ایک سو تیس نمبری ریاست


ایک ایسا ملک جسے گنتی میں عدد ’واحد‘ سے لازوال محبت ہو اور جہاں محب الوطن ’نمبر ون اور ون پیج‘ کی تسبیح سوتے جاگتے الاپتے نہ تھکتے ہوں وہاں قانون کی حکمرانی کے حوالے سے ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی طرف سے 139 ممالک کی فہرست میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو 130 نمبر پر رکھنا یہود و ہنود کی عالمی اور گہری سازش نہیں ہے تو کیا ہے؟ حالانکہ روایتی پاکستانی انداز سے دیکھا سوچا جائے تو مملکت اللہ دتہ نے قانون کی بالادستی میں 139 میں 130 واں نمبر حاصل کر کے اور اسی رپورٹ کے مطابق سیکورٹی اور امن وامان کے حوالے سے 137 نمبر حاصل کر کے ساری دنیا کو اپنے خالص اسلامی ایٹمی پیروں تلے روند ڈالا ہے۔

اگر دنیا میں رینکنگ کا معیار اسلامی قرار داد مقاصد، جہادی تنظیموں، اسلامو فوبیا کے خلاف آواز اٹھانے، ریاست مدینہ اور دین کو تخت پر لانے جیسے سیاسی نعروں، گستاخی مذہب کا سہارا لے کر لوگوں کو زندہ جلانے، قبر میں پوچھے جانے والوں سوالوں، ختم نبوت والے فارموں اور حوروں کی پیمائش سے ناپی جاتی تو ہم یقینی طور پر پہلے نمبر پر کھڑے ہوتے۔ ”سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے“ ۔

خیر قانون کی عملداری میں 130 نمبر پر ہونے والی پاکستانی یک رخی اور یک طرفہ سوچ کا خمیازہ صرف پاکستانی عدالتوں کو خواہ مخواہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ حالانکہ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے نزدیک قانون کی حکمرانی ایک بہت وسیع اصطلاح ہے جو کہ صرف عدالتوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس میں مقننہ، انتظامیہ، سیاست، معیشت اور سیکورٹی وغیرہ تک کے تمام شعبے شامل ہیں۔

قانون کی حکمرانی کی تعریف اور پیمائش کرنا ایک مشکل کام ہے۔ انڈیکس سال 2021 میں عام لوگوں کے تجربات ہی قانون کی بالادستی کا اصل معیار قرار پائے ہیں۔ اور اس معیار کو اس طرح جانچا گیا ہے کہ قانون کی حکمرانی سے معاشروں میں حاصل ہونے والے نتائج کا جائزہ لیا جائے۔

آئیے ان چند سوالات پر نظر ڈالتے ہیں جن کے جوابات کی روشنی میں دنیا کے ممالک کی درجہ بندی کر کے ہمیں 130 نمبر پر دے مارا ہے۔

کیا اقتدار کی منتقلی آئین اور قانون کے تابع ہے؟
کیا عدلیہ اور عدالتی احکام حکومت کے غلط اثر و رسوخ سے آزاد ہیں؟

کیا ججز اور عدالتی اہلکار فرائض کی انجام دہی یا کارروائیوں کو تیز کرنے کے لیے رشوت طلب کرنے اور قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں؟

کیا سرکاری افسران (انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ اور پولیس وغیرہ ) کو بدانتظامی کی سزا دی جاتی ہے؟

کیا میڈیا، سول سوسائٹی کی تنظیمیں، سیاسی جماعتیں، اور افراد انتقامی کارروائی کے خوف کے بغیر حکومتی پالیسیوں پر رپورٹ کرنے اور تبصرہ کرنے کے لیے آزاد ہیں؟

کیا پولیس اور فوج میں سرکاری اہلکار عوامی دفتر کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں؟

آیا قانونی حقوق سے متعلق بنیادی قوانین اور معلومات عوامی طور پر، سادہ اور ملکی زبانوں میں قابل رسائی ہیں؟

کیا انتظامی ضوابط، قانون سازی کے مسودے، اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو عوام کے لیے بروقت رسائی کے قابل بنایا جاتا ہے؟

کیا سرکاری اہلکار سرکاری دفتر کو ذاتی فائدے اور عوامی خدمات کی فراہمی اور ضوابط کے نفاذ میں رشوت خوری کے لئے استعمال کرتے ہیں؟

کیا سرکاری خریداری اور عوامی کام کے ٹھیکے کھلے اور بولی کے عمل کے ذریعے دیے جاتے ہیں؟

کیا شہری سرکاری افسران کی کارکردگی کے بارے میں حکومت تک مخصوص شکایات لانے کے قابل ہیں اور سرکاری اہلکار ایسی شکایات کا کیا جواب دیتے ہیں؟

کیا افراد امتیازی سلوک (سماجی و اقتصادی حیثیت، جنس، نسل، مذہب، قومی اصل، جنسی رجحان، یا صنفی شناخت) سے پاک ہیں؟

آیا پولیس مجرمانہ مشتبہ افراد کو گرفتاری اور تفتیش کے دوران جسمانی نقصان پہنچاتی ہے؟

اور آیا سیاسی مخالفین یا میڈیا کے ارکان کو غیر معقول تلاشی، گرفتاری، حراست، قید، دھمکیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟

آیا مجرمانہ مشتبہ افراد کے بنیادی حقوق کا احترام کیا جاتا ہے اور کیا وہ اپنے خلاف استعمال ہونے والے شواہد تک رسائی اور چیلنج کرنے کے قابل ہیں؟

آیا قیدیوں کو جرم ثابت ہونے کے بعد ان کے بنیادی حقوق کا احترام کیا جاتا ہے؟
کیا مذہبی اقلیتیں آزادانہ اور عوامی طور پر عبادت اور مذہبی رسومات انجام دے سکتی ہیں؟

کیا بنیادی مزدور حقوق کے موثر نفاذ کے اقدامات، روزگار کے حوالے سے امتیازی سلوک کی عدم موجودگی اور جبری مشقت اور چائلڈ لیبر سے آزادی حاصل ہے؟

آیا حکومتی ضوابط، جیسے لیبر، ماحولیاتی، صحت عامہ، تجارتی، اور صارفین کے تحفظ کے ضوابط کو موثر طریقے سے نافذ کیا جاتا ہے؟

آیا عوامی خدمات، جیسے لائسنس کا اجراء اور صحت عامہ کی خدمات کا انتظام، رشوت کے بغیر فراہم کیا جاتی ہیں؟

آیا حکومت لوگوں کی نجی املاک کے غیر قانونی قبضے سے باز رہتی ہے، اور جب جائیداد قانونی طور پر ضبط کی جاتی ہے تو مناسب معاوضہ دیتی ہے؟

اور کیا سول انصاف کا نظام حکومتی و سیاسی اثر و رسوخ، رشوت ستانی اور نجی مفادات کے غلط اثر و رسوخ سے پاک ہے؟ اور کیا فیصلے بغیر کسی تاخیر کے بروقت پیش کیے جاتے ہیں؟ آیا متبادل تنازعات کا کا طریقہ کار موجود ہے؟

آیا فوجداری ججز، پولیس، تفتیش کاروں، اور پراسیکیوٹرز کے پاس مناسب وسائل ہیں، کیا وہ بدعنوانی سے پاک ہیں اور اپنی ذمہ داریاں قابلیت سے انجام دے رہے ہیں؟

کیا پولیس اور جج غیرجانبدار ہیں اور کیا وہ عملی طور پر سماجی و اقتصادی حیثیت، نسل، مذہب، جنسی رجحان یا صنفی شناخت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرتے ہیں؟

ایک ایک سوال کا جائزہ لیتے جائیے اور دیکھئے کہ ہمارے کرم فرما اعلیٰ خاکی دماغوں نے ہمیں بطور ریاست کہاں لا کھڑا کیا ہے۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے۔ اور اس سے بڑھ کر تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں ان سوالات کو سرے سے بنیادی مسائل ہی تسلیم نہیں کیا جاتا تو بہتری کی امید کہاں رکھی جا سکتی ہے۔

سچ یہی ہے کہ یہ قانون کی موثر حکمرانی ہی ہے جو بدعنوانی کو کم کرتی ہے، غربت اور بیماری سے لڑتی ہے، اور لوگوں کو بڑی اور چھوٹی نا انصافیوں سے بچاتی ہے۔ یہی انصاف، مواقع اور امن پر قائم سماج کی بنیاد ہے۔ قانون کا ایسا نظام جو بین الاقوامی قانون کے تحت بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرنے میں ناکام رہتا ہو وہ ”قانون کی حکمرانی“ کہلانے کا مستحق ہو ہی نہیں سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).