ماں! سنا ہے پاکستان بھی کسی کا خواب تھا


ماں! ابا کہتا تھا ہر بچہ اپنا رزق اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔ مجھے بہت بھوک لگتی تھی تو میں وہ رزق ڈھونڈتا تھا جو اپنے ساتھ لایا تھا۔ زمین پر کہیں نہ ملتا تو آسمان کی طرف دیکھتا، وہاں بھی اک خاموشی ہوتی۔ آسمان میری جانب ایسے دیکھتا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ الٹا دہکتا سورج مجھے دھوپ کی آنکھیں دکھلاتا تو مجھے اور پیاس لگتی۔

پیاس کی شدت میں، میں اس ریاست سے پانی مانگتا جس کا میں مستقبل تھا۔ جو بنی ہی میرے نام پر تھی کہ آنے والی نسلیں آزادی کی فضا میں آنکھ کھولیں گی۔ آج واقعی وہ ریاست آزاد ہے۔ میری بھوک پیاس سے آزاد۔ اور میں گندم کے دانوں کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا۔ پانی کی بوندوں کی ہتھکڑیوں میں پکڑا ہوا۔ آج اس ریاست کا تو میری جانب جیتے جی دیکھنا بھی میرا خواب تھا۔

ماں یاد ہے پھر میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا۔ تو نے مجھے سینے سے لگایا تھا۔ تیری آنکھ سے ایک آنسو کا قطرہ ٹپکا تھا۔ میرے لبوں پر گرا تو میں نے اسے پی لیا کہ یہی پانی میرا مقدر تھا۔ اس کے سوا تو میں ایک ایک بوند کو ترسا ماں! مجھے لگا اس کے سوا کوئی بوند میری زبان تلک آنا میرے ہونٹوں کا خواب ہے۔

پھر تو نے مجھے کہا تھا کہ خدا بچوں کی سنتا ہے۔ میں پیاسے ہونٹوں سے بھوک کے بستر پر سونے سے پہلے بارش کی دعا کر کے سو جاؤں تو صبح تک بارش ضرور ہو گی۔

ماں! دیکھ۔ دیکھ ماں! رات میں نے خدا سے دعا مانگی پتا ہے کیسے؟ میں نے کہا اگر تو میری دعا نہیں سنے گا تو میں صبح ماں سے کہوں گا کہ خدا بچوں کی دعا نہیں سنتا۔ ماں میں جب آسمان کی طرف دیکھ کر خدا سے دعا مانگ رہا تھا تو مجھے لگ رہا تھا تارے میری طرف بڑھ رہے۔ یہ ستارے کبھی روٹیوں جیسے دکھتے کبھی پانی کے قطروں جیسے۔ پھر میں خوابوں میں کھو گیا ایک بار بھوکا پیاسا سو گیا۔

دیکھ ماں خدا نے پھر میری سن لی۔ تو ٹھیک کہتی تھی خدا بچوں کی سنتا ہے۔ او میری ماں۔ تو مہان ہے۔
اے ریاست دیکھ! میری دعا سے بارش ہوئی۔ تو نے مجھے پانی نہ دیا میری دعا نے تیرے میدان بھر دیے۔

ماں! ماں! یہ تیرے رونے کی آوازیں کیوں آ رہی تھیں۔ ناں ناں اب تو اپنے آنسو اپنی آنکھوں کے طاقچوں میں سنبھال لے ماں قحط کے دنوں کے لیے۔

اب پانی آ گیا۔ اب میری پیاس ختم۔ اب میری بھوک ختم۔

ماں یہ پانی اصلی ہے ناں میرا خواب تو نہیں ماں۔ یہ نہ ہو کہ آنکھیں کھولوں تو یہ پانی۔ یہ میرا خواب ہو پاکستان کے خواب کی طرح ایک خواب ایک سراب۔ اب ہم بھوکے پیاسے نہیں مریں گے ناں ماں۔ اب ابا کی فصل ہو جائے گی ناں۔ اب ہمارے اور ہمارے جانوروں کے پینے کے لئے گاؤں کا جوہڑ بھر جائے گا ناں؟

ماں! کہاں ہے؟ بولتی کیوں نہیں۔ ریاست کہاں ہے؟ وہ خواب کدھر ہے؟ خدا بھی نہیں ہے کیا؟ میرا دم گھٹ رہا ہے۔ ماں! مجھے نہیں پتا تھا روٹی پانی مانگنے کی سزا، سزائے موت ہے۔ مجھے نہیں پتا تھا کل کی دعا دعائے موت ہے۔ میں زیادہ پیاسا تھا شاید اپنے اندر زیادہ پانی بھر رہا ہوں۔ ماں مجھے بچا لے میں مر رہا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments