ڈیپارچر لاونج، مقام ترسیل


یہ کچھ عجیب خوفناک سی جگہ ہے، نیم تاریکی جس میں جب تک بصارت کے ساتھ ساتھ دیگر حواس کی مدد نہ لیں، آپ کچھ اندازہ نہیں کر سکتے، کہ آپ ہیں کہاں، کھانے ”پینے“ کو بھی کچھ خاص نہیں، پینے کو غلیظ دکھتے بیرلز میں ویسا ہی آلودہ پانی پینے کو رکھا گیا ہے جو یہاں موجود ”منتظر مسافر یہ سوچ کر پی جاتے ہیں کہ ہم نے کون سا زیادہ دیر یہاں رہنا ہے، کچھ ہی وقت میں روانگی کے لیے باری آ جانی ہے، اور جہاں ہم نے جانا ہے وہاں کے اشتہارات میں“ وہاں دستیاب ”سب سے زیادہ جس سہولت کا بار بار ذکر کیا گیا ہے، وہ یہی پانی ہی ہے، لیکن ایسا گندا، گدلا نہیں بلکہ چاندی جیا شفاف اچھلتا، قلقلاتا پانی، اس شفاف میٹھے پانی کے چشمے، اور اسی کی نہریں، جن کے کناروں پر زربفت کے خیمے لگے ہوں گے، مزیدار کھانوں کی اشتہاء آمیز خوشبو پھیلی ہو گی، شراب و کباب، حسن مغلوب اور وافر خواہش محبوب، ہو گی یعنی“ وٹ ناٹ اینڈ وٹ ناٹ۔

لیکن جب تک باری نہیں آ جاتی، ذرا اپنی آنکھوں کو پورا کھول کر اپنے آس پاس کا جائزہ لے لیں، یہ کوئی معیاری انسانی معاشرہ یا مناسب قیام کی جگہ تو نہیں لگتی یہ ایک عارضی سا بنایا گیا، ایک گندا اور غلیظ ”سا مقام ترسیل، یا لانچنگ پیڈ“ ہے، شاید یہاں قیام کو عارضی سمجھتے ہوئے کوئی یہاں صفائی نہیں کرتا، پہلے سے پڑے کوڑے پر مزید کوڑا اور پھر اسی پر مزید کوڑا۔ اسے چاہے تو آپ ہال بھی کہہ سکتے ہیں، آپ کو کون روک سکتا ہے یا کبھی روک سکا ہے، جو چاہے کہہ دیں، اس لانچنگ پیڈ یا مقام ترسیل نے کیا بولنا یا احتجاج کرنا ہے، اور یہ بولنے یا احتجاج کرنے کی روایت تو ہم آپس کے ”مشورے“ سے کب کی ہم آپس میں بھی ختم کر چکے ہیں، اور تسلیم و رضاء و سر تسلیم خم پر مکمل اتفاق کر چکے ہیں، بلکہ شاید یہی وہ واحد خاص بات ہے، جس پر ہمارا اب تک مکمل اتفاق ہو پایا ہے، لیکن یہ بھی کافی ہے ہم نے کون سا یہاں مستقل رہنا ہے۔

اس گندے، غلیظ، نیم تاریک، تازہ ہوا اور روشنی سے محروم آلودہ اور افسردہ مقام کو جینے کے لیے نہیں بلکہ صرف دور کہیں، اوپر، جنت یا جہنم تک جانے کے لیے ایک عارضی قیام گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، یہ لانچنگ پیڈ چونکہ ایک عارضی ٹرانزٹ مقام ہے جہاں ہم آتے ہی عارضی طور پر ہیں، لہذا اس کے ماحول کو بہتر بنانے، یہاں کی صفائی پر وقت اور پیسہ خرچ کرنا بالکل بے کار کام ہے، کیا فائدہ جب تھوڑی دیر میں ہی باری آ جانی ہے۔

یہاں جب ایک بچہ تک پیدا ہوتا ہے، وہ کسی زندگی کا آغاز نہیں کرتا بلکہ اس کی سہولت کے لیے ایسا ماحول اور نظام بنایا گیا ہے، کہ وہ، زندگی کے شروع ہونے سے اپنی زندگی کا نہیں، بلکہ اپنے انجام کا آغاز کرتا ہے، لہذا یہاں موجود لوگوں کی اکثریت، دراصل یہاں ہے ہی نہیں، ہر ایک اپنے اصل مقام یا جگہ پر رہنے کو شرم و ندامت کا باعث سمجھتا ہے، بچے سے جوان بلکہ بوڑھے انسانوں جیسے روئیے اور عادات و حرکات کا رواج اور توقع ہوتی ہے، اور جوان کا اپنی عمر کے مطابق سوچ اور دلچسپیاں رکھنا، اس کا اس قطار میں اپنی درست جگہ کھڑا رہنا گناہ اور اکثر حالات میں جرم سمجھا جاتا ہے، اور بوڑھے، وہ تو قبل از وقت ”اوپر“ جہاں وہ وہ سب کچھ کرنے کے لالچ میں جانا چاہتے ہیں، جو کچھ دستیابی اور ودیعت کے باوجود اپنے وقت پر دنیا میں نہیں کرتے رہے، خود کو بے وجہ تائب کئیے رکھا، ان جنتی تحفوں لوازمات، سہولیات اور تعیشات سے ظلم و تشدد کی حد تک، جائز طور پر دستیابی کے باوجود، شدید اجتناب کرتے رہے، تو بڑھاپے میں پہنچ کر اب وہ ایسے کاموں جن کے وہ اب دنیاوی طور پر بھی قابل اور اہل نہیں رہ گئے ہوتے، کہیں عالم بالا میں ان ہی کاموں کے حصول اور دستیابی کا تصور کرنے لگتے ہیں بلکہ اس ضمن میں، کچھ کچھ ”فحش“ خواب تک دیکھنے لگتے ہیں، یہاں تو ذہنی عالم یہ ہے کہ یہاں اجل تک ”آتی“ ہے گویا وہ ایک پیشہ ور، بدصورت، ہلاکت پیشہ نہیں، بلکہ کوئی حسین دوشیزہ ہو، یوں اپنے تصور و تخیل کی آخری ”قابل کار“ یعنی ورکنگ صلاحیت کو بھی ایسے ہی ”اگلی منزل“ تک وسعت دے کر تا حد نظر جاتی ٹیڑھی میڑھی بے ترتیب قطاروں میں بیٹھے، اپنی لانچنگ اور ڈیپارچر، یہاں ڈیپارچر کے بجائے مقامی مروجہ زبان کا پاکیزہ اور باکردار بلکہ پردہ دار لفظ ”روانگی“ بھی استعمال کیا جا سکتا تھا، لیکن جدید دنیا میں اس لانچنگ پیڈ یا ”جائے روانگی“ کا ذرا جدید تاثر پڑتا ہے، باقی عملی طور پر اگر ممکن نہ بھی ہو تب بھی ڈیپارچر کا لفظ کچھ کچھ جدید تاثر تو دیتا ہی ہے، اور کچھ ”سہولت“ دینا ویسے بھی تو انتظامیہ کا اخلاقی و قانونی فرض بھی تو ہے، تو یہاں انتظامیہ کے بغیر باقی سب انتظار میں بیٹھے ہیں۔

رہی انتظامیہ تو ان کے اطوار اور منتظر مسافروں کے ساتھ سخت اور تحقیر آمیز سلوک سے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے، کہ وہ یہاں کے مستقل ملازم یا شاید مالک ہیں، انہوں نے یہاں سے کبھی، کہیں نہیں جانا، ہمیشہ یہیں اسی طرح با اثر اور با اختیار رہنا ہے، ان کی اس پراعتماد اور خشمگیں چلت پھرت سے یہ شک بھی گزرتا ہے، کہ کہیں دراصل انہوں نے اس لانچنگ پیڈ کو خرید ہی نہ رکھا ہو یہی اس کے مالک ہوں اور ہمیں یہ معلوم ہی نہ ہو۔

یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے کچھ بھی ممکن ہے اور ساتھ ہی ہر چیز غیر ممکن بھی ہے، کیونکہ اندھیرے اور غیر واضح ماحول میں کوئی بھی درست اندازہ لگانا ممکن نہیں ہوا کرتا، تو جیسا اس ”مقام ترسیل کا حال و انتظام ہے یہاں کے“ اصولوں اور قوانین کے تحت یہ بھی ضروری نہیں، کہ آگر آپ قطار میں سب سے آگے بھی بیٹھے ہیں لانچنگ اور ڈیپارچر کے لیے ، تو آپ ہی کی باری پہلے آئے گی، یہاں اس لانچنگ پیڈ کی ”انتظامیہ“ کی مرضی ہے، کہ وہ منتظر مسافرین و تمنائی زائرین کی اس تاحد نظر منتظر بیٹھی طویل قطار میں سے لانچنگ یا ڈیپارچر کے لیے کسے ترجیع اور اولیت دیتے ہیں، ان کی مرضی وہ قطار کے درمیان سے کسی مسیں بھیگتے نوجوان کو گھسیٹ لیں یا قطار کے بالکل شروع میں جا کر اپنی ماں کی گود میں لیٹے دودھ پیتے کسی معصوم بچے کو نوچ کر، اس کی ماں سے الگ کر وہیں ”اوپر“ روانہ کر دیں، جہاں جانے کی واحد باقی ماندہ امید لیے سب یہاں ازل سے منتظر اور متجسس بیٹھے ہیں، اس لانچنگ پیڈ کی انتظامیہ شاید اپنی ڈیوٹی سے جان بچانے ہلکے وزن کی وجہ سے اور اپنے تئیں رش کم کرنے، اور اپنی سہولت کے مقصد سے اس قطار کے بالکل شروع میں بیٹھے کم عمر، کم سن بچوں میں سے اس فورسڈ یعنی جبری ترسیل کے لیے نسبتاً زیادہ بچوں کا انتخاب کرتے ہیں، نہ جانے کیوں، ان کے اس بے ترتیب انتخاب سے قطار کے سب سے آگے بیٹھے، آئندہ کے حسین خوابوں میں گم ازکار رفتہ قسم کے عادی نظر آتے مسافر، نہ تو کوئی بے چینی ظاہر کرتے اور نہ ہی قطار توڑ کر کئیے جانے والے اس بے انصاف اور غیر متوازن انتخاب کے بارے میں کچھ بولتے یا احتجاج کرتے ہیں، ان کے اس اطمینان سے کبھی شک ہونے لگتا کہ کیا وہ اصل میں ”وہاں“ جانا بھی چاہتے ہیں یا دراصل ان کا مقصد صرف وہاں کے ذکر اور تصور تک رسائی کے احساس سے ہی خط اٹھانا ہے۔

عجیب بات کہ یہاں سب اس اطمینان اور سکون سے بیٹھے ہیں گویا یہی وہ ماحول اور منزل تھی جس کی آس میں وہ دور دور سے سفر کر کے یہاں پہنچے تھے، اب یہاں کوئی بے چین دکھائی دیتا ہے تو وہ مجھ جیسا کوئی ناکام نشہ باز ہی ہو سکتا ہے، جس کے لیے نہ ایک طرف کی اور نہ ہی دوسری طرف کی کوئی امید باقی ہے کیونکہ درمیان میں لٹکتا میلا پردہ کبھی کبھی ہٹ کر دوسری طرف کی مایوس کن جھلک بھی دکھا دیتا ہے۔ میں خود گو کہ قطار میں سب سے آگے تو نہیں، تو ایسے ہی منتظر رہا، تو نہ جانے اس غلیظ اور کثیف جگہ مزید کتنا انتظار کرنا پڑے، تو کوشش کرتا ہوں، کہ یہاں کی انتظامیہ کے کسی کرپٹ اہلکار کی مدد لوں، کہ وہ کسی طرح مجھے ساتھ لے جا کر اس لانچنگ واہن میں باری سے پہلے لے جا کر بٹھا دے۔

آگے پھر وہیں جا کر دیکھ لوں گا، کہ کیا کرنا ہے، آخر اب تک بھی تو کچھ نہ کچھ کرتا ہی رہا ہوں، تو ”وہاں بھی کچھ نہ کچھ کر ہی لوں گا۔ لیکن پھر ایک مسئلہ، جیسے یہ غلیظ، آلودہ اور گندا مقام ترسیل، انسانوں کے ساتھ دوسری جس چیز کے ساتھ فرش سے لے کر“ ٹپکتی یا تپتی ”چھت تک بھرا ہوا ہے، وہ“ مسائل ”ہیں، جن کو حل کرنے کا واحد طریقہ یہاں یہ ہے، کہ ان ہی مسائل کو ذرا آگے پیچھے، اوپر نیچے کر کے پیر رکھنے کی جگہ بنا لی جائے اور گزر جایا جائے، بس اتنی احتیاط کہ زیادہ سوچنا نہیں، ورنہ یہاں سے بھی مزید ذلیل کر کے نکالے جاؤ گے۔

اچانک آنکھ کھل گئی پہلے تو تاریکی کی وجہ سے کچھ سمجھ نہ آیا، آس پاس تاحد نظر خوابیدہ انسانوں کے ہیولوں سے ڈر لگ رہا تھا، اور اس نیم تاریکی میں یہ مقام ترسیل ایک وسیع و عریض قبرستان لگ رہا تھا، جہاں قدیم کالاش قبائل کی طرح لوگ اپنے مردوں کو ویسے ہی کھلا زمین پر چھوڑ کر خود کہیں چلے گئے ہوں، حلق ایسے کڑوا ہو رہا تھا جیسے زہر پی بیٹھا ہوں، یاد آیا رات گئے ساتھ بیہوش لیٹا شخص موت جیسے سیاہ رنگ کے ٹھہرے کی ایک بوتل کہیں سے لے آیا تھا، بتایا کہ اس کے ایک شرارتی دوست جسے بچپن سے ہی سب“ مولانا ”کہتے ہیں، اس نے کہیں سے لا کر دی، کہ بچے مزے کرو“ پی کر سو جاؤ ”گویا سو جانا، بیہوش ہو جانا حتیٰ کہ مر جانا، یہاں عیاشی ہے، میری آنکھ نہ جانے کیوں کھل گئی سوتا رہتا تو بہتر تھا، لیکن اب تو اٹھ ہی گیا ہوں، اب اتنی آسانی سے دوبارہ نیند نہیں آنی، اچانک کچھ دور نظر پڑی تو لانچنگ واہن کا کھلا تاریک دروازہ نظر آیا، شاید اس وقت سب محافظ بھی سو رہے تھے، خیال آیا یہی موقع ہے پھر نہ جانے کب باری آئے، تو گھسٹتا گھسٹتا اس طرف کو بڑھنے لگا کہ کسی خوابیدہ کے چہرے پر پاؤں نہ آ جائے، واہن کا دروازہ مسافروں کی“ سہولت ”کے لیے زمین سے کچھ ہی اوپر لگایا گیا تھا، دہلیز پر انگلیاں جمائیں اور خود کو کھینچ کر اوپر چڑھ گیا، ایک نظر پیچھے سوئے خوابیدہ ہجوم کی طرف دوڑائی، سب گہری نیند سوئے ہوئے تھے، اب آگے کی طرف دیکھا آگے بھی گہرا اندھیرا چھایا ہوا تھا، جس میں بالکل کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments