ڈیرہ غازیخان اور بلوچستان میں سیلاب اور حکومتی بے حسی


ڈیرہ غازیخان کو اگر پاکستان کا دل کہا جائے تو بے جا اس لیے ناں ہو گا کہ یہ وہ واحد شہر ہے جسے بلوچستان، سندھ، اور خیبرپختونخوا کا بارڈر لگتا ہے۔ یہاں کہ زیادہ تر لوگ گلف ریاستوں میں روزگار کہ سلسلہ میں موجود ہیں اور پاکستان کہ لیے زرمبادلہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ اس شہر کے لوگ پر خلوص، ملنسار، مہمان نواز اور خوش اخلاق ہیں۔ زبانوں میں سرائیکی کثرت سے بولی جاتی ہے جبکہ بلوچی اور اردو بولنے والوں کی بھی بڑی تعداد اس شہر میں رہتی ہے۔

شہر کا بڑا حصہ دیہی علاقوں پر محیط ہے۔ مغرب میں کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ موجود ہے جن میں تفریحی مقامات فورٹ منرو، یک بائی، مبارکی مشہور ہیں جن کی سطح سمندر سے بلندی ساڑھے چھ ہزار فٹ سے بھی زیادہ ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ اس شہر کے لیے تحفہ خداوندی ہے کیونکہ یہ ناں صرف شہر کہ لوگوں کے لیے خوبصورت قدرتی مناظر کا باعث ہے بلکہ کئی معدنیات سے بھی یہ پہاڑی سلسلہ مالا مال ہے۔ کئی مقامات پر تیل اور گیس کے بھی ذخائر موجود ہیں۔

حالیہ مون سون بارشیں پاکستان جیسے ماحولیاتی تبدیلی کا شکار ملک کے لیے باعث رحمت تو ہیں ہی مگر حکمرانوں کی نا اہلی اور انتظامیہ کی نالائقی کی وجہ سے یہ علاقہ مکینوں کے لیے زحمت بن گئی ہیں۔ پہاڑوں پر بارش کہ نتیجہ میں رودکوہی کی شکل اختیار کرتا پانی حکومت و انتظامیہ کے مناسب اقدامات ناں ہونے کی وجہ سے بے لگام تباہی پھیلاتا ہوا گزر رہا ہے۔ لاکھوں لوگ اور جانور بے یارومددگار ہیں۔ اربوں روپے کہ فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور حکمرانوں کو اپنے سیاسی جوڑ توڑ کہ کھیلوں سے ہی فرصت نہیں مل رہی۔

ڈیرہ غازیخان خاندانی سیاست کا ہمیشہ سے گڑھ رہا ہے۔ اگر ایک خاندان حکومت میں نہیں ہوتا تو یقیناً دوسرا خاندان حکومتی بینچوں پر موجود ہوتا ہے۔ اس شہر سے صدر پاکستان، نگران وزیراعظم، گورنر پنجاب، وزیراعلی پنجاب، وزراء رہے ہیں۔ جن کی پشتیں آج بھی سیاست میں اپنے داؤ آزما رہی ہیں۔ جن علاقوں میں اس وقت سیلابی صورت حال ہے یہ علاقے الیکشن کہ دنوں میں سرداروں کا بڑا ووٹ بینک ہوا کرتے ہیں جو اس وقت بے یارومددگار کسی مدد کی انتظار میں ہیں

یہی حال بلوچستان کا ہے جہاں سیلاب نے کئی بستیاں ملیا میٹ کر دی ہیں اور لوگوں کے جانور، بچتیں اور دیگر قیمتی سامان پانی اپنے ساتھ بہا کر لے جا رہا ہے۔ رودکوہی کا پانی قدرت کا ایک قیمتی تحفہ ہوتا ہے جس پر چھوٹے ڈیم بنا کر یا مناسب انتظام کر کہ ناں صرف زراعت کو بڑھایا جا سکتا ہے بلکہ ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو درخت اور مصنوعی جنگلات لگا کر کم کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ پانی ہر سال ضائع ہو جاتا ہے اور ایوانوں میں عوامی نعرے لگانے اور انقلابی باتیں کرنے والوں کو اس بات کا ذرہ برابر بھی ادراک نہیں کہ ملک کا کتنا بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ اس وقت ایوانوں میں کو تماشا لگا ہے اس کا عام آدمی کی زندگی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تمام سیاستدان اپنا الو سیدھا کرنے میں لگے ہیں اور عوامی مسائل جوں کہ توں ہیں۔

ہم نے مان لیا سارے لیڈر مہان ہیں۔ ایک زرداری بھی سب پہ بھاری ہے، اور شہباز سپیڈ بھی کمال ہے، انقلابی خان کے تو کیا کہنے، چودھریوں کی سیاست بھی خوب۔ اگر اپنے لیڈروں کو مہان ثابت کرنے سے فرصت ملے تو خبر ذرہ بلوچستان، ڈیرہ غازیخان، تونسہ شریف، راجن پور کہ بھی لے لیں جن کی بستیاں سیلاب میں ڈوب گئیں، گاؤں ملیامیٹ ہو گئے، غریبوں کی جمع پونجی، فصلیں، جانور، زندگیاں سب پانی کی نظر ہو گیا ہے۔ سیاست سیاست تو بہت خوب کھیلتے ہیں۔ لیکن ان کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت اس وقت بلوچستان اور ڈیرہ غازیخان ڈویژن میں بہتا پانی ہے جو اپنے آپ میں ایک قیمتی سرمایہ ہوتے ہوئے بھی انسانی جان و مال کو نقصان پہنچاتا ہوا ضائع ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments