ) ; ڈاکٹر بیبیاک اور ڈاکٹر ہیر کے مطابق ایسا انسان ہمدردی کے جذبے کو ضرورت کے مطابق ”آن آف“ بھی کرتا رہتا ہے۔ گویا وہ ہمدردی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ مثلاً وہ اپوزیشن میں ہوتو آزاد میڈیا اور صحافی اسے معاشرے کے لیے ناگزیر نظر آتے ہیں اور وہ ان کے لیے ہمدردی کو سوئچ آن کیے رکھتا ہے لیکن جونہی وہ حکومت میں آتا ہے تو وہ ہمدردی کو سوئچ آف کر دیتا ہے اور ایسے لوگوں کو غدار کہہ کر سکرین سے غائب کر دیتا ہے یا جیل میں ڈال دیتا ہے۔

( 5 ) ; ایسا انسان برے غصیلے مزاج کے حامل ہوتا ہے جس کے قول و فعل میں تکرار نمایاں ہوتا ہے لیکن وہ اسے بھی عجیب طرح کے دلائل سے اپنے ماننے والوں کے لیے پر کشش بنا لیتا ہے۔ مثلا اس کی تقریروں میں چور، ڈاکو، غدار، غلامی نامنظور، کرپشن، پچھلے ستر سال جیسے الفاظ کی تکرار اور ”پھر چار سال میں پکڑا کیوں نہیں اور ثبوت کہاں ہیں“ جیسے سوالوں پر یہ دلیل کہ ہمارے ہاتھ بندھے تھے۔ ( 6 ) : ایسا انسان آزادانہ جنسی ملاپ پسند ہوتا ہے۔

ایسا کرنا اس کے لیے اس لیے بھی آسان ہوتا ہے کیونکہ اس کے ماننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتا۔ جنسی تعلقات میں بھی تعلق سے زیادہ فریق ثانی پر اپنی قوت کی دھاک بٹھانا مقصود ہوتا ہے۔ ( 7 ) : ایسا انسان غیر محتاط ہوتا ہے اور اپنی دھن میں اس قدر مست ہوتا ہے کہ اسے کسی قانون یا تعلق کے ٹوٹنے کا بھی اندیشہ نہیں رہتا ہے۔ مثلاً کسی ایجنسی کے سربراہ کو کہنا کہ فلاں کے خلاف غداری کا کیس بناؤ لیکن وہ سربراہ کہے کہ قانوناً ایسا ہونا ممکن نہیں تو وہ اسے کھڈے لائن لگا دینا۔

اپنے مقصد کی خاطر پرانے ساتھیوں کی قربانی دینی پڑے یا تھانے جا کر اپنے حامیوں کو چھڑانے کے لیے قانون توڑنا پڑے اسے ”ککھ“ پروا نہیں ہوتی۔ ( 8 ) :British Journal of Psychiatry کے مطابق ایسے انسان کا رویہ بچوں کی طرح ہوتا ہے۔ مثلاً وہ خود کو لاڈلا گردانتے ہوئے کھیلنے کو چاند بھی مانگ سکتا ہے یا ملک کو کھلونا سمجھ کر یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میں ہی کھیلوں گا ورنہ کھلونا ہی توڑ دو۔

( 9 ) : اسے مجرمانہ رویہ پسند ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی مظلوم عورت کی افسر کی ویڈیو لے کر انصاف کی متمنی ہو لیکن وہ افسر کو نشانہ عبرت بنانے کی بجائے الٹا اسے ان ویڈیوز کی مدد سے بلیک میل کر کے اپنے مخالفین کو تختہ مشق ستم بنائے گا۔ ( 10 ) : سائیکو پیتھ سے متعلق کسی قسم کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ مستقل مزاجی کی بجائے وہ اپنے مفادات کے لحاظ سے اپنی ٹیم اور اپنے بیانات بدلتا رہتا ہے۔ مثلاً ضرورت ہو تو ایمپائر ایماندار اور ضرورت پڑے تو وہی نیوٹرل جانور بن جاتا ہے۔

( 11 ) :ایسا شخص ”ٹاک آف ٹاؤن“ ، خود پسند اور خوشامد پسند ہوتا ہے اور وہی کہانیاں سننا سناتا پسند کرتا ہے جن میں بس صرف وہی اچھا ہو۔ ( 12 ) : ایسا انسان ہیجان پسند ہوتا ہے اور ہیجانی صورتحال پیدا کر کے نادم ہونے کی بجائے لطف اندوز بھی ہوتا ہے۔ مثلاً جلاؤ، گھیراؤ، مرو اور مار ڈالو کے نعرے اسے تسکین بخشتے ہیں۔ ( 13 ) : اسے اپنے متعلق لوگوں کی وابستگی کی خبر ہوتی ہے اور اس کی پوری پوری قیمت وصول کرتا ہے۔

وہ سمجھتا ہے کہ قانون اس پر لاگو ہی نہیں ہوتا لہذا وہ اپنے نظریات کو وہی قانون کا درجہ دیتا ہے۔ ( 14 ) : وہ اپنی تقاریر اور نعروں سے لوگوں کو استعمال کرنے کا فن جانتا ہے اسے کسی قسم کا پچھتاوا یا احساس نہیں ہوتا بھلے اس کے قول و فعل سے کسی کی عزت کا جنازہ ہی نکل جائے کیونکہ اسے اپنے قول و فعل پر کوئی اختیار ہی نہیں ہوتا۔ ( 15 ) ؛سائیکو پیتھ کا لائف سٹائل اعلیٰ ہو گا جس کے لیے جملہ اخراجات وہ اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسروں سے نکلواتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments