چوہدری خاندان میں پھوٹ اور چوہدری ظہور الہی شہید کی مضطرب روح


28 جولائی 2022 ء کو میرا دل بہت اداس تھا۔ میں نے بارہا چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی کو سالہاسال ایک ہی جگہ پر اکٹھے دیکھا تھا۔ میں نے دونوں کے درمیان کبھی کوئی فرق محسوس نہیں کیا اور انہوں نے بھی میرے ساتھ یکساں سلوک روا رکھا کبھی غیریت کا احساس نہیں ہونے دیا اس لئے میں بھی کچھ دیگر دوستوں کی طرح ان کی فیملی کا حصہ تصور کیا جاتا تھا۔ چوہدری برادران بالخصوص چوہدری شجاعت حسین شدید علالت کے باوجود میری خوشی غمی میں شریک ہوتے رہے میں نے چوہدری شجاعت حسین کو ایک سخت جان سیاست دان پایا پارکنسن جیسی نامراد بیماری کے باوجود چوہدری شجاعت حسین کی ذہانت اور معاملہ فہمی کا ہر سیاست دان معترف ہے۔

وہ شرافت کا ایک مجسمہ ہیں۔ بذلہ سنجی اور جملہ بازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے وہ ایک جملہ میں اپنی بات کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پارکنسن نے اتنی شدت اختیار کر لی کہ ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہو گئے اللہ تعالی کے فضل و کرم سے انہوں نے موت کو شکست دی انہیں ایک نئی زندگی مل گئی پارکنسن نے ان کی زبان میں لکنت پیدا کر دی اور ان کا جسمانی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا لیکن وہ آج بھی صحت مند افراد کے مقابلے میں ذہنی طور پر زیادہ بیدار اور چاق و چوبند ہیں۔

کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ایک صدی سے زائد اکٹھا رہنے والا خاندان سیاست کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ چوہدری شجاعت حسین نے اپنے لئے وفاق کی سیاست کا رول پسند کیا جب کہ چوہدری پرویز الہی نے پنجاب کی سیاست کو اپنا محور بنایا پنجاب میں ان کا مضبوط گروپ بن گیا انہوں نے گجرات میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کو اس طرح تقسیم کر رکھا تھا۔ خاندان کے کسی فرد کو ان سے شکایت پیدا نہیں ہوتی یہی وجہ ہے۔ چوہدری برادران گجرات کی بیشتر نشستوں پر کامیابی حاصل کر لیتے ایک دو بار ان کے قریبی رشتہ داروں نے گجرات میں ان کا مقابلہ کیا لیکن چوہدری برادران کا ہمیشہ پلڑا بھاری رہا اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ چوہدری ظہور الہی کی وفات کے بعد چوہدری شجاعت حسین نے خاندان کی سربراہی کا حق ادا کر دیا ایثار اور قربانی چوہدری شجاعت حسین میں کوٹ کوٹ بھری ہوئی ہے۔

یہی وجہ ہے انہوں نے چوہدری فیملی کو متحد رکھنے کے لئے قدم قدم قربانی دی چوہدری پرویز الہی شروع دن سے پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے کے خواہش مند تھے۔ نواز شریف دور میں ان کو وزیر اعلی نہیں بننے دیا گیا ان کو سپیکر کے منصب سے آگے نہیں آنے دیا گیا شروع دن سے چوہدری پرویز الہی کی نواز شریف اور شہباز شریف سے نہیں بنی جب بھی انہیں موقع ملا چوہدری برادران کے شریف فیملی سے سماجی و سیاسی تعلقات منقطع کر لئے ظہورالہی 2 اکتوبر ظہورالہی 999 ء کو پرویزی مارشل لاء لگا تو شریف خاندان کے لئے پاکستان کی سرزمین تنگ کر دی گئی شریف خاندان نے اسلام آباد میں کبھی اپنا کوئی ڈیرہ نہیں بنایا بیگم کلثوم نواز عدالتوں کے چکر کاٹنے اور اٹک قلعہ میں میاں نواز شریف سے ملاقات کے لئے اسلام آباد آتیں تو ایف 3 / 8 میں چوہدری شجاعت حسین کی اپنی رہائش گاہ کے دروازے شریف فیملی کے لئے کھول دیے جاتے اور چوہدری شجاعت حسین خود لاہور چلے جاتے اور اس وقت تک اپنی رہائش گاہ میں واپس نہیں آتے جب تک شریف فیملی کا کوئی فرد وہاں قیام پذیر ہو۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے جنرل پرویز مشرف نے شریف فیملی کے تمام اکاؤنٹس منجمد کر دیے تھے۔ لہذا وکلاء کی فیسوں کی ادائیگی کا مسئلہ پیدا ہوا تو چوہدری برادران اس مشکل وقت میں ساتھ کھڑے رہے

جب شریف خاندان کی خواتین گرفتاری کے خوف سے بزرگ صحافی جناب مجید نظامی کی رہائش گاہ پر پہنچ گئیں تو یہ چوہدری شجاعت حسین ہی تھے کہ وہ شریف خاندان کی خواتین کو اپنے گھر لے گئے اور کہا کہ دیکھتے ہیں ہماری موجودگی میں شریف خاندان کی خواتین کو کون گرفتار کرتا ہے۔ لیکن جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو طوالت اور دوام بخشنے کے لئے چوہدری برادران کو شریف فیملی سے الگ کر دیا اسی طرح جب میاں نواز شریف کی سعودی عرب سے جلاوطنی ختم کر کے واپس آنے پر دونوں خاندانوں کی صلح کرنے کے لئے شریف فیملی نے جاتی امراء میں ظہرانہ کا اہتمام کیا گیا جو محض اس لئے منسوخ کر دیا گیا کہ شریف فیملی کو چوہدری پرویز الہی اور اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے درمیان ہونے والی خفیہ ملاقات کا پتہ چل گیا تھا۔

اس کے بعد دونوں خاندانوں کے درمیان اختلافات کی خلیج مزید گہری ہوتی چلی گئی چوہدری شجاعت حسین شریف فیملی سے تعلقات استوار کرنے کے لئے راستے تلاش کرتے رہے لیکن چوہدری پرویز الہی ہمیشہ شریف فیملی سے تعلقات بحال کرنے کی راہ میں حائل رہے حتیٰ کہ چوہدری برادران پیپلز پارٹی کے قریب ہو گئے جو کل تک مسلم لیگ (ق) کو قاتل لیگ کہا کرتی تھی۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ق) کو پی ٹی آئی سے خیرات میں قومی اسمبلی کی 5 اور پنجاب اسمبلی کی ظہورالہی 0 نشستیں مل گئیں لیکن پچھلے چار سال کے دوران چوہدری پرویز الہی عثمان بزدار کی جگہ لینے کے لئے سرگرداں رہے جب ان کے وزیر اعلیٰ بننے کا چانس بنا تو انہوں نواز شریف کا وزیر اعلیٰ بننے کی بجائے عمران خان کا وزیر اعلٰی بننے کو ترجیح دی یہی وہ مرحلہ ہے جس نے چوہدری ہاؤس کا اتحاد پاش پاش کر دیا گلبرگ لاہور میں چوہدری برادران کی ایک ہی قطار میں رہائش گاہیں جو سیاسی قوت کی علامت تصور کی جاتی تھیں پہلے مرحلے میں ان کے درمیانی راستے بند ہوئے دیواریں بلند ہوئیں تو اب راستے بھی الگ الگ ہو گئے ہیں۔

چوہدری ظہور الہی اور چوہدری منظور الہی چوہدری سردار خان کے صاحبزادے تھے۔ چوہدری ظہور الہی کے دادا چوہدری حیات محمد خان موضع نت وڑائچ کی درویش صفت، علم پرور اور ادب نواز شخصیت تھی۔ چوہدری ظہور الہی کو ادب اور صوفیا کے کلام سے خصوصی لگاؤ تھا۔ ان کے پسندیدہ شعرا میں حبیب جالب اور استاد دامن تھے۔ چوہدری ظہور الہی نے اپنی زندگی میں جو سیاسی رکھ رکھاؤ پیدا کیا اسے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی نے قائم رکھا لیکن 40 سال بعد اس خاندان کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔

چوہدری ظہور الہی نے مہمان نوازی کی جو شاندار روایات قائم کیں چوہدری برادران اس کے امین ہیں۔ اس خاندان سے دوستی رکھنے والوں سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ اس سوچ میں مبتلاء ہیں کہ کس کے ساتھ کھڑے ہوں ۔ میرے لئے چوہدری شجاعت حسین اور طارق بشیر چیمہ کی معزولی کی خبر بھی روح فرسا تھی۔ ساری رات بے چینی و اضطراب میں گزری میں سوچتا رہا رب العزت چوہدری ہاؤس کو کس کی نظر لگ گئی سوا ڈیڑھ سال کی وزارت اعلیٰ کے حصول کی دوڑ نے چوہدری ہاؤس میں ایسی دراڑیں ڈال دیں کہ چوہدری برادران نے خونی رشتے بالائے طاق رکھ کر اپنے راستے ایک دوسرے سے جدا کر لئے

مسلم لیگ (ق) نے مسلم لیگ (ن) کی کوکھ سے جنم لیا ہے جب میاں نواز شریف اور چوہدری برادران کے راستے الگ ہوئے تو 2002 ء میں اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ کے نام سے نئی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا جسے قائد اعظم کے نام سے موسوم کیا گیا اس کے پہلے صدر میاں اظہر منتخب ہوئے جنہیں 2002 ء کے عام انتخابات میں شکست کے بعد پارٹی صدارت سے ہٹا دیا گیا ان کی بجائے چوہدری شجاعت حسین کو پارٹی کا صدر بنا دیا گیا 2004 ء میں سلیم سیف اللہ کی بجائے مشاہد حسین سید کو سیکریٹری جنرل بنایا گیا

سنہ 2006 میں چوہدری شجاعت حسین کو مسلسل دو بار سے زائد پارٹی کا صدر بنانے کے لئے آئین میں ترامیم کی گئیں تو پارٹی مزید تقسیم ہو گئی اور حامد ناصر چٹھہ نے جو پارٹی کا صدر بننا چاہتے تھے ناکامی کی صورت میں اپنا بوریا بستر اٹھا کر واپس اسی دفتر میں ڈیرہ ڈال لیا جو مسلم لیگ (ج) کے قبضہ میں رہا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے۔ میاں اظہر وزرات عظمیٰ کے امیدوار تھے۔ ان کو طاقت ور حلقوں نے پورے شہر گھمایا پھرایا مختلف دکانوں اور ٹک شاپس پر لے گئے تو کسی نے ان کا کوئی نوٹس نہیں لیا جس کے بعد میر ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا گیا مشاہد حسین سید کئی سال تک چوہدری شجاعت حسین کے ہمراہ سیکریٹری جنرل رہے چوہدری شجاعت حسین ہی پارٹی کے تمام اخراجات برداشت کرتے سی پیک پر نواز شریف حکومت کا ساتھ دینے چوہدری پرویز الہی مشاہد حسین سید سے ناراض ہو گئے جس کے بعد مشاہد حسین نے باوقار طریقے سے مسلم لیگ (ق) سے علیحدگی اختیار کر لی پھر انہوں نے مسلم لیگ (ق) کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا اور دوبارہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے مشاہد حسین سید کی سیکریٹری جنرل شپ میں مسلم لیگ (ق) متحرک جماعت رہی۔

سیاسی جماعتوں کے انتخابات میں پارٹی کے آئین کا بہت کم خیال رکھا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ملک کی بعض بڑی جماعتوں کے انتخابات میں پارٹی عہدیداروں نے کاغذات نامزدگی داخل بھی نہیں کراتے لیکن ان کے بلا مقابلہ منتخب ہونے کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ بہر حال پنڈال ضرور سجایا جاتا ہے۔ بس انتخاب کرانے کا ناٹک رچایا جاتا ہے۔ پہلے سے ہی عہدیداران کا فیصلہ کر لے جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کی آئینی ضرورت پوری کرنے کے لئے جب مرکزی سطح پر انتخابات کرائے جاتے ہیں۔

خوب دھوم دھام سے ایک بڑے گراؤنڈ میں مرکزی جنرل کونسل کا اجلاس منعقد ہوتا رہا ہے۔ پورے پاکستان سے ارکان کے نام لوگ اکٹھے کیے جاتے اور میلے کا سماں ہوتا لیکن پنجاب سے مسلم لیگ (ق) والوں نے نہ صرف اچانک اپنے صدر کو معزول کر دیا بلکہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل کو بھی فارغ کر دیا فوری طور پر اس اقدام کی وجہ بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی باور کیا جاتا ہے۔ چوہدری پرویز الہی نے پارٹی کے صدر چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے ان سمیت مسلم لیگ (ق) کے ظہورالہی 0 ارکان کو ڈی سیٹ کیے جانے کے خط کے اجراء سے قبل پیش بندی گئی ہے۔

سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ ہوتی رہتی ہے لیکن بھائیوں کے درمیان اختلاف اتنا نہیں بڑھتا کہ نوبت معزولی تک پہنچ جائے ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو پارٹی کی شریک چیئر پرسن بیگم نصرت بھٹو سے عہدہ واپس لے کر خود چیئرپرسن بن چکی ہیں۔ سو چوہدری پرویز الہی نے بھی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی اور بقول کامل علی آغا سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلا کر چوہدری شجاعت حسین کو ناسازی طبع کے باعث عہدے سے سبکدوش کر دیا گیا ہے۔

یہ اقدام اسی طرح ہے جس طرح ہنگامی بنیادوں پر پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے ظہورالہی 0 ارکان کا اجلاس بلا کر ساجد بھٹی نام کے ایم پی اے کو پارلیمانی لیڈر بنا دیا گیا اور اس کی جانب سے چوہدری پرویز الہی کو ووٹ دینے کی ایڈوائس جاری کر دی گئی پنجاب مسلم لیگ ق نے چودھری شجاعت حسین کو پارٹی کی صدارت جبکہ طارق بشیر چیمہ کو سیکرٹری جنرل کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ پارٹی کے آئین کے تحت مرکزی صدر و سیکریٹری جنرل کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کا ایک طریقہ کار طے ہے۔

یہ کارروائی سینیٹر کامل علی آغا کی زیر صدارت ہونے والے سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں کی گئے ہے۔ وہ پارٹی کے صوبائی جنرل سیکریٹری ہیں۔ ان کے مطابق یہ اجلاس مسلم لیگ ہاؤس لاہور میں ہوا ہے جس میں چودھری شجاعت کو صدر اور طارق بشیر چیمہ کو سیکرٹری جنرل کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دس دن کے اندر پارٹی میں نئے انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ انٹرا پارٹی الیکشن کے 5 ر کنی الیکشن کمیشن تشکیل دے دیا گیا ہے جب کہ جہانگیر اے خواجہ الیکشن کمشنر ہوں گے۔

کامل علی آغا نے کہا کہ یہ مختصر نوٹس پر ہنگامی اجلاس تھا جس میں 83 ارکان نے شریک کی طویل مشاورت کے بعد صدر اور سیکریٹری جنرل کو ان کے عہدوں سے فارغ کر دیا گیا یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ (ق) کے آئین کے مطابق پارٹی کی جنرل کونسل کے اجلاس میں ہی عہدیداروں کے انتخاب یا معزولی کا طریقہ کار طے ہے۔ مسلم لیگ (ق) کی مرکزی جنرل کونسل کا اجلاس ہنگامی طور پر بھی بلانا مقصود ہو تو اس کے لئے صدر کی پیشگی اجازت درکار ہوتی ہے۔

پارٹی کے صدر کو ان کے عہدہ سے ہٹانے کے لئے نام نہاد مرکزی جنرل کونسل یا سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا جو اجلاس طلب کیا گیا تھا۔ اس کی پارٹی کے سیکریٹری جنرل کو خبر نہیں تھی۔ صدر اور سیکریٹری جنرل کو اجلاس کے بارے میں اس وقت خبر ہوئی جب کامل علی آغا نے ایک پریس کانفرنس میں چوہدری شجاعت حسین اور طارق بشیر چیمہ کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کا اعلان کیا اس عمل میں پارٹی کے تین صوبوں کے صدور اور دیگر عہدیداروں کو شامل نہیں کیا گیا پارٹی کے بانی چوہدری شجاعت حسین کو ان کے عہدہ سے اس طرح ہٹانے کا کوئی جواز ہی نہیں۔

سیاست ایک بے رحم کھیل ہے۔ عمران خان کے ہاتھوں کھیل کھیلنے والے اپنے ہی بھائی کو بے توقیر کرنے کے کھیل کا حصہ بن گئے یہ سب کچھ جہاں وزارت اعلیٰ کے حصول کے لئے کیا گیا وہاں مستقبل میں اپنے صاحبزادوں کے لئے پی ٹی آئی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے بھی کیا گیا چوہدری پرویز الہی نے چوہدری مونس الہی اور چوہدری وجاہت حسین نے چوہدری حسین الہی کے لئے نشستوں کا سودا کر لیا ہے جب کہ چوہدری شجاعت حسین ان کو یہ نشستیں میاں نواز شریف سے دلوا سکتے تھے۔

چوہدری ظہر الہی شہید کا ملکی سیاست میں بڑا اہم رول رہا ہے۔ مجھے انہیں کور کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ اپنے دور میں اپوزیشن تحاریک کے روح رواں رہے ہیں بلکہ ان کے دم سے تحاریک چلی تھیں انہیں ذوالفقار علی بھٹو اپنا دشمن نمبر ون تصور کرتے تھے۔ اس دور میں سیاست میں سر لگتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے چوہدری ظہور الہی کو ٹھکانے لگانے کے لئے کوہلو میں جا کر قید کر دیا۔ مبینہ طور پر ذوالفقار علی بھٹو انہیں کوہلو میں ہی ٹھکانے لگانا چاہتے تھے لیکن نواب اکبر بگٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کے عزائم پورے نہیں ہونے دیے چوہدری ظہور الہی کنونشن مسلم لیگ میں بھی رہے لیکن وہ کونسل مسلم لیگ کے روح رواں رہے یہیں سے ان کا سیاسی کیریئر بنا چوہدری ظہور الہی نے سیاست میں جو بیج کھویا آج ان کی اولاد ان کا بویا کھا رہی ہے۔

سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو اور چوہدری شجاعت حسین کے درمیان دشمنی ہی وجہ تھی کہ جب وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جنرل ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلے کی توثیق کی تو انہوں نے جنرل ضیا الحق سے وہ قلم مانگ لیا جس سے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلے کی توثیق کی یہ قلم آج بھی چوہدری شجاعت حسین کے پاس موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ آج بھی ایسے کسی قلم کی موجودگی بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں اگرچہ پوری کابینہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کی توثیق کی تھی لیکن چوہدری شجاعت حسین کا جنرل ضیا الحق سے قلم مانگنا پیپلز پارٹی نظروں میں بڑا جرم ٹھہرا الذوالفقار کے ایک کارکن عبدالرزاق جھرنا نے چوہدری ظہور الہی کو شہید کر دیا گجرات کے جٹ اپنے دشمنوں کو بھلایا نہیں کرتے چوہدری ظہور الہی کو جس کار گولیوں سے چھلنی کر کے شہید کیا گیا تھا۔ وہ آج بھی گجرات کے پیلس میں اسی حالت میں محفوظ ہے۔

مسلم لیگ (ق) پنجاب کے جنرل سیکریٹری کامل علی آغا کی پریس کانفرنس کے بعد مسلم لیگ (ق) کے ترجمان چوہدری شفاعت حسین کا اے بیان جاری ہوا ہے جس میں کہا گیا کامل علی آغا مسلم لیگ ) ق) پنجاب کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ وہ کیسے مرکزی صدر کے خلاف کوئی کارروائی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ق) کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے حوالے سے خبریں من گھڑت اور بے بنیاد ہیں۔ مسلم لیگ (ق) کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا کوئی وجود نہیں پارٹی کا کوئی اجلاس صدر چوہدری شجاعت حسین کی مشاورت اور مرضی کے بغیر طلب نہیں کیا جاسکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments