امدادی کارروائیوں میں پاکستان فوج کا کردار: دفاعی بجٹ کا افسانہ
فوج ہمیشہ کسی بھی ریاست کے معاملات میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مضبوط افواج ملک کے مضبوط ہونے کی ضامن ہوتی ہیں اور دشمن کے دماغ پر دھاک بٹھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مناسب فوجی انتظام کے بغیر ریاستیں یا کمزور فوج والی ریاستیں غیر مستحکم رہتی ہیں اور دوسرے اداکار اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیبیا جیسے ممالک جن کے پاس تیل و گیس کی شکل میں وسیع قدرتی وسائل ہیں، اور مضبوط غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے باوجود، ایک مضبوط فوج کی کمی کی وجہ سے غیر مستحکم اور مخالفین کے ہاتھوں تباہی کا شکار ہوئے۔
مضبوط بجٹ، تکنیکی صلاحیت، جدید ہتھیار اور فوج میں افراد کی زیادہ تعداد مضبوط فوج کی ایک اکائی ہیں۔ مضبوط فوج اور جدید ہتھیار دشمن کے دل و دماغ میں دھاک بٹھاتے ہیں۔ مضبوط فوج کے لیے کچھ مزید عوامل کا ہونا لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے، جب اس ملک کا ایک عام آدمی اپنی فوج کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے جب ایک عام آدمی اپنی فوج کا ساتھ دینے کے لیے ہمیشہ تیار ہوت ہے جب ایک عام آدمی اپنی فوج کے ساتھ اپنے ملک کے لیے مرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔
پاکستان کی عوام ہمیشہ اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے، چاہے وہ زلزلہ ہو، سیلاب ہو یا کوئی اور قدرتی آفت، پاک فوج نے ہمیشہ ہر مشکل وقت اور حالات میں اپنے عوام کی مدد کرنا اپنا اولین فرض سمجھا ہے۔ اسی طرح کسی بھی غیر ملکی حملے کی صورت میں پاکستانی عوام اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ 1965 کی جنگ میں سیالکوٹ کے محاذ پر چونڈہ سیکٹر ہو یا 1965 کی جنگ میں رات گئے لاہور پر بھارت کا بزدلانہ حملہ، قوم اور فوج ہمیشہ متحد رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پورا ملک ایک اکائی ہے۔ فوج کوئی الگ یونٹ نہیں، فوج ہمارے باپ، بھائیوں اور بیٹوں کا مجموعہ ہے۔ جو ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے دن رات مصروف عمل ہے۔
2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان کے حالات بھی اس وقت خراب ہونے لگے جب افغانستان سے شدت پسند مہاجرین کی شکل میں پاکستان منتقل ہوئے اور پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) قائم ہوئی۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اپنی دہشتگردانہ کارروائیوں میں پاک فوج اور معصوم وام کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ ان گھناؤنی کارروائیوں کے خاتمے کے لیے پاک فوج نے دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے اور پاکستان کی سرزمین کی حفاظت کے لیے انسداد دہشت گردی کارروائیاں شروع کی۔
گزشتہ پچاس سالوں کے دوران، پاکستان کا دفاعی بجٹ 1970 کی دہائی میں ٹوٹل جی ڈی پی کا 6.50 ٪ تھا جو کہ 2021 تک گراوٹ کا شکار ہو کر محض 2.54 ٪ تک رہ گیا ہے۔ بجٹ 2021۔ 22 میں، ’دفاعی خدمات‘ کے لیے 1,370 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ 8,487 ارب روپے، کل بجٹ کے وسائل کا محض 16 فیصد ہے۔ اس 16 فیصد مختص میں سے پاک فوج کو 594 ارب روپے ملتے ہیں۔ درحقیقت، پاکستانی فوج کو کل بجٹ کے وسائل کا 7 فیصد حصہ ملتا ہے۔ پاک فوج نے سال 2019 میں ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے بجٹ میں مختص کیے گئے 100 ارب روپے بھی ترک کر دیے تھے۔
SIPRI کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کو دنیا کے سب سے زیادہ فوجی اخراجات کرنے والے 40 ممالک کی فہرست میں 23 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے، جو 2020 کے مقابلے میں ایک درجہ نیچے ہے جو کہ پاکستان کی فوج کے فوجی اخراجات پر کم خرچ کر کے حکومت کی مدد کرنے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور وسائل کا ایک بڑا حصہ ایٹمی طاقت کو محفوظ رکھنے میں صرف ہوتا ہے۔
پاکستان کے دفاعی بجٹ کے حوالے سے ایک افسانہ ہے کہ پاکستان اپنے بجٹ کا 80 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے، اس کے برعکس درحقیقت حکومت صرف 16 فیصد دفاع سے متعلق اور 84 فیصد دیگر غیر دفاعی اخراجات پر خرچ کرتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق فوج کو 7 فیصد جبکہ بحریہ اور فضائیہ کو کل بجٹ کا 9 فیصد ملتا ہے۔
جبکہ فوج کے اپنے متفرق اخراجات بھی اسی بجٹ میں سے ادا ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی فوج کی طرف سے امدادی کارروائیوں کا انتظام بھی اسی بجٹ سے ہوتا ہے۔ عام حالات میں جب بھی ہماری قوم کو کسی مشکل صورتحال کا سامنا ہوا تو پاک فوج نے اپنے ساتھی شہریوں کی مدد کو اپنا فرض سمجھ کر ادا کیا ہے۔
بین الاقوامی میدان میں مسلح افواج امدادی کارروائیوں میں معاون کا کردار ادا کرتی ہیں لیکن پاکستان میں جہاں بھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے وہاں پاک فوج ایک کلیدی اور بنیادی ادارے کے طور پر کردار ادا کرتی ہے جبکہ متعلقہ محکمے اس حوالے سے معاون ادارے بن جاتے ہیں جو کہ ایک تشویشناک عمل ہے۔ جس کی وجہ سے ساری ذمہ داری فوج کے کندھوں پر آ جاتی ہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ دنیا کی تمام افواج قدرتی آفات کی صورت میں اپنے ملک کے لیے ہر طرح کی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں، اس لیے یہ ہماری فوج کی طرف سے کی جانے والی کوئی غیر معمولی سرگرمی نہیں ہے۔
پاکستان کے بڑے ریلیف آپریشنز یا آفت کی صورتحال میں مدد دینے والی ایجنسیوں اور اداروں میں صلاحیت سازی اور انسانی وسائل میں اضافے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی حکومتوں کو اس سلسلے میں از سر نو ضابطہ تشکیل کر کے کام کرنا چاہیے اور نئی اور موثر پالیسیاں متعارف کروائیں، تاکہ ان اداروں کو خود مختار بنایا جا سکے اور وہ ہر قسم کے امدادی کاموں میں بنیادی کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔
- گندھارا تہذیب کا قدیم ورثہ اور پاکستان - 17/10/2022
- سوات کا امن اور خارجی سازشیں - 14/10/2022
- عمرانی فتنہ اور سائفر کہانی - 02/10/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).