انور ابڑو: جدید سندھی ادب کے چمکتے ستارے


سندھی ادب کے اہم نام انور ابڑو اس وقت سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کراچی میں ایڈمنسٹریٹو شعبے میں اہم عہدے پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مگر ان کی پہچان ان کی ادبی خدمات ہیں۔ انور ابڑو کا شمار سندھ کے معروف جدید شعراء، افسانہ نگاروں اور ڈراما نگاروں میں ہوتا ہے۔ انور ابڑو سندھی ادب کے ایسے جدید، ترقی پسند اور روشن خیال ادیب اور شاعر ہیں جن کی شاعری، افسانوں اور ڈراموں میں خیالوں کی رنگین کائنات میں جدت، روشن خیال اور ترقی پسند سوچ کی رنگینیاں جھلکتی ہیں۔ ان کی تحریروں میں سوچ و فکر کی ایسی کہکشاں نظر آتی ہے جس میں تخیل کے کئی ستارے چمکتے دمکتے نظر آتے ہیں اور جن کی روشنی سماجی خامیوں اور مسائل کے اندھیرے میں اجالا محسوس ہوتی ہیں۔

انور ابڑو اپنے مزاج میں بہت نفیس، نرم اور ملائم انسان ہیں۔ اس لیے ان کی شاعری، افسانوں، ڈراموں اور دیگر تحریروں میں احساسات اور جذبات کی نفاست خوشبؤ کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ ایسی خوشبؤ جو پڑھنے والوں کے حواسوں کو بھی معطر بنا لیتی ہے۔ اس نرم مزاج تخلیق کار کی تخلیقیں روح کو گرمانے کی قوت بھی رکھتی ہیں۔ انور ابڑو کے افسانوں اور ڈراموں کے فنی تانے بانے میں متحرک کردار سماجی حقیقت نگاری، روشن سوچ اور ترقی پسند خیالوں کی بھرپور علامت ہوتے ہیں اور پڑھنے یا دیکھنے والے کو مثبت اور اصلاحی سوچ کی طرف لے جاتے ہیں۔

ان کے افسانوں اور ڈراموں میں کلائمیکس اور اینٹی کلائمیکس کے عنصر خوب تر ہوتے ہیں۔ ان کے افسانوں اور ڈراموں میں تجسس کی خوبی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو شروع سے آخر تک افسانہ پڑھنے اور ڈراما دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ ان کے افسانوں اور ڈراموں کے موضوعات بھی منفرد ہیں جس وجہ سے یہ اپنے ہم عصر دور کے افسانہ نگاروں اور ڈراما نگاروں میں مفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں رنگین احساسات کے اظہار کی منفرد تخلیقی صلاحیت اور تخلیقی سطح پر زبان کے استعمال کا ہنر بھی اسے منفرد افسانہ نگاروں اور ڈراما نگاروں کی فہرست میں شامل کرتا ہے۔

انور ابڑو سندھی زبان کے معروف شاعر بھی ہیں۔ اس نے شاعری کی دوسری اصناف کی نسبت سے نثری نظم اور آزاد نظم زیادہ لکھی ہیں۔ ان کی نظمیں موضوع اور تخیل کے لحاظ سے بالکل منفرد ہیں۔ ان کی نظموں میں روانی بھی ہے، جذبات کی رنگینی بھی ہے اور موضوع کی انفرادیت کی مٹھاس بھی ہے۔ یہ اپنی شاعری میں فطرتی منظروں، خالص سماجی ماحول کے ساتھ ساتھ دقیانوسی اور روایتی نظریوں کے بجائے مثبت نظریاتی سوچ و فکر اور دنیا میں آگے بڑھنے والے جدید نظریوں اور خیالوں کو اہمیت دینے اور ان کے ساتھ آگے بڑھنے کا قائل نظر آتا ہے۔

انور ابڑو بہترین کالم نگار بھی ہیں۔ اس نے جس موضوع پر بھی کالم لکھے ہیں وہ فکری گہرائی کا آئینہ ہیں۔ اپنے مطالعے، مشاہدے اور سماجی سوجھ بوجھ کی روشنی میں موضوع پر دسترس سے روشنی ڈالتے ہیں۔ انور ابڑو نے جو بھی لکھا ہے وہ وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کے لکھا ہے۔ اس نے سندھی زبان کے ادب کو زرخیز بنانے کے لیے اپنے حصے کا کام کیا ہے۔ انور ابڑو جدید سندھی ادب کے ایسے چمکتے ستارے ہیں جس کی ادبی خدمات کی روشنی صدیوں کا سفر کرے گی۔ ان کی لازوال اور لافانی ادبی خدمات کے دیپ کا اجالا ہمیشہ کے لیے روشن رہے گا۔

آزاد نظم
ٹھنڈی ہوا جیسی زندگی
زندگی کے تجربے،
بے حد کٹھن،
درد کا جیسے صحن،
بہت مضطرب ہیں،
زندگی کے مشاہدے،
جیسے انگاروں کا بدن،
بڑی اذیتیں،
جیسے سلگتی آگ کی جلن،
زندگی میں ملنے والے،
لوگوں کی روشیں،
بے حد تلخ،
جیسے کنڈی میں مچھلی کی تڑپ!
زندگی،
پھر بھی ہے آگے بڑھنے میں مگن!
کبھی رکتی نہیں،
مضطرب روشوں سے ڈرتی نہیں،
پیچھے مڑ کر کبھی دیکھتی نہیں،
آگے بڑھتی ہے،
کچھ ایسا یاد کرتے پغیر،
جو زندگی کے سفر کو،
روک لے،
روند لے،
اس سب کچھ ہونے کے باوجود،
زندگی ہے ایک موقعہ مختصر،
خود کو زندہ بنانے کا ہنر،
ہر صدی کے سینے میں دھڑکنے کا ثمر،
تلخیوں کی سلگتی آگ پر،
پیر رکھ کر،
ہے ننگے پاؤں،
چلنے کا لمحہ فکر،
یہ موقعہ بناتے کاگر،
پا سکتا ہے آدمی،
ٹھنڈی ہوا جیسی زندگی،
ہاں لافانی زندگی!
نثری نظم
نئی عینک
نئی دنیا کو ہے،
نئی نظر کا نظریہ!
ہماری نظر ہے،
پرانے منظروں کی عادی،
ہم آج کی دنیا کو،
کل کی عینک سے ہیں دیکھتے،
نہیں مانتے!
نئی دنیا آگے بڑھنے کے لیے،
ہماری نظر کی محتاج نہیں!
محتاج تو ہے ہماری نظر،
اس نئی عینک کی،
جسے ہماری آنکھیں،
اب تک قبول نہیں کر رہیں!
آزاد نظم
میرے گاؤں چلنے کی ضد نہ کر
میرے گاؤں میں گھر مرا
غربتوں میں گھرا ہوا ہے
تم وہاں کیسے چلو گی
کیسے اس میں رہو گی
پیدا ہوئی تم محل میں
دھوپ جلتی کو کبھی
تم نے دیکھا نہیں
جلتے سورج کے انگاروں
نے تجھے چھوا نہیں!
ہم ہیں عادی دھوپ کے
دیوار کے سائے تلے
رہنے والے۔
صحن کچے
کچے راستے
جن پہ کبھی یہ زندگی
تیزی سے چل نہ سکی
دوڑ نہ سکی!
تم پیار کی رنگتوں رنگینیوں
کے سحر میں
مسحور ہو
مجبور ہو۔
سمجھتا ہوں مگر
محل اپنے سے کیسے نکلو
گی
جب کڑوی حقیقت ہماری
جان لو گی
ہم سے نفرت کرو گی
کہ کس طرح رہتے ہیں ہم
کس طرح کھاتے ہیں ہم
کس طرح پیتے ہیں ہم۔
کیا ہیں کھاتے
کیا ہیں پیتے
ہرگز نہ پوچھ!
تم ہماری غربتوں کی پہیلی
ہرگز نہ بوجھ!
ہاں مگر یہ جان لو تم
غربت میں گھرا گھر ہمارا
پلکیں بچھا کر
دل سے کرے گا
خوش آمدید تمہیں
سپنے جیسے کھانے
کی کرے گا آفریں،
رلیاں ہوں گی پھولوں جیسی،
پر نہ ہوں گی چادریں۔
لیکن یہاں کی کھلی فضا میں تمہارا دم گھٹے گا،
تم نہیں عادی کھلے ماحول کی
تم ہو رانی بند گھر کی
اپنے سہانے شہر کی۔
میرے گاؤں چلنے کی ضد نہ کر!
راز گاؤں کی زندگی کا
فاش کرنا چاہتا ہرگز نہیں میں
اس لیے ضد نہیں میں مانتا
کیوں کہ تجھ کو افسوس کرنے کا
کوئی موقعہ دینا نہیں میں چاہتا۔
ہاں چلو تم کچھ دنوں
کے لیے
دودھ مکھن بہت خالص
میں تجھے کھلاؤں گا
شہد جیسا میٹھا پانی
میں تجھے پلاؤں گا
اپنے کھیتوں کے خالص اناج
کی روٹی پیش کروں گا
دودھ چاول تجھے کھلاؤں گا
موسموں کی رنگتیں دکھاؤں گا
آزاد پرندوں کی اڑانیں دکھلاؤں گا
لے جاؤں گا تجھے
فطرت کے نظاروں کے قریب،
بیل گاڑی پے بٹھا کر،
موہن جو دڑو گھماؤں گا
تجھے دریائے سندھ کی،
مست لہریں بھی دکھاؤں گا
کشتی میں بٹھا کر
دریائے سندھ کی کراؤں گا سیر
تم بھگونا اس کے پانی میں اپنے پیر۔
زندگی سے لڑتی سرکش ہوائیں بھی دکھاؤں گا
اپنے گاؤں کا بند اسکول بھی دکھاؤں گا
ان ہمارے بزرگوں سے بھی ملنا
جو کسی اسکول میں پڑھے نہیں
پھر بھی ہیں وہ لوک دانش کا خزانہ
تجھ کو اپنے گاؤں کے لوگوں کا
دکھاؤں گا اخلاق و خلوص
گاؤں میرے کی دیکھنا تہذیب تم
تجھے اپنی ماں سے بہنوں سے بھی ملاؤں گا
تم خود سمجھو گی کہ ان کی زندگی میں
نہ ملاوٹ نہ منافقت
نہ کوئی دھوکا نہ جھوٹ ہے۔
جو میں تجھ کو
نظر آتا ہوں اتنا خوبصورت اور حسین
اس لیے تو کچی دیواروں والا
عام نظر میں بدصورت
تجھے گاؤں اپنا دکھا کر
تجھ کو دھوکا دینا نہیں میں چاہتا
بس دو چار دن میرے گاؤں ٹھہرنا
میری ماں بہنوں سے تحفے وصول کرنا
واپس اپنے محل میں چلی جانا
میرے ساتھ گاؤں میں
ہمیشہ رہنے کی کبھی
نہ کرنا تمنا!
نہ کرنا ضد!
نہ کرنا ضد!
ترجمہ؛عزیز کنگرانی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments