ایک تھا آئین


وہ لاوا جو بہت دنوں سے اندر ہی اندر پک رہا تھا، اُبل پڑا۔یہ 12 جنوری 2018 کا واقعہ ہے، سپریم کورٹ آف انڈیا کے چار سینئیر ججزنے ایک پریس کانفرنس کی جس میں چیف جسٹس آف سپریم کورٹ پر شدید تنقید کی گئی، مرکزی نقطہ ایک ہی تھا’ جونئیر ججوں پر مشتمل، مرضی کے بینچ بنائے جاتے ہیں جو سیاسی نوعیت کے تمام اہم کیسز سنتے ہیں‘ ۔ چیف جسٹس کے بعد بھارتی سپریم کورٹ کے سینئیر ترین جج چیل میسور ان چار ’باغی‘ ججوں کی سربراہی کر رہے تھے، جن کا کہنا تھا کہ انہیں یہ انتہائی قدم اس لیے اٹھانا پڑا کہ عدلیہ کو جس طریقے سے چلایا جا رہا ہے اس سے ہندوستان کی جمہوریت کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔قوموں کی زندگی میں سانحے پلک جھپکتے نہیں ہو جاتے، دہائیاں لگ جاتی ہیں۔

یہ فروری 2021 کی بات ہے، پاکستان کی سپریم کورٹ کے چار معزز جج صاحبان (اس وقت کے چیف جسٹس گلزار، جسٹس عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مشیر عالم) نے ایک حکم جاری کیا جس کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر پابندی عائد کر دی گئی کہ کہ وہ کسی ایسےبینچ کا حصہ نہیں ہوں گے جو عمران خان سے متعلق کوئی کیس سن رہا ہو گا، ایسا اس لیے کیا گیا کہ کوئی عدالت پر جانب داری کا شبہ نہ کر سکے اور انصاف کا بول بالا ہو۔یاد رہے کہ عمران خان نے عدالت سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا، معزز عدالت نے اپنے تئیں انصاف کے وسیع تر اصولوں کو مدِ نظر رکھ کر یہ مثالی فیصلہ صادر فرمایا تھا۔ فل کورٹ کی درخواست کرنے والوںکے پیشِ نظر غالباً یہی اصول رہا ہو گا۔اور پھر انصاف کا سب سے بڑا اصول بھی یہ کہتا ہے کہ (دو دفعہ ’ اصول، اصول‘ لکھا تو جون بھائی یاد آ گئے، فرماتے ہیں: اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر، کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی)۔ چلیے، کوئی اور بات کرتے ہیں۔

بات نقطہء نظر کی نہیں ہے، حقائق کی ہے۔ سپریم کورٹ کے بہت سے ججز کے ناموں سے عوام یکسر ناواقف ہیں کیوں کہ وہ آج تک کسی اہم بینچ پر متمکن نظر نہیں آئے، کیا وجہ ہے؟ اصول کیا ہے (پھر اصول) یہ سنیارٹی نہیں ہے، لیاقت نہیں ہے، صوبائی نمائندگی نہیں ہے ۔ تو پھر کیا ہے؟ یہ ضروری ہے کہ یہ اصول سب کو معلوم ہو تاکہ حاسدین باربار ہمیں یہ طعنہ نہ دے سکیں کہ ’آپ کی عدلیہ دنیا میں 130 ویں نمبر پر بلا وجہ تو نہیں پھسل گئی‘۔دو دن ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس بندیال کو ایک خط لکھا ہے، جس میں جونئیر ججز کو سپریم کورٹ میں لانے کی کوشش پر تنقید کی گئی ہے، فائز عیسیٰ سمجھتے ہیں کہ کسی اصول کے بغیرجب تیسرے چوتھے نمبر کے ججز کو عدالتِ عظمیٰ میں لایا جاتا ہے تو پھر کل کو یہی جج آپ کو ہر اہم کیس سنتے نظر آتے ہیں۔ ان کے بقول یہی وہ شکنجہ ہے جس میں عدالتیں دہائیوں سے پھنسی ہوئی ہیں۔کیا ہم سپریم کورٹ کے اگلے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی بات کو نظر انداز کر سکتے ہیں؟ (ایک ایسا جج جس نے اپنے بہت سے ساتھیوں کے برعکس آج تک کوئی ’قانونی‘ پلاٹ بھی حاصل نہیں کیا)۔ اعلیٰ عدلیہ کی کہانی اکثر دوست مولوی تمیزالدین سے شروع کرتے ہیں، پھر چار مارشل لاز سے گزرتے ہوئے، مقبول لیڈرز کی پھانسیوں، قتل، جلا وطنیوں، نااہلیوں اور غداریوں کے ضمن میں عدالتی فیصلوں کے تذکرے کرتے چلے جاتے ہیں، ایک ہی داستانِ شب، ایک ہی سلسلہ تو ہے۔ اس کہانی میں کوئی موڑ نہیں ہے۔سو ہماری تاریخ میں بھی کوئی موڑ نہیں ہے، یہ ڈھلان کا سفر ہے، ہم گرتے چلے جا رہے ہیں، تیزی سے، اور تیزی سے۔

موجودہ آئینی و سیاسی بحران کا نقطہ آغاز کیا عمران خان کی حکومت کو ختم کرنا تھا؟ یا 2017 میں نواز شریف کی حکومت کو ختم کرنا؟ یہ بحث جاری رہے گی۔ لیکن اس بارے تو کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ مرکزی اور پنجاب حکومت کی مشکیں چند عدالتی فیصلوں نے روزِ اول سے ہی کس دی تھیں، آئین کی دفعہ تریسٹھ اے کی ایک ایسی تشریح کی گئی جسے قانونی ماہرین نے از سرِ نو آئین لکھنے کے مترادف قرار دیا، یعنی منحرفین کا ووٹ ہی نہیں گنا جائے گا (آئین کے اس حصے کے خالق رضا ربانی ہمارے درمیان موجود ہیں، کوئی ان سے ہی پوچھ لیتا کہ آئین لکھنے والوں کی کیا منشا تھی) پھر اس کا اطلاق ماضی سے کیا گیا، جس سے پنجاب حکومت مسلسل ڈولتی رہی، مرکزی حکومت کو تعیناتیوں سے روک دیا گیا، اور وزیرِ اعظم کو آئے دن عدالتوں میں گھسیٹا گیا، ملک بے یقینی کی دلدل میں دھنستا چلا گیا، معیشت مزید تباہ ہو ئی اورعدالتیں آئینی اور سیاسی بکھیڑوں کو ’سلجھانے‘ میں محو رہیں۔ حتیٰ کہ ہم یہاں آن پہنچے۔ دیر تو بہت ہو چکی ہے مگر اب بھی نیت صاف کر لی جائے تو رستہ نکل سکتا ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ محترمہ فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو سے نواز شریف تک سب کے لیے ایک قانون ہو اور عمران خان کے لیے کوئی دوسرا قانون۔ آئین اور قانون سے پچھتر سالہ کھلواڑ کا انجام آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

صاحبانِ بصیرت قوم کو آسمان لال ہونے سے پہلے ہی آنے والے طوفان سے آگاہ کر دیتے ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزادؒ نے مشرقی پاکستان کے جس سانحے کی طرف اشارہ کیا تھا اسے 25 سال لگے تھے، حکیم محمد سعید مرحوم نے جس حادثے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا اسے بھی 25 سال ہونے والے ہیں۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments