نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے


یوں تو پاکستان کی تاریخ ابتدا ہی سے سیاسی نا پختگی اور ناقابل یقیں، ناقابل برداشت ہی رہی ہے سیاسی عدم استحکام اس ملک و معاشرے کی پہچان و خصوصیت بنی ہوئی ہے لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے سے بالعموم اور بالخصوص گزشتہ چند مہینوں سے انتہائی بے یقینی کی سی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔

پہلے ہم نے چند حکومتوں (خوش قسمتی سے) کو اپنی میعاد یا مدت پوری ہوتے ہوئے دیکھا چاہے کسی بھی طرح سے بھی اچھی، بری، مثبت یا منفی ہر طرح سے پورے پانچ سال مکمل کرتے دیکھا یہ بذات خود ایک اطمینان بخش عمل تھا لیکن اٹھارہ جولائی دو ہزار اٹھارہ کو ہونے والے انتخابات میں روایتی جماعت بندی سے ہٹ کر نتائج ہم سب نے دیکھے بلکہ محسوس بھی کیے ایک نئی سوچ، نئی قیادت، نیا عزم لیے چاہے زیادہ تر چہرے وہی پرانے تھے لیکن کچھ تو ایسا تھا جو پہلے کبھی نہ دیکھا نہ محسوس کیا اس پر پوری قوم نے اطمینان کا سانس لیا اور پاکستان کا کارواں آ گے بڑھتے ہوئے چلتے ہوئے دیکھا حالانکہ روایتی سیاستدانوں نے ان انتخابات کے نتائج کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ کئی حوالوں سے کئی محاذوں پر واویلا بھی خوب مچایا لیکن بہرحال پاکستان ایک منزل کی طرف اپنا سفر پوری دنیا کے ساتھ باعزت انداز میں جاری رکھے ہوئے تھا

ابھی ایک سال اور کچھ ماہ ہی گزرے تھے ایک سخت عالمی مسئلے نے جہاں پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا وہیں پاکستان بھی ہر سطح جیسے مالی، معاشی، سماجی سطح پر اس مسئلے کے تمام تر نقصانات سے نہ بچ سکا میری مراد یہاں عالمی وبا کرونا ( کووڈ ) سے ہے معاشی سطح پر ہر بڑا ملک اس سے متاثر ہوا تو یہ کیسے ممکن ہوتا کہ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک محفوظ رہتا کئی ادارے یا تو بند کر دیے گئے یا پھر ملازمتوں کے دروازے محدود کر دیے گئے کئی ہزار افراد اس بیماری کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن گئے اور کئی اس خطرناک مرض کا شکا ر ہوئے اور زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے واپس اس زندگی کی دوڑ میں دوبارہ شامل ہو گئے۔

چونکہ پاکستان کی سیاست کی باگ ڈور ہمیشہ ایسی نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں میں رہی ہے جو اسے ہمیشہ عدم استحکام کا شکار رکھنا چاہتے ہیں مجھ جیسے انسان جس کا سیاست سے ایسا کوئی تعلق نہیں لیکن پھر بھی حالات کے اثرات لیے بغیر رہ بھی نہیں سکتے وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے کیونکہ اس کے اثرات ہر شعبہ ہائے زندگی پر منفی انداز میں واضح نظر آرہے ہیں ایسے میں منتخب حکومت کو ہٹانے کی ایک بار پھر اندرونی اور بیرونی سازش شروع ہوئی اور اندرونی قوتوں کی حمایت اور شہ پر بالآخر منتخب حکومت کو ہٹا کر اقتدار کی بظاہر پر امن منتقلی بھی کر دی گئی لیکن یہ سب ناقابل فہم ہی ہے اب تک کیونکہ جن وجوہات کو بنیاد بنا کر ایک آئینی اور منتخب حکومت کو ہٹا یا گیا اس کی مثال ہماری پچھتر سالہ تاریخ میں ملنا محال ہے جن الزامات لگا کر حکومت ختم کی گئی وہی سارے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اقدامات خاموشی سے کیے گئے مہنگائی کو ہی لے لیجیے کہ پھر چاہے اس کی انتہائی حدیں کہیں تک ہی کیوں نہ جائیں برداشت کرنا عوام کا مقدر بنا دیا گیا ان اقدامات کو آئی ایم ایف (عالمی مالیاتی ادارہ) سے منسلک کیا جائے یا ان کی شرائط کہا جائے یا خواہش، معیشت کو مضبوط یا تباہ کیا جائے یا کیا گیا ہو بہرحال عوام اور ان کی قوت خرید اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اور اہم مالی، اخلاقی، سماجی و معاشی بد حالی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

ہم عوام کو یہ سب برداشت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے یا ہم مجبور ہو رہے ہیں نہ آواز خود اٹھا رہے ہیں اور نہ ہی آواز اٹھانے والوں کا ساتھ دے رہے ہیں ہمیں جرات کر نا ہوگی اس کا ہمیں کچھ سبق پنجاب کے عوام سے بھی ملا سترہ جولائی کے ضمنی انتخابات کے دوران وہاں کے عوام کا خاموش مگر فیصلہ کن احتجاج نظر آیا اس نے وقت کی کایا پلٹ دی جس کی نظیر ہمیں ماضی میں کہیں نظر نہیں آتی لیکن اس کے بعد سیاسی جوڑ توڑ اور سیاسی شعبدہ بازی کا مظاہرہ جس جس طرح ہوا اور جس طرح اکثریت کو اقلیت میں دن دیہاڑے آئین شکنی کر کہ بدلا گیا وہ بھی ہماری سیاسی تاریخ کا سیاہ باب ہے اب ہم سب کی نظریں عدالت عالیہ پر ہے بس اتنی ہی گزارش کرنا چاہوں گی کہ اب ایسی حکمت و دانائی سے کام لیا جائے کہ آج کی ہم عوام اور آنے ہماری نسلیں بھی اس ملک کے ذریعہ اللہ کی دی ہوئی لازوال، دولت، نعمت سے بہرہ مند ہو سکیں ایک اہم بات میں عرض کرتی چلوں ہم جیسے عوام جنھیں اللہ تبارک تعالی نے کچھ علم کی دولت عطا فرمائی ہے جس پر ہم اس کے انتہائی شکر گزار ہیں اور نہ ہی ہم کسی سیاسی جماعت، گروہ، نظریے سے متاثر یا وابستہ نہیں ہوتے بلکہ ایک باشعور اور محب وطن سوچ رکھتے ہیں انھیں اپنا اور اپنی آنے والی نسلوں کی بقا اسی ملک سے وابستہ نظر آئے اور وہ بھی شاندار نہ کہ افسردہ اور معاشی، سماجی اور مالی معاملات میں گھرا ہوا منتشر پاکستان۔

ایسے حالات میں نہ صرف تمام پاکستانی اور بالخصوص غربت کی سطح اور اس سے بھی نیچے کی سطح کے لوگوں کے لئے روزمرہ کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے اب مزید کچھ کہنے کی نہ ہمت ہے اور نہ ہی الفاظ سوائے اس کے کہ

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لئے
حیات بوجھ نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
خدا کرے کہ میری ارض پاک پہ اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments