ایڈوکیٹ نشا راؤ (خواجہ سرا) کی ہمارے گھر آمد


نشا راؤ پاکستان کی پہلی خواجہ سرا وکیل ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں ایم۔ اے اور ایل۔ ایل۔ بی کیا ہے۔ ایل۔ ایل۔ ایم کر رہی ہیں۔ مستقبل میں بیرسٹر بننا چاہتی ہیں۔ وکالت کے ساتھ ٹرانس پرائیڈ کے نام سے این۔ جی۔ او بھی چلا رہی ہیں۔ جس میں خواجہ سراؤں کو مدد کے ساتھ مختلف ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ نشا سکن کیئر کا کلینک بھی چلا رہی ہیں۔ نشا خواجہ سراؤں کے کیسز کی فیس نہیں لیتیں۔ ان کے کلینک میں خواجہ سراؤں کا علاج مفت یا کم سے کم پیسوں میں کیا جاتا ہے۔

نشا پڑھے لکھے مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایک بہن ڈاکٹر، دوسری شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔ ایک بھائی واپڈا میں ایس۔ ڈی۔ او، دوسرا پولیس میں ایس۔ ایچ۔ او جبکہ تیسرا اپنا کاروبار کرتا ہے۔

نشا کہتی ہیں کہ ان کے گھر والوں نے انھیں کبھی احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ خواجہ سرا ہیں بلکہ ہمیشہ حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی۔ آٹھویں جماعت میں نشا کو احساس ہوا کہ یہ عام لوگوں سے مختلف ہیں۔ لڑکا ہونے کے باوجود لڑکیوں والے جذبات اور احساسات رکھتی ہیں۔ لڑکیوں میں بیٹھنا اور ان کے کپڑے پہننا پسند کرتی ہیں۔

معاشرتی دباؤ اور گھر والوں کی عزت بچانے کے لئے نشا نے میٹرک کے بعد گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے علاقے کی کچھ خواجہ سرا بھی ساتھ مل گئیں اس طرح پندرہ سال کی عمر میں نشا نے گھر چھوڑ دیا اور کراچی چلی آئیں۔

کراچی آنے کے بعد گرو چیلا سسٹم سے جڑ گئیں۔ انھیں بھیک مانگنا سکھایا گیا۔ نشا کہتی ہیں کہ یہ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ بھیک مانگنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ پہلے دن بھیک مانگنے نکلیں تو ہاتھ پاؤں کانپنے لگے۔ بھیک مانگنے لگیں تو رونے لگیں۔ رات ساری روتے ہوئے گزری۔ صبح اٹھیں تو بخار ہو گیا۔ نشا کے سال دو سال اسی طرح بھیک مانگتے ہوئے گزرے۔ دوسری طرف گھر میں بھائی بہنیں خوب پڑھ رہے تھے۔ نشا کو احساس ہوا کہ انھیں بھی پڑھنا چاہیے۔ دن کو بھیک اور شام کو پڑھنے بیٹھ جاتیں۔ اسی طرح کرتے کرتے ایف۔ اے اور بی۔ اے کیے۔ پھر بین الاقوامی تعلقات میں ایم۔ اے کیا۔ نوکری کی تلاش شروع کی لیکن نہ ملی۔ پھر ایک مخلص دوست نے ایل۔ ایل۔ بی کا مشورہ دیا۔ نشا دن کے وقت چوکوں چوراہوں پر بھیک مانگتیں شام کو لاء کالج پڑھنے چلی جاتیں۔

ایل۔ ایل۔ بی کے دوران نشا کو شہرت ملنا شروع ہو گئی۔ مختلف چینلز پر نظر آنے لگیں۔ نوکری بھی مل گئی۔ اس طرح نشا بھکاری سے رول ماڈل بن گئیں۔

سال پہلے میں نے کراچی کی نوجوان خواجہ سرا معصومہ عمر کا انٹرویو کیا انھوں نے نشا کا نمبر دیا۔ نشا سے بات ہوئی اور پھر بات چیت دوستی میں تبدیل ہو گئی۔

بہت ساری کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود نشا میں بالکل نخرہ نہیں ہے۔ سادہ زندگی گزارتی ہیں۔ سادہ لباس پہنتی ہیں۔ میک اپ بناؤ سنگھار کا شوق نہیں۔ ناچ گانا آتا ہی نہیں۔ مردوں کو اپنا نمبر نہیں دیتیں نہ مردوں کے ساتھ گھومنا پسند کرتیں ہیں۔

نشا مجھے کبھی باپ تو کبھی بڑا بھائی کہتی ہیں۔ ہفتے یا اتوار کو ہم طویل گپ شپ لگاتے ہیں۔ نشا اپنے پورے ہفتے کے واقعات جمع کر لیتیں ہیں۔ گفتگو میں انسانی اور خواجہ سراؤں کے حقوق پر بات ہوتی ہے۔

نشا نے مجھے تصویروں میں ہی دیکھا تھا۔ اس عید پر اپنے گھر آئیں تو کہنے لگیں کہ میں اسلام آباد آ رہی ہوں شیڈول آپ کی وجہ سے رکھا ہے میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں۔

اتوار کی شام نشا ہمارے غریب خانے تشریف لائیں۔ پھر ہم نے تین چار گھنٹے خوب باتیں کیں۔ نشا سندھ کے خواجہ سراؤں کو گرو چیلہ سسٹم سے نجات دلوانا چاہتی ہیں۔ چیلوں کی آزادی اور ان کی ری ہیبلیٹیشن کرنا چاہتی ہیں۔ خیبر پختون خواہ میں خواجہ سرا کمیونٹی پر ہونے والے مظالم پر نشا کی گہری نظر ہے۔ نشا آنے والے دنوں میں خیبرپختون خواہ کے آئی۔ جی سے ملنا چاہتی ہیں۔ نشا وکلاء حضرات سے بھی اس سلسلے میں مشورہ کر رہی ہیں۔

اسلام آباد پولیس نے خواجہ سرا کمیونٹی کو فوری انصاف فراہم کرنے کے لئے تحفظ سینٹر قائم کیا ہے۔ جو بہترین کام کر رہا ہے۔ میں نے نشا کو مشورہ دیا کہ وہ ملک کے چاروں صوبوں کے آئی۔ جیز اور وزرائے اعلٰی سے ملاقات کریں اور اسلام آباد کی طرز کے تحفظ سینٹر پورے ملک میں قائم کروائیں۔

میری گزارش تھی کہ ہمارے تعلیمی نصاب، بی۔ ایڈ اور ایم۔ ایڈ کے کورسز میں خصوصی افراد اور خواجہ سراؤں کے حقوق کو اچھی خاصی جگہ دینے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے پروفیشنل کورسز میں سائن لینگویج، بریل، جسمانی معذور، کم ذہنی سطح والے بچوں اور خواجہ سرا کے حقوق اور پڑھانے کے طریقوں کو لازم قرار دیا جائے۔ مستقبل کے اساتذہ کو بتایا جائے کہ محرومیوں کا شکار ان بچوں کے لئے تعلیم کتنی ضروری ہے۔ ان بچوں کی تعلیم سے معاشرے اور ملک کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

نشا کے اخلاق اور کردار کی وجہ سے لوگ ان سے بہت پیار کرتے ہیں۔ رمضان المبارک کے بعد بھی لوگ اسی طرح راشن کے بیگ نشا کو دے رہے ہیں۔ نشا ان بیگز کو بڑی ایمانداری کے ساتھ مستحق افراد تک پہنچا دیتی ہیں۔ ملک کے بڑے بڑے گروپس نشا کو پراجیکٹس آفر کرتے رہتے ہیں۔ مختلف ممالک کی ایمبیسیز نشا سے رابطے میں رہتی ہیں۔

لیکن میں نشا کو سوشل ورک سے روکتا رہتا ہوں۔ نشا نے میرے کہنے پر بہت سے پراجیکٹس لینے سے انکار کر دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں سوشل ورک اچھا کام تو ہے لیکن بہت مشکل کام نہیں ہے۔ میری خواہش ہے نشا تعلیم اور وکالت پر زیادہ توجہ دیں اور بڑے کام کریں جس سے خواجہ سرا کمیونٹی اور معاشرے کو زیادہ فائدہ پہنچے۔ نشا اکیلی رہتی ہیں اگر انھوں نے اپنے آپ کو زیادہ چیزوں میں الجھا دیا تو شاید سارا کام خراب ہو جائے گا۔ نشا کا بڑا پن ہے کہ یہ ہر کام میں مجھ سے مشورہ کرتی ہیں۔ میری بھی یہی کوشش رہتی ہے کہ ایسا مشورہ دیا جائے جس سے ان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکے۔

نشا نے میرے بچوں کے ساتھ خوب گپ شپ لگائی۔ انھیں بڑی بہنوں کی طرح خوب سمجھایا۔ نشا کہتی ہیں کہ ”مجھے“ بھی این۔ جی۔ او بنا لینی چاہیے۔ لندن جانے سے پہلے وہ مجھے این۔ جی۔ او بنا کر اور رجسٹرڈ کروا کر دیں گیں۔ جاتے جاتے بچوں کے ساتھ تصویریں کھنچوائیں اور ویڈیوز بھی بنوائیں۔

نشا کے دوست اور گھر والے ان سے بہت پیار کرتے ہیں۔ والدین سے روزانہ بات کرتی ہیں۔ ایک بہن ڈاکٹر ہیں رات کو دس بجے روانہ کال کرتی ہیں۔ کراچی میں بھی ذرا سے مسئلے پر دوست ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ وطن عزیز کی بہت سی مشہور خواجہ سراؤں کو متعدد ایوارڈز ملنے کے باوجود بھی گھر والے تسلیم نہیں کرتے۔

مجھے ایسا لگتا ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود نشا نے برائی کو قریب نہیں بھٹکنے دیا۔ ہمیشہ مردوں سے دور رہنے کی کوشش کی۔ سادگی سے زندگی گزاری۔ اسی وجہ سے معاشرے اور گھر والوں نے انھیں دل سے قبول کیا ہے۔ نوجوان خواجہ سراؤں کو ہمارا یہی مشورہ ہے کہ نشا کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔ معاشرہ آپ کو تیسری جنس کے طور پر تو کسی حد تک قبول کر لیتا ہے۔ لیکن فحاشہ اور سیکس ورکر کی صورت میں قبولیت کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی نشا کی تمام جائز خواہشات کو پورا کرے۔ نشا پاکستان کی پہلی بیرسٹر بن کر ملک کا نام روشن کریں اور انسانی حقوق کی جنگ میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments