صنفی برابری کی تحریک: مردوں کی نسبت خواتین میں قائدانہ عہدوں کی خواہش کم کیوں


خاتون
خواتین اپنے نوکریوں میں آ گے بڑھنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتیں
ملازمت پیشہ خواتین کے لیے تنخواہ، اعلیٰ عہدوں پر ترقیوں اور یہاں تک کہ پنشن میں واضح صنفی فرق موجود ہے، لیکن تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ دور میں مردوں اور خواتین میں آگے بڑھنے کی امنگ اور خواہش میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔

ایسا اس وقت ہوتا ہے جب خواتین میں اپنے شعبوں میں آگے بڑھنے کی خواہش یا امنگ اس طرح نہیں پائی جاتی جس طرح یہ مردوں میں نظر آتی ہے اور یہ عنصر مختلف شعبوں میں کلیدی عہدوں تک پہنچنے کے لیے خواتین کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوششوں کو متاثر کر سکتا ہے۔

حالیہ برسوں میں معاشرے میں سماجی مساوات پیدا کرنے کی عالمی مہم کی بنیاد اس بارے میں جاری تحقیق نے فراہم کی جس سے یہ آشکار ہوا کہ کاروباری دنیا میں قائدانہ یا کلیدی عہدوں میں خواتین کو کس طرح کم نمائندگی دی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر، حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اب جب کہ سینئر مینجمنٹ یا اعلیٰ انتظامی عہدوں میں خواتین کا حصہ بتدریج بڑھ رہا ہے، لیکن ’لیکی پائپ لائن‘ (رستی ہوئی پائپ لائن) اثر کا مطلب ہے کہ کم خواتین کمپنیوں میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچتی ہیں۔

اس صورتحال نے پالیسی سازوں اور کاروباری رہنماؤں کو مجبور کیا ہے کہ وہ توازن کو بہتر بنانے کی کوشش میں تنوع پیدا کرنے کے لیے اقدامات کریں۔

کیونکہ یہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ ایسے اداروں یا کمپنیوں کی مالی کارکردگی بہتر ہوتی ہے جن میں زیادہ خواتین اعلٰی یا اہم عہدوں پر فرائض انجام دیتی ہیں، نیز خواتین کی اعلٰی عہدوں تک ترقیوں کو یقینی بنا کر معاشرے میں وسیع تر اقتصادی فوائد بھی خواتین کی مکمل اقتصادی صلاحیت کو بروئِے کار لا کر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

خواتین

یہ اقدامات تعصب کو ختم کرنے کے لیے بھرتی سے لے کر ترقیوں تک کے مختلف مراحل کو سامنے رکھے کر اٹھائے گئے ہیں۔ کچھ کمپنیاں کام کے لچکدار قواعد بھی اختیار کرتی ہیں جیسے دور سے کام کرنے کی سہولیات۔ شمولیت اور باہمی ہم آہنگی کا ماحول تخلیق کرنے سے بھی مدد مل سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، سرپرستی اور مشاورت کے پروگراموں کو نافذ کرنے سے۔

قائدانہ عہدوں میں خواتین کی شرکت کو بڑھانے کا مقصد بلا شبہ نیک نیتی پر مبنی ہے۔ لیکن ان تنوع کے اقدامات کو نافذ کرتے وقت، کاروباری رہنماؤں کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آیا خواتین بھی ان قائدانہ ذمہ داریوں میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔

اس وقت، بہت سی خواتین درحقیقت لیڈر بننے کی خواہش نہیں رکھتی ہیں، یہ تحقیق میں نے امریکہ میں واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی، کی لیہ شیپارڈ اور اٹلی کی میلانو بائیکوکا یونیورسٹی سے تاتینا بلوشکینہ کے ساتھ مل کر مکمل کی ہے۔

قیادت اور انتظامی عہدوں کے لیے مردوں اور خواتین کی خواہشات کا موازنہ کرنے والی تحقیق کا ہمارا تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مردوں میں خواتین کے مقابلے میں قائدانہ عہدوں پر پہنچنے کی خواہش یا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔ ہم نے چھ دہائیوں کی تحقیق کو 138,000 سے زیادہ امریکی شرکاء کے حتمی نمونے کے ساتھ دیکھا۔ ہم نے ان نتائج کی بنیاد پر ایک فرضی ادارہ بھی بنایا، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ آٹھ درجہ بندی کی سطحوں والی کمپنی میں، قیادت کی خواہشات میں صنفی فرق اعلیٰ ترین تنظیمی سطح پر ہر عورت کے مقابلے میں 2.13 مرد بنتا ہے۔

ہماری تحقیق کے مطابق، خواہشات میں فرق کالج کی عمر کے آس پاس ابھرتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بہت سے لوگ اپنی کام کی زندگی کا پہلا تجریہ انٹرن شپ یا موسم گرما میں عارضی نوکری کے ذریعےحاصل کرتے ہیں۔ ہمارے علم میں یہ بھی آیا کہ ہر شعبے کی اپنی اہمیت ہے۔ صنفی خواہش کا فرق یقینی طور پر نرسنگ اور تعلیم جیسے خواتین کے اکثریت والے شعبوں میں دیکھا جا سکتا ہے، لیکن یہ زیادہ مخلوط اور مردوں کی اکثریت والے شعبوں جیسے سیاست اور کاروبار میں زیادہ شدت سے نظر آتا ہے۔

یہاں تک کہ جب کہ معاشرے میں تنوع حاصل کرنے کے سنجیدگی سے کوششیں کی جا رہی ہیں، خاص طور پر پچھلی دہائی میں، ہمارا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ قیادت کی خواہش میں صنفی فرق گزشتہ 60 سالوں میں ایک جیسا ہی رہا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ، یا تو موجودہ تنوع کے اقدامات ان ذمہ داریوں کے بارے میں خواتین کے خدشات کو دور نہیں کرتے ہیں، یا یہ کہ اقدامات بہت عام ہیں اور ان کو خواتین کی مخصوص ضروریات کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے۔

ہماری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کمپنی کے تنوع حاصل کرنے کے سلسلے میں اقدامات موثر ثابت نہیں ہو رہے۔ لہذا، کاروباری رہنماؤں اور مینیجرز کو ان اقدامات کو بہتر بنانے کے لیے خواتین کی حقیقی امنگوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ ایک اچھی شروعات یہ ہو گی کہ خواتین ملازمین کی عدم دلچسپی کے پیچھے مخصوص وجوہات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، خاص طور پر مردوں کے زیر تسلط ماحول میں۔

اگرچہ ہم خواہش کے فرق کی وضاحت کرنے کے قابل نہیں تھے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا تعلق ذاتی خول سے ہوسکتا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب افراد اپنے آپ کو صنفی روایتی تصورات کے حصار میں محدود کر لیتے ہیں، رضاکارانہ طور پر صنفی اصولوں کا خول اپنے اوپر چڑھا لیتے ہیں۔

خواتین کے لیے، اس کا مطلب ایک دقیانوسی تصور کو اپنے اوپر طاری کر لینا ہے، جس کی وجہ سے وہ خود کو ایک لیڈر سے کم تر تصور کرتی ہیں۔ حیرت کی بات نہیں کہ ایسی خواتین قیادت کے عہدوں کی خواہش نہیں رکھتیں۔ دوسری طرف، مرد مردانہ برتری کے روایتی تصور کو اپنا لیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ یہ سوچتے ہیں کہ وہ خود پر اور دوسروں پر زیادہ کنٹرول رکھ سکتے ہیں۔ یہ اس دقیانوسی تصور کے ساتھ بھی مطابقت رکھتا ہے جو لوگ اکثر لیڈروں سے وابستہ کرتے ہیں۔

یقیناً، دوسری وضاحتیں ممکن ہیں۔ اس میں وہ خواتین شامل ہو سکتی ہیں جن کو کام کی جگہ پر زیادہ منفی تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کہ تعصب اور امتیازی سلوک، جس کی وجہ سے وہ اعلی عہدوں کی خواہشمند ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کرکٹ کیسے صنفی تفریق ختم کرنے میں مددگار؟

دسترخوان سے اٹھ کر پانی کون لائے گا، مرد یا عورت؟

’ہمارے ذہنوں میں یہ بات ہوتی ہے کہ اگر عورت کی حمایت کی تو مردوں سے غداری کر رہے ہوں گے‘

یہ بھی ممکن ہے کہ خواتین کو اس بات کی فکر ہو کہ قیادت کا عہدہ قبول کرنا اور آنے والی ذمہ داری ان کی خاندانی زندگی پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، جب گھر میں فیصلہ سازی کی بات آتی ہے تو خواتین اکثر زیادہ طاقت رکھتی ہیں۔ اتنی زیادہ، کہ انھیں کام کی جگہ پر طاقت حاصل کرنے میں کم دلچسپی ہوتی ہے۔

خواتین کو تقویت دینے کی کسی بھی کوشش کا آغاز مخصوص اور متعین مداخلتوں سے ہونا چاہیے جیسے کہ رہنمائی کی سکیمیں تیار کرنا یا مثالوں کو اجاگر کرنا۔ اداروں کو ان خواتین پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو اپنے کیریئر کے آغاز میں قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کرتی ہیں اور انھیں تنظیم کے ذریعے اوپر کی طرف ترقی کے لیے مفید وسائل اور مدد فراہم کرتی ہیں۔ ہمارے نتائج بتاتے ہیں کہ خواتین کی قیادت کی خواہشات کو بڑھانے کے لیے مداخلتیں مثالی طور پر کالج سے پہلے یا اس کے دوران ہونی چاہییں۔ اپنے کیریئر کے اس مرحلے پر خواتین کو خاص طور پر ان خواتین کو دیکھنے اور ان کے ساتھ بات چیت کرنے کا موقع ملنے سے فائدہ ہو سکتا ہے جو پہلے سے ہی قائدانہ عہدوں پر فائز ہیں۔

صنفی تنوع کے اقدامات کو تخلیق کرنا ممکن ہے جو کاروبار کے اوپر والے طبقے تک پہنچنے والی خواتین کی تعداد کو بڑھانے کے لیے زیادہ کام کرے گا۔ اور زیادہ خواتین کے لیے قیادت کے عہدوں پر جانے کے لیے جگہ بنانا نہ صرف منصفانہ ہے، بلکہ اس کا کمپنی پر مثبت اثر بھی پڑ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments