خدیجہ مستور کا ناول: ”زمین“


تقسیم ہند نے بہت سے مسائل کو جنم دیا۔ ایک طرف قتل و غارت گری کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا تو دوسری جانب فرقہ ورانہ فسادات نے جنم لیا۔ اس صورت حال نے انسانوں کے دلوں پر اور خصوصاً ادیبوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اور انھوں نے ان واقعات کو قلم بند کرنا شروع کیا۔ جہاں مردوں نے اس صورت حال پر لکھا وہیں عورتوں نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا۔

چونکہ عورت کا دل نازک اور حساس ہوتا ہے، اس لیے وہ اس صورت حال سے مردوں کی بہ نسبت زیادہ متاثر ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کے ہاں ان واقعات کا بیان زیادہ بھرپور انداز سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ ان میں ایک اہم نام خدیجہ مستور کا بھی ہے۔ 1947 کے بعد کے چند سال انتہائی تکلیف دہ تھے۔ ان چند برسوں میں ہونے والے واقعات نے ادیبوں اور شاعروں کو بے حد متاثر کیا۔ فیض کی نظم ”صبح آزادی“ منٹو کے افسانے ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ اور ”کھول دو“ ، راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ ”لاجونتی“ اور راما نند ساگر کا افسانہ ”اور انسان مر گیا“ اسی تناظر میں ہیں۔

خدیجہ مستور نے بھی یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور انھیں اپنے ناولوں میں بیان کیا۔ اسی تناظر میں ان کا ناول ”زمین“ 1982 میں منظر عام پر آیا۔ ناول کی کہانی 1947 کے پس منظر پر ہے۔ ناول کا آغاز ایک مہاجر کیمپ سے ہوتا ہے۔ ابتدا میں مہاجر کیمپ میں پیش آنے والے واقعات کا مختصر ذکر ہے۔ اور پھر دو مہاجر لڑکیوں ساجدہ اور تاجی کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ہجرت کر کے پاکستان آتے ہیں جن کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔ لیکن پاکستان آ کر سب کی معاشی اور معاشرتی حیثیت بدل جاتی ہے۔ ان میں سے کوئی متوسط طبقے سے ادنی طبقے میں شامل ہو جاتا ہے اور کسی کا شمار ملک کے معزز افراد میں ہونے لگتا ہے۔

ساجدہ اور تاجی کو ایک خاندان مہاجر کیمپ سے اٹھا کر گھر لاتا ہے۔ اور انھیں گھریلو ملازمین کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ساجدہ بھی حالات کی چکی میں پستی ہے لیکن وہ قدرے دلیر کردار واقع ہوئی ہے۔ وہ حالات کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس تاجی حالات سے سمجھوتا کر لیتی ہے اور کاظم نامی شخص کے ہاتھوں استعمال ہوتی ہے۔ لیکن جرم کا ذمہ دار پھر بھی خود کو ہی ٹھہراتی ہے۔ ساجدہ بعد میں ناظم سے شادی کر لیتی ہے۔ یہ کاظم کا بھائی اور قدرے مضبوط کردار ہے۔ اس طرح ناول کی کہانی آگے چلتی رہتی ہے اور ساجدہ اور ناظم کی گھریلو زندگی پر انجام کو پہنچتی ہے۔

ناول ”زمین“ کے اہم کرداروں میں ساجدہ، تاجی، کاظم، ناظم، سلیمہ، مالک، بڑی اماں اور خالہ بی ہیں۔ ان کرداروں کے علاوہ ساجدہ کا باپ، انوری اور صلاح الدین ناول کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مالک ناول کا اہم کردار ہے۔ کاظم اور ناظم اس کے بیٹے ہیں۔ بڑی اماں ان کی بیوی ہیں اور خالہ بی شادی سے قبل ان کی معشوقہ رہ چکی ہیں۔ خالہ بی کے بیوہ ہونے کے بعد مالک انھیں اور سلیمہ کو اپنے گھر لے آتا ہے۔ اپنی بیوی اور اولاد سے زیادہ انھیں اہمیت دیتا ہے۔

مالک کا کردار ان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جنھوں نے تقسیم ہند کے بعد دوسروں کی چھوڑی ہوئی جائیداد پر ناجائز قبضہ کر لیا۔ لیکن پھر بھی ان کی ہوس ختم نا ہوئی۔ اور وہ دوسروں پر یہی ظاہر کرتے رہے کہ انھیں ان کی حیثیت سے کم ملا۔ مالک کے علاوہ ان کا بیٹا بھی ان کی نمائندگی کر رہا ہے جنھوں نے خود کو مظلوم اور مستحق ظاہر کر کے دوسروں کی جائیداد کو اپنی ملکیت بنا لیا۔

تاجی ناول کا مظلوم ترین کردار ہے۔ کاظم اسے بار بار اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے لیکن وہ خاموشی سے سب کچھ سہتی رہتی ہے۔ وہ اس بات کو ذہن میں بٹھا لیتی ہے کہ اگر وہ کاظم سے بچ کر چلی بھی گئی تو اس کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ کاظم کے جرم کا ذمہ دار بھی وہ خود ہی کو ٹھہراتی ہے۔ ناظم ناول کا ہیرو ہے۔ وہ ایک محب وطن کردار ہے۔ وہ تحریک پاکستان میں حصہ لیتا ہے لیکن تقسیم ہند کے بعد ملک میں نا انصافی اور بے ایمانی دیکھ کر اسے تکلیف ہوتی ہے۔ سلیمہ ناول کا معاون کردار ہے۔ اور فقط ناول کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

”زمین“ قیام پاکستان کے بعد کی ابتدائی زندگی پر لکھا جانے والا اہم ناول ہے۔ قیام پاکستان کے وقت اور اس کے بعد جو حالات سامنے آئے ان کا تذکرہ ہے۔ خدیجہ مستور نے اپنے پہلے ناول ”آنگن“ میں ایک موازنے کی سی کیفیت پیدا کی ہے کہ ایک بستا ہوا اور اجڑا ہوا آنگن کیسا ہوتا ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدیجہ مستور نے جہاں ناول ”آنگن“ کو ختم کیا تھا وہیں سے آگے ”زمین“ کا آغاز کیا ہے۔

”زمین“ میں خدیجہ مستور نے ان لوگوں کو موضوع بنایا ہے جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان آئے تھے اور انھیں حصے میں جو ملنا تھا اس میں بے انصافی ہوئی۔ ناول ہمیں بتاتا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں کیا کیا منصوبے بناتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے۔ اور انسان کے تمام خواب دھڑام سے زمین پر گر جاتے ہیں۔ تاریخ اور سیاست کی طرف سے ملنے والے دکھوں کو انھوں نے ناول کا موضوع بنایا ہے۔ اور اخلاقی اقدار کے زوال کا المیہ بھی بیان ہوا ہے۔

ناول کا آغاز مہاجرین کے ایک کیمپ سے ہوتا ہے۔ اس کیمپ میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے وہ تمام لوگ موجود ہیں جو ہندوستان سے ہجرت کر کے آئیں ہیں۔ یہاں ہمیں مہاجرین کے مختلف رویے بھی نظر آتے ہیں جو مثبت اور منفی دونوں طرح کے ہیں۔ ناول کے آغاز میں ایک بوڑھا اپنی بیٹی کے نا ملنے پر بالآخر سر جھکا کر بیٹھ جاتا ہے۔ بالکل یہی صورت حال ہمیں منٹو کے ہاں افسانہ ”کھول دو“ میں بھی نظر آتی ہے۔

تاجی کا کردار ناول کے موضوع کے لحاظ سے اہم ترین کردار ہے۔ اس کردار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت چاہے آزاد ملک کے معاشرے میں ہو، اگر وہ کمزور اور بے بس ہو تو لوگ اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اور پھر بعد میں چھوڑ دیتے ہیں۔ تاجی کی ماں نے اسے اس امید پر پاکستان بھیج دیا تھا کہ وہ ایک محفوظ ملک میں رہے گی۔ لیکن یہاں پہنچنے کے بعد اس کے ساتھ سلوک اس کے برعکس ہوتا ہے۔ بالکل یہی منظر نامہ ہمیں راجندر سنگھ بیدی کے افسانے ”لاجونتی“ میں بھی نظر آتا ہے۔

تیسرا پہلو جو ناول میں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ: قیام پاکستان کے بعد جن لوگوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ان میں سے بیشتر نے مہاجرین کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی۔ بلکہ غیر قانونی طریقے سے اپنی حیثیت اور حقیقت کو بدلا۔ اور مہاجرین کو ان کے حصے میں جو ملنا تھا جب انھیں اس سے محروم رکھا گیا تو وہ نہ صرف روحانی طور پر زخمی ہوئے بلکہ معاشی طور پر تنگ دست بھی ہو گئے۔ اور ایک طرح سے یہ پاکستانی معاشرے کی بدنصیبی کی ابتدا تھی۔ اس منظر نامے پر قدرت اللہ شہاب کا ناولٹ ”یا خدا“ بہترین مثال ہے۔

چوتھا پہلو اس میں حقیقت نگاری کا ہے۔ ”زمین“ حقیقت نگاری کی روایت میں لکھا ہوا ایک معاشرتی ناول ہے۔ جس میں تمام کردار ایک ہی گھر میں رہتے ہیں لیکن وہ تمام مختلف خیالات کے مالک ہیں۔ خدیجہ مستور نے ایک ایسے گھرانے کی داستان بیان کی ہے جو قیام پاکستان سے قبل عام سی زندگی گزار رہا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس گھرانے کے افراد نے ہر طرف لوٹ کھسوٹ کا بازار دیکھا تو وہ بھی اس میں متحرک ہو گئے۔ اور بے ایمانی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

پانچواں پہلو تقسیم ہند کے بعد بستے اور اجڑتے گھرانوں کی داستان ہے۔ چھٹا پہلو سیاست پر مبنی ہے۔ ”زمین“ میں قیام پاکستان کے بعد کے واقعات اس طرح بیان ہوئے ہیں کہ اس زمانے کے سیاسی اور معاشرتی حوالے بھی محفوظ ہو گئے ہیں۔ قائد اعظم کی وفات کا عوامی زندگی پر کس طرح اثر ہوا۔ اور ہر طبقے نے اپنی سوچ کے مطابق اس صدمے کو محسوس کیا۔ اس کا تذکرہ بھی ہمیں مل جاتا ہے۔ دراصل قیام پاکستان کے بعد بہت سے مسائل در پیش تھے۔ ان میں بنیادی مسئلہ مہاجروں کی آباد کاری کا تھا۔ جس سے مفاد پرستوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہ ناول انھی مسائل کے گرد گھومتا ہے۔

خدیجہ مستور کا اسلوب بے حد متاثر کن ہے۔ وہ بہت اچھی نثر نگار ہیں۔ اور بات کو قاری کے ذہن میں اتارنے کا فن جانتی ہیں۔ وہ حقیقت پسند خاتون ہیں۔ انھوں نے کبھی جھوٹ کی آمیزش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے جس موضوع پر بھی لکھا اس پر انھیں پورا عبور حاصل ہوتا ہے۔ منفرد اسلوب کی وجہ سے دیگر ناول نگاروں میں اپنے لیے راستہ بنایا۔ ناول ”زمین“ اپنے اسلوب، مکالمہ اور جزئیات کے حوالے سے بھرپور ہے۔ انھوں نے کہانی کے مناظر، مکالمے اور کرداروں کے لیے ایسا اسلوب اختیار کیا کہ قاری بھی خدیجہ مستور کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ چونکہ یہ خدیجہ مستور کا آخری ناول ہے اور انھیں اس پر نظر ثانی کا موقع ہی نہیں ملا۔ اس لیے ناول کے مناظر زیادہ بھر پور نہیں ہیں۔ البتہ آغاز میں انھوں نے جہاں مہاجر کیمپ کے مناظر بیان کیے ہیں وہ قابل داد ہیں۔

خدیجہ مستور کا اسلوب سادہ مگر دل کش ہے۔ ان کے ہاں محاورے اور فقرے بازی پر زور نہیں ہے۔ اپنی زندگی کی طرح وہ اپنے اسلوب کی آرائش و زیبائش سے بھی دور رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے انسانی نفسیات کے بے حد گہرے مسائل کو آسان اور مختصر جملوں میں بیان کر دیا۔ انھوں نے کہیں بھی مشکل تجربے سے کام نہیں لیا۔ اسلوب بیان میں روزمرہ کی زبان استعمال کی ہے۔ ان کے اسلوب بیان کا کمال یہ ہے کہ وہ جس طبقے کی بھی بات کرتی ہیں وہ انھی کے انداز سے کرتی ہیں۔ اور ان کے دکھ درد کو محسوس کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments