بارشوں میں گورننس بھی بہہ جاتی ہے

وسعت اللہ خان - تجزیہ کار


wusat ullah khan وسعت اللہ خان

ہر برس، دو برس بعد آنے والا سیلاب انسانی جانوں اور املاک کے ساتھ ساتھ بااختیاروں کے تن پر برگِ انجیر (فگ لیف) تک نہیں چھوڑتا۔ مگر یہ سخت جان ہر سال مون سون گزرتے ہی نئے کپڑے پہن کے جھٹ سے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

تازہ ترین سیلاب میں سکھر بیراج کے دروازوں میں پھنسی پانچ لاشوں کو نکالنے کے لیے تھانے کی حدود کے تعین کی بحث نے بعینہہ اسی موضوع پر نسیم کھرل کی کہانی ’چونتیسواں گیٹ‘ کو حقیقت کا جامہ پہنا کے عمال کا پاجامہ انہی کے کندھے پر رکھ دیا۔

لاہوری بارش کے پانی میں لمبے بوٹ پہن کے اترنے کے لیے مشہور سابق خادم اعلٰی پنجاب حال مقیم اسلام آباد خادمِ اعظم عزت ماآب شہباز شریف کے مطابق لگ بھگ تین سو جانیں اب تک ضائع ہو چکی ہیں اور دس ہزار سے زائد مکانات ڈھ گئے ہیں۔

سب سے زیادہ نقصان سب سے کم آبادی والے بلوچستان میں ہوا ہے۔ وہاں جیسا کیسا تعمیراتی ڈھانچہ بھی شدید زخمی ہے۔

چنانچہ وزیرِ اعظم نے جاری تباہ کاری بچشم دیکھنے کے لیے مون سون کے تیسرے ہفتے میں قیمتی وقت نکال کر بلوچستان کے نصیر آباد ڈویژن میں ایک آفت زدہ علاقے کے زیرِ آب زمینی نمونوں کا فضا سے معائنہ کیا۔

وزیرِاعظم نے شمبانی گاؤں کا دورہ کیا اور وہاں متاثرین کے لیے طبی امدادی کیمپ کے قیام اور علاقے میں ایک ویٹرنری ڈاکٹر کی تقرری کا بھی حکم دیا۔

یعنی وہ کام جو کبھی اسسٹنٹ کمشنر کی سطح پر ایک معمول کی ذمہ داری سمجھے جاتے تھے اب ان کے احکامات بھی وزیرِ اعظم کو جاری کرنے پڑتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ گورنننس کا معیار کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔

جب دو ہزار دس کے سیلابِ عظیم میں تینتیس فیصد پاکستان زیرِ آب آ گیا تو وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے میانوالی کے سیلابی علاقے کا دورہ کیا۔ ایک سکول میں قائم میڈیکل کیمپ میں انھیں سفید بستروں پر لیٹے مریضوں سے ملوایا گیا۔

وزیرِ اعظم کی جانب سے پانچ پانچ ہزار روپے دل جوئی کے لیے ان مریضوں میں تقسیم کیے گئے۔ وزیرِ اعظم نے کیمپ کے انتظام کی بھی تعریف کی۔ جیسے ہی وزیرِ اعظم ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے جلو میں میڈیکل کیمپ سے رخصت ہوئے مریض بھی بھلے چنگے ہو گئے۔ اپنی اپنی چارپائیاں بغل میں دابیں اور گھروں کو روانہ ہو گئے۔

یعنی جو فن کار نوکر شاہی حاضر سروس وزیرِاعظم کو چونا لگا سکتی ہے وہ عام آدمی کے ساتھ کیا کیا نہیں کرتی ہو گی۔

خادمِ اعظم شہباز شریف نے سندھ سے متصل بلوچستانی ضلع جھل مگسی میں چیف سیکرٹری عبدالعزیز عقیلی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے این ڈی ایم اے کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز سے بریفنگ بھی لی اور امدادی کاموں کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا۔

یہ وہی حکومتِ بلوچستان اور وہی این ڈی ایم اے ہے جس نے لگ بھگ ڈیڑھ ماہ قبل شمالی بلوچستان کے چلغوزہ جنگلات میں لگی آگ بجھانے کے لیے دو ہفتے کے صلاح مشورے کے بعد آگ بجھانے کے لئے ایک حضوصی ایرانی طیارے کی مدد حاصل کی تھی۔ تب تک تیس ہزار ایکڑ رقبے پر لگا چلغوزہ راکھ ہو چکا تھا۔

سندھ میں رواج ہے کہ مون سون کی آمد سے تین چار ماہ پہلے سڑکوں کی مرمت و تعمیر میں تیزی آ جاتی ہے تاکہ رواں مالی سال کے ترقیاتی فنڈز تیس جون کے بعد ضائع کی مد میں نہ چلے جائیں۔

ٹھیکیدار کو بھی معلوم ہے کہ ریکارڈ میں صرف مرمت اور تعمیر ہی دکھانی ہے چنانچہ وہ اس بات کا بطورِ خاص خیال رکھتا ہے کہ سڑک ایسی بنے جو پہلی بارش میں ہی دھل جائے یا چاند کی سطح میں تبدیل ہو جائے۔ پھر نیا سال، نیا بجٹ اور آنکھوں کا تارہ پرانا ٹھیکیدار۔

نیب یا ایف آئی اے کو کرپشن کے ثبوت تلاش کرنے کے لیے کسی اضافی کھوج کی ضرورت ہی نہیں۔ کوئی بھی سڑک تعمیر کے چند ماہ بعد سلطانی گواہ بننے پر تیار ہے۔

انگریز کے دور سے بچہ بچہ جانتا ہے کہ جنوبی پنجاب میں مون سون ہر سال انسانی جانوں اور املاک کی شکل میں سود مرکب وصول کرنے آتا ہے اور اپنے گزرگاہ میں بنی تجاوزات بھی لے جاتا ہے۔ مگر ہر سال سرکار ایسے اداکاری کرتی ہے گویا پہلی بار یہ مصیبت دیکھی ہو۔

اس وقت راجن پور ڈیرہ غازی خان کی سلیمانی پٹی ہمیشہ کی طرح پہاڑی نالوں کی زد میں ہے۔ مگر لاہور میں گلشن کا سیاسی کاروبار تھمے تو کوئی پنجاب کی اس انتہائی نکڑ کو بھی دیکھے۔

خوش انتظامی کا یہ عالم ہے کہ خشک راشن بھی لاہور کی زخیرہ گاہ سے جاری ہو کے آخری مصیبت زدہ تک پہنچانے کی روایت برقرار ہے۔

خیبر پختونخواہ پچھلے نو برس سے ریاستِ مدینہ کا منی ماڈل بتایا جا رہا ہے۔ وہاں مالاکنڈ سے ڈیرہ اسماعیل خان تک سیلابی زبوں حالی کی کیا شکل ہے۔ اس پر کوئی بھی تبصرہ سوشل میڈیا پر من من بھر کے گالیانہ پتھراؤ کو دعوت دینے جیسا ہے۔

پھر بھی یہ کہنے کی جرات کر رہا ہوں کہ صرف حکومت ہی امپورٹڈ نہیں ہوتی مون سون بھی امپورٹڈ ہے۔ دونوں سے پھر ایک ہی طرح نمٹئے۔

اب ہر سال سیلاب آئیں گے اور پہلے سے زیادہ بارشیں ہوں گی۔ اس پر تمام ماہرینِ ماحولیات متفق ہوتے جا رہے ہیں۔ مگر ان سب کو ملا کے ووٹ کتنے بنتے ہیں؟

نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالب

ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments