بے رحم سیاست، نا اہل سیاستدان


 

لغت میں سیاست کا مطلب حکومت کرنا اور لوگوں کی امر و نہی کے ذریعے اصلاح کرنا ہے جبکہ اصطلاح میں حکومت کرنے کے فن اور لوگوں کو فساد سے دور اور اصلاح کے قریب کرنے کو سیاست کہا جاتا ہے۔ ایک اور تعریف کے مطابق لوگوں کی اصلاح اور بہبود کے لئے بند رستوں کو کھولنا اور نئے رستے تلاش کرنے کو سیاست کہا جاتا ہے۔

یعنی سیاستدان وہ شخص ہوتا ہے جو حکومت اور اقتدار کے ذریعے خلق خدا کی بہبود اور اصلاح کے لئے ہمہ تن کوشاں رہتا ہے اور اس کے لئے بہترین ماحول اور سازگار فضا پیدا کرتا ہے۔

ہمارے ملک کا نام اسلامیہ جمہوریہ پاکستان ہے اس نام کی نسبت سے ہمیں سیاست بھی وہ کرنی چاہیے جو عین اسلام ہو یا پھر اسلام کے قریب ہو۔ اسلامی سیاست کے بانی آقائے دوجہاں خاتم النبیین نبی محترم جناب محمد الرسول اللہ ﷺ کی ذات بابرکات ہیں۔

جب ہم ان کی سیاست کا مطالعہ کرتے ہیں تو بعد از نبوت ان کے دو سیاسی ادوار سامنے آتے ہیں۔ تیرہ سالہ مکی دور اور دس سالہ مدنی دور۔ مکی دور ابتلاء و مصائب کا دور ہے۔ جس میں روزانہ کی بنیاد پر نبی کریم اور ان کے ساتھی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ بدترین ذہنی و جسمانی تشدد برداشت کرتے ہیں۔ حضرت بلال حبشی جیسے کمزور غلاموں کو گرم ریت کے اوپر لٹا کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ نبی مکرم اور ان کے پیروکاروں کو بھوک اور افلاس کی چکی میں پیس کر معیشت تنگ کر دی جاتی ہے۔

خود نبی محترم کو طائف کی وادی میں بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر مکہ کے لوگ اکٹھے ہو کر نبی محترم اور ان کے خاندان کا بائیکاٹ کر کے ان کو شعب ابی طالب جیسی تنگ و تاریک گھاٹی میں رہنے پر مجبور کرتے ہیں مگر آقائے کریم دشنام طرازی نہیں کرتے گالیاں نہیں دیتے۔ بدترین مخالفوں کی عزت نفس کو مجروح نہیں کرتے۔ انتقامی سیاست کے بارے میں نہیں سوچتے بلکہ ہدایت کی دعا کرتے ہیں اور جب سرزمین مکہ پر حالات کی تنگی اپنی انتہاؤں کو چھونے لگتی ہے تو ساتھیوں کو سرزمین مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم دیتے ہیں۔

آپ کی مدینہ تشریف آوری کے ساتھ ہی آپ کے مدنی سیاسی دور کا آغاز ہوتا ہے اور سرزمین مدینہ پر آپ کا پہلا سیاسی عمل لوگوں کو بھائی چارے کی لڑی میں پرونا تھا۔ سب سے پہلا کام مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات مدینہ کا قیام تھا۔ پھر اہالیان مدینہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے مدینہ میں آباد مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ میثاق مدینہ کیا۔ اور پھر مدینہ پر جب بھی کوئی بیرونی قوت حملہ آور ہوئی تو آپ نے اس معاہدے پر سو فیصد عملدرآمد کو یقینی بنایا۔

جناب نبی کریم نے امن و جنگ میں اصول و ضوابط میں کبھی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا۔ آپ نے جنگ کو بھی اصول کی کسوٹی پر لڑا اور زمانہ امن میں بھی اصول و ضوابط کا معیار برقرار رکھا۔ آپ نے ہمیشہ عہد کی پابندی کی۔ مشرکین مکہ کے ساتھ ہونے والے صلح حدیبیہ کے معاہدہ کی ناقابل عمل شقوں پر بھی جناب نبی کریم نے عمل کر کے بتایا کہ اسلامی سیاست کسی صورت بھی عہد شکنی کو قبول نہیں کرتی اور پھر فاتح کی حیثیت سے جب مکہ میں واپسی ہوتی ہے تو انتقام کی خو کے بجائے ”لا تثریب علیکم الیوم“ کہ کر عام معافی کا اعلان کر کے بدترین سیاسی مخالفین کے ساتھ برتاؤ کا سیاسی انداز بھی سمجھایا۔

نبی اکرم کی سیاسی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ اسلامی سیاست میں جھوٹ، عہد شکنی، تکبر، گالم گلوچ، دشنام طرازی، الزام تراشی، مخالفین پر کیچڑ اچھالنے، نفرت پھیلانے، قوم کو تقسیم کرنے اور سیاست کو دشمنی میں بدلنے کی سر مو گنجائش نہیں ہے۔

اسلامی سیاست کے تناظر میں جب ہم ملکی سیاست کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس میں ذاتی مفادات اور خود غرضی نظر آتی ہے۔ تکبر، خود پسندی اور انانیت نظر آتی ہے۔ نفرت اور تقسیم نظر آتی ہے، میری آج کی سیاست گالم گلوچ، بداخلاقی، بدتمیزی اور بد تہذیبی کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ جھوٹ در جھوٹ اور فریب پر مبنی اس سیاست کاری کا اسلامی سیاست سے دور دور کا واسطہ دکھائی نہیں دیتا۔ سیاسی مخالفین کو انتقام کی چکی میں پیسنا میری آج کی سیاست کا طرہ امتیاز ہے۔ میری آج کی سیاست کی بے رحمی دیکھئے میرا سخت ترین مخالف میری کشتی میں سوار ہو جائے تو اس کی گالیاں بھی گلاب بن جاتی ہیں اور میرا سب سے قریبی مخالفانہ رائے کا اظہار کرے تو راندہ درگاہ ٹھہرتا ہے۔

سیاست کی بے رحم چکی چلتی ہے تو چوہدری شجاعت حسین جیسے بزرگ سیاستدان کی شہرت، عزت، مقام اور مرتبے کو روندتی چلی جاتی ہے۔ وہ چوہدری شجاعت حسین جس کی چوکھٹ پر ملک کی ہر پڑی سیاسی قوت کو سجدہ ریز ہوتے دیکھا۔ جس کو ہر سیاسی قوت کی جانب سے جہاندیدہ سیاستدان کہا گیا، جس کو جوڑ توڑ کا ماہر سمجھا جاتا تھا، جس کی وضع داری ضرب المثل بن گئی تھی۔ جو ہر ادارے، ہر مزاج اور ہر سیاسی قوت کے لئے قابل قبول تھا۔ آج سیاست کی بے رحمی نے اسی چوہدری شجاعت کو اپنوں کی محبتوں سے دور کر دیا۔

ساری زندگی اتفاق سے سیاست کرنے والے بھائیوں جیسے کزنز کی راہوں کو جدا کر ڈالا، سیاست تو کیا واجبی تعلق بھی اس بے رحمی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ وہ جو سارے سیاسی معاملات کا بلا شرکت غیرے مالک ہوا کرتا تھا آج اپنی جماعت پر اپنی رائے لاگو نہ کر سکا۔ بے رحم سیاست کی ستم ظریفی دیکھئے جو کل تک چوہدری شجاعت حسین کی دانشمندانہ صلاحیتوں کے گن گاتے تھے آج ان سے جان چھڑانے کی تگ و دو میں نظر آتے ہیں۔

میرے ملک میں سیاست کا کوئی اصول نہیں۔ باہمی احترام سے کوسوں دور اس سیاست کا اسلامی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ اب سیاست جھوٹ اور فریب کا نام ٹھہرا۔ اب گالی اور گولی سیاست کی شان بن گئیں۔ اب بے اصولی اور بے ضابطگی سیاست کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ اب سیاست مخالفت نہیں دشمنی میں بدل چکی۔ اب باہمی تعلقات کا معیار سیاسی خیالات اور پسند و نا پسند بن چکا۔ اب مخالف رائے کا احترام ناپید ہو چکا۔ اب گھروں میں ہی نہیں ذہنوں کے درمیان بھی قد آدم دیواریں بن چکیں۔ اب سیاست اصلاح کا نام نہیں بلکہ مکمل بگاڑ کا طریقہ بن گئی۔ اب سیاست میں لوگوں کو جوڑا نہیں جاتا توڑا جاتا ہے۔ اب محبتیں بانٹنے کا وقت گیا نفرتوں کی تقسیم عام ٹھہری۔

اب تو خالق کائنات کے حضور دعا ہی کی جا سکتی ہے آپ بھی میرے ساتھ دعا میں شامل ہوں تاکہ اللہ کریم ہمیں سیاست کی اس بے رحمی سے محفوظ رکھیں جس میں بھائی بھائی کا دشمن اور بیٹا باپ سے باغی ٹھہرا۔

اللہ رحم فرما میرے ملک پر، میرے ملک کی سیاست پر، لوگوں کے دل پھیر دے ایسے لوگوں سے جو نفرت کے سوداگر ہیں۔ اللہ سامنے لا ایسی قیادت جو سیاست کو اس کے اصل مقصد یعنی لوگوں کی اصلاح اور بہبود کی طرف پھیر دے۔

آمین یا رب العالمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments