بارش اور رومان کا تخیلاتی عکس


بارش کو جہاں شراب سے تشبیہ دی جاتی ہے وہیں یہ قدرت کی رعنائیوں میں سے ایک ایسا شاہکار ہے جس کی مثال ملنا نا ممکن ہے۔ بارش اور سفر، جہاں ان دونوں کا ذکر ہو وہیں فطرت کی رنگینیوں کے سراہنے والے اپنے دل تھام لیتے ہیں۔ ہر رومان پرور دل میں بارش کی آمد کے ساتھ ہی ایسا جذبہ پروان چڑھتا ہے جو چاند چڑھائے بغیر ختم نہیں ہوتا۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ جھنڈ کا متلاشی رہتا ہے اور زندگی کا ہر سفر کسی ہمسفر کی آغوش میں رہ کر طے کرنا چاہتا ہے مگر اس دنیائے رنگ و بو میں کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنے سفر میں ہمراہی بنایا جا سکے۔

ٹیکنالوجی نے جہاں دنیا کو ایک مٹھی میں بند کر دیا ہے وہیں جذبات اور احساسات کا قتل عام بھی کیا ہے۔ ایسے میں تعلقات کی سرد مہری کا جنم لینا معمولی بات ہے اور ہر دوسرے شخص میں یہ رویہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ بات برستی بارش میں سفر کی ہو تو میرے دل و دماغ میں ایک ہی شخص کا تصور ابھرتا ہے جس کے سنگ یہ سفر اپنی خوش بختیوں سے نواز پائے گا۔

سفر کرنے کا لطف اس وقت میسر ہوتا ہے جب ہمسفر کے ساتھ ساتھ منزل بھی حسین ہو۔ اگرچہ حسن کا تعلق باطن سے ہوتا ہے مگر آنکھیں حقیقی حسن کو سراہنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ یوں تو بارش میں کیا گیا ہر سفر ہی حسین اور نمکین ہوتا ہے مگر بارش کا اصل لطف فلک کی اونچائیوں کو چھوتے پہاڑوں کی چوٹیوں پر کھڑے ہو کر بوندوں سے ہم کنار ہونے میں ملتا ہے۔ میرے اس سفر کا ہمراہی ظاہر ہے ایک مہ پارہ ہو گی جو اپنی حسین، گھنی اور لمبی زلفوں سے بادلوں کے سائے کو اور گہرا کر دے گی اور بارش کی بوندیں بادلوں کی آغوش سے یوں گریں گی جیسے آخری سانسیں لیتا مریض ایک اور سانس کے لیے تڑپتا ہے۔

جب وہ کے ٹو کے دامن میں پراندہ کھولے، چنری لہراتے، ہچکولے لیتے روئی کے گالوں جیسے، گلاب کی سرخی کو مات دیتے لبوں سے میرا نام پکارے گی تو میں بے اختیار کے ٹو کے پہلو میں گری برف کا ایک گولا بنا کر اس کے رخ روشن پر نشانہ لے کر پھینکوں گا اور وہ ریں ریں کرتی ہوئی اپنی گستاخ زلفوں کو سنبھال کر اک نظر کرم عنایت کرے گی۔

یہ سفر یونہی جاری ہو گا جب وہ اچانک سے بے موقع اور نا قابل قبول فرمائش کا ٹوکرا سر سے اتارے گی اور تب میں وہ کروں گا جس کی خبر اسے تب ہو گی جب خواہشوں کا وہ ٹوکرا کے ٹو کی چٹان سے ٹوٹے ہوئے من بھر وزنی پتھروں سے اس کے سر پر دوبارہ رکھا جائے گا اور اس کی صراحی جیسی گردن اکڑ جائے گی۔ تب وہ اپنی اکڑی گردن کا مساج کرانے کے لیے اماں اماں پکارتے ہوئے مجھ سے درخواست کرے گی اور میں گردن کی اکڑ کو کے ٹو کی بکھری برف سے رگڑ رگڑ کر ڈھیلا کرنے کی ناکام کوشش کروں گا۔

اس سفر میں ہم دونوں کی وہ تمام ناتمام اور دبی حسرتیں چھلکیں گی جن کا تصور ہی عام زندگی میں محال تھا۔ ایسے تصورات جن کا اطلاق عام زندگی میں کرنے کا سوچنا بھی عبث تھا۔ یوں محسوس ہو گا جیسے دو ننھے منے سے بچے اپنے بچپنے کی سرحد پر کھڑے جوانی کی باڑ سے بچنے کی ناممکن کوشش کر رہے ہیں مگر ہر کوشش بے سود جا رہی ہے۔ دور کھڑا پٹھان جو پانچ فٹ کی ایک ریڑھی پر آلو کی گرما گرم چپس اور ساتھ ہی چائے کا بھرا ہوا کپ پیش کرنے آتا ہے مگر ہمیں بچہ سمجھ کر دور ٹھہرے قلفی اور آئس کریم والے سے اپنی پسند کے دو، کوکونٹ اور چاکلیٹ سے سجے آئس کریم کپ پکڑا جاتا ہے اور ہم دونوں بچوں کی طرح لڑ جھگڑ کر اس نادر تحفے کا لطف لیتے ہیں۔

یہ سفر ہمیں ان تمام رعنائیوں سے روبرو کراتا ہے جن کے خیالوں میں ہم اپنی حقیقی زندگی میں رنگ بھرتے رہتے ہیں۔ اپنے خوابوں کی ایسی تعبیر ملتے دیکھ کر ہم دونوں کے سرد ہواؤں کے جھکڑ سے سرخ ہوئے گال کھلکھلاتے ہوئے اور بھی سرخ ہو جاتے ہیں اور اس مقام پر ہمیں زندگی کے اصل مفہوم سے آشنائی ہوتی ہے۔ اگرچہ ہم ایک ہی بینچ پر ایک دوسرے کے دامن میں خود کو چھپائے بیٹھے ہوں گے مگر ہمارے لب ٹھٹھرتی سردی میں خاموش ہو جائیں گے اور خیالوں ہی خیالوں میں ہم وہ باتیں کریں گے جو سچ کی دنیا میں تنہائی میں بیٹھ کر سوچا کرتے تھے مگر ایک دوسرے کو کہنے سے شرماتے تھے۔

خیالوں کے تار جڑتے ہی ہم دونوں کی جذبات سے دہکتی آنکھیں کھلکھلا کر ایک دوسرے کو دیکھنے کی جستجو کریں گی تب ہمارے ناپختہ اذہان ان کا ساتھ دینے سے انکاری ہونے لگیں گے اور پھر کے ٹو کی چوٹی سے برف کا ایک تودہ اپنے ساتھ گرد و نواح کی برف لپیٹتا بصورت طوفان ہم دونوں کو بھی ساتھ لپیٹ کر دور کہیں کوہساروں کے دامن میں لڑھکتے ہوئے مٹی کر دے گا اور یہی وہ مقام آشنائی ہو گا جس کے تصور میں ہم دونوں اک عمر کاٹ چکے ہوں گے۔

برف کے گولے میں قید، لڑھکتے ہوئے ہم دونوں کی نگاہیں جب روبرو ہوں گی تب ایک قیامت برپا ہو گی جس میں ہم دونوں ہی حساب کے عمل سے گزریں گے اور خود ہی اپنی سزا منتخب کریں گے اور ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھی جائے گی۔ یہ وہ دنیا ہو گی جس کے ستون ہم نے خیالوں میں کھڑے کیے تھے اور اس کا آغاز ہم دونوں اپنی روح کے وصال سے کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments