جس محلے میں تھا ہمارا گھر


ڈاکٹر سجاد احمد صدیقی کی یادوں اور خاکوں پر مشتمل کتاب پر اس کے علاوہ اور کیا تبصرہ کروں کہ اس کا پہلا خاکہ ”بڑی امی“ پڑھتے ہوئے میرے آنسو بہنے لگے تھے۔ اس کتاب کا انتساب بھی ماں کے نام ہی ہے۔ یہ ایک ہی نشست میں پڑھے جانے والی کتاب ہے۔ ایک دفعہ ہاتھ میں اٹھا لیں تو ختم کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ پہلا خاکہ ہی اتنا پر اثر ہے کہ قاری کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ بڑی امی جو ساری زندگی اپنے ارادے کی پختگی اور سچائی کے ساتھ مشکل ترین حالات سے نبرد آزما رہیں۔

کیسے اپنے شوہر کی محدود آمدنی میں انہوں نے دو کمروں کے کواٹر میں دس بچوں کو پالا اور تعلیم دلوائی۔ بڑی امی کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے اس دور کا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے کہ کیسے غریب اور مفلس لوگ دوسروں کے مہمانوں کی مدارات بھی اپنے مہمانوں کی طرح کرتے تھے۔ یہ اقدار نہ صرف ناپید ہو گئی ہیں بلکہ ان کی جگہ بغض، حسد اور لالچ نے کچھ اس طرح معاشرے پر قبضہ کر لیا ہے کہ یقین نہیں آتا کہ چند دہائیوں میں ہم اخلاقی طور پر اس تیزی سے تنزلی کا شکار ہو گئے ہیں۔

پندرہ۔ بارہ۔ چوراسی، ان کے والد کے بارے میں ہے۔ جو کیمبل پور اٹک میں پیدا ہوئے اور اپنے چھ بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ تھے یعنی چھ جماعت تک۔ اس تعلیمی قابلیت کے ساتھ روزگار کی تلاش میں کراچی آئے۔ غالباً 1940 کا زمانہ تھا۔ یہاں آنے کے بعد پہلے انڈین پولیس میں بطور حوالدار نوکری کی لیکن کچھ ہی عرصہ بعد اس ملازمت کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ یہ کمائی ظلم پر مبنی ہے۔ پولیس لوگوں پر جائز ناجائز تشدد کرتی ہے لہذا یہ نوکری حرام ہے۔

کراچی پورٹ ٹرسٹ اس زمانے میں ایک ابھرتا ہوا ادارہ تھا۔ کچھ عرصہ وہاں ڈیلی ویجز پر کام کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں اپنی محنت اور ایمانداری کی وجہ سے ادارے میں مستقل بنیادوں پر ملازمت حاصل کر لی۔ جس کی بنیاد پر انہیں محکمہ کی جانب سے ایک رہائشی کواٹر بھی مل گیا۔ تحریک آزادی ان دنوں عروج پر تھی۔ جس کے کچھ واقعات وہ اپنے بچوں کو سناتے تھے اور اس کتاب کے توسط سے ہمیں بھی یہ جاننے کا موقع ملا کہ کس طرح قتل و غارت گری ہوئی، سرحد کے اس پار جس طرح مسلمانوں کو مارا گیا، سرحد کے اس پار کراچی میں ہندوؤں کو بے رحمی سے مارا گیا۔ ان کی جائیدادوں پر قبضے کیے گئے اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔

سجاد کے والد کی بہت سے ہندوؤں سے دوستی تھی، انہوں نے ان کا ہر ممکن ساتھ دیا اور کئی کو پناہ دی۔ ان کا ایک ہندو دوست جاتے ہوئے اپنے دھرم شالے کی چابیاں، جس میں مندر اور پندرہ بیس گھر تھے، ان کو دے گیا۔ لیکن انہوں نے یہ چابیاں اور سامان محکمہ ء اوقاف کے حوالے کر دیا۔ کیسے فرشتہ صفت لوگ تھے۔

سجاد کے گھرانے کی انوکھی بات یہ ہے کہ ان کے پشتون والد کی شادی جس گھرانے میں طے پائی، اس کا تعلق بنگال سے تھا۔ ان کے نانا ڈھاکا سے اپنی امی اور والد کے ہمراہ کیمبلپور آئے تھے۔ نانا کے والد اور والدہ دونوں عالم دین تھے۔ اور یہاں آنے کا بنیادی مقصد دین کی تبلیغ اور اشاعت تھی۔ ان کے قائم کیے ہوئے مدرسے اور مسجد آج بھی ان کے گاؤں میں موجود ہیں۔ اس گھرانے کی مذہبی حیثیت سے متاثر ہو کر سجاد کے ابا کی شادی یہاں طے پا گئی۔ اور یہ جاننے کے بعد قاری کو سجاد کی امی کی غیر معمولی شخصیت کی سمجھ آتی ہے۔

سجاد اپنے والد کی زندگی کے سفر کو اب جب پلٹ کے دیکھتے ہیں تو ان کی عظمت کے قائل ہو جاتے ہیں۔ ایک چھ جماعت پاس کلرک نے کس طرح وسائل کی کمی اور نامساعد حالات میں رشتوں کو جس خوبصورتی سے نبھایا، وہ ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے۔ نانا نانی کے بارے میں خاکہ بھی بہت دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ ڈاکٹر سجاد احمد صدیق کی نانی کی والدہ کا تعلق بنگال سے تھا اور وہ ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے نانا کے والد صحبت اللہ کچھ عرصہ تبلیغ کے لئے بنگال گئے۔ وہاں کے کچھ جماعت والوں نے دینی رشتے کو مستحکم کرنے کے لئے ان سے کہا کہ وہ بنگال میں نکاح کر لیں تا کہ یہ دوستی ایک رشتے میں بدل جائے لہذا ان کے نانا نے بنگال میں نکاح کیا اور اپنی شریک حیات کو پاکستان لے آئے۔

میرے خیال سے ڈاکٹر شیر شاہ سید جنہوں نے اس کتاب کا دیباچہ لکھا ہے کو اب یہ بات سمجھ آ جانی چاہیے کہ سجاد احمد صدیقی شکل سے کراچی کے اردو بولنے والے مہاجروں کی نسل کے نمائندہ کیوں لگتے ہیں، ”نسوار وہ چباتے نہیں، پابندی سے پانچ وقت کی نماز پڑھنے کے باوجود شدت پسند مسلمان نہیں ہیں۔ کراچی کے گلی کوچوں سے خوب آگاہ ہیں۔ غالب، فیض، فراز اور ساحر کے اشعار سناتے رہتے ہیں اور سب سے زیادہ گمراہ کرنے والی بات یہ ہے کہ درست شین قاف کے ساتھ بہت اچھی اردو بولتے ہیں۔ میرے تو گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ آدمی اصلی اور نسلی پشتون ہے“ ۔

نثار بھائی جان پر خاکہ بڑے بھائی کی قربانیوں کی داستان ہے جو انہوں نے اپنے خاندان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لئے دیں۔ اس خاکہ کے آخر میں انہوں نے عمیر نجمی کی غزل درج کی ہے جو انہیں نثار بھائی کی آواز لگتی ہے۔ ایک شعر ملاحظہ ہو:

تجھے نہ آئیں گی مفلس کی مشکلات سمجھ۔ میں چھوٹے لوگوں کے گھر کا بڑا ہوں، بات سمجھ

سجاد احمد صدیقی کے گھر میں ایک ولی بھی تھا۔ ذہنی طور پر مجذوب طبعیت، جس کام پر لگا دیا یک سوئی سے اس کام میں جت جانا۔ یہ ان کے خورشید ماموں تھے۔ جنہوں نے اپنے وجود اور زندگی کو لوگوں کی خدمت کے لئے وقف کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے حلقۂ احباب میں ہر ایک کی دل و جان سے بے لوث خدمت کی، لیکن معصوم اور کمزور لوگوں کے ساتھ عام انسانوں کا جو رویہ ہوتا ہے، جو اباً وہ اسی کا نشانہ بنتے۔ انہیں ستایا جاتا، محلے کے بچے اور بعض نوجوان ان پر آوازیں کستے، کوئی پتھر مار دیتا اور کوئی دھکا دے دیتا۔ لیکن انہوں نے کبھی کسی سے کوئی گلہ یا شکوہ یا اظہار ناراضگی نہیں کیا۔

سجاد کے منا بھائی جان اپنی وجیہہ شخصیت، فیشن ایبل لباس، خوب صورت ہیئر اسٹائل، اور سن گلاسز کے ساتھ ایک انمٹ تصویر کی طرح سجاد کے ذہن پر نقش ہیں۔ زندگی کو انہوں نے ہمیشہ حال میں گزارا اور بھرپور گزارا۔ آنے والے کل کی انہوں نے کبھی فکر نہیں کی۔ وہ زندہ دل طبعیت کے مالک تھی۔ طبعیت کی یہ جولانی انہیں اپنے والدین سے ورثے میں ملی تھی۔ وہ آج میں زندہ رہتے تھے اور آج کو ہی زندگی سمجھتے تھے۔ اس لئے ان کی تمام زندگی لالچ اور حرص و ہوس سے محفوظ رہی۔ غرور، تکبر، نفرت نام کی کوئی شے ان کے قریب سے نہیں گزری۔

کووڈ 19 کے لاک ڈاؤن کے دوران ان کی بیگم امریکہ میں پھنس گئیں تو انہیں تنہا گھر بار کی ذمہ داری سنبھالنی پڑی، اس کا حال ”اک تیرے جانے کے بعد“ کے عنوان سے بہت دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ اگلا مضمون ”جس محلے میں تھا ہمارا گھر“ اس کتاب کا نام بھی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کے اس دور کی کہانی ہے جب لوگ غربت اور مفلسی کے باوجود باہمی رشتوں کو مضبوط کر کے غربت کو شکست دیتے تھے۔ وسائل سے محرومی کے باوجود وہ ایک لاجواب عہد تھا۔ جو اب ناپید ہو چکا ہے۔ آخری مضامین پڑھ کر بھی آپ کو بہت لطف آئے گا۔ یہ کتاب کوہی گوٹھ پبلیکیشنز نے شائع کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments