قسط نمبر 2 سر راہ چلتے چلتے: میں اور وہ


وہ: میں تھک چکی ہوں اب!

چہرے کو ہاتھوں سے ڈھانپ کر اپنے آنسوؤں کو بس میں بیٹھے مسافروں سے چھپا رہی تھی۔ جس پل اس نے یہ جملہ فون پر موجود دوسری جانب شخص کو کہا سننے میں بہت عاجزہ معلوم ہو رہی تھی۔ اتنی کراہیت تھی اس کے لہجے میں جیسے وہ خود سے گھن کھا رہی ہو۔

بس میں بیٹھے لوگ اسی کی جانب دیکھ رہے تھے۔ ہمارے ہاں یہ معمول کی بات ہے بس میں بیٹھ کے دنیا جہاں کی باتیں کرنا اکثریت کی عادت ہوتی ہے وہ فون پہ یا آپس میں زور زور سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں تاکہ سفر کٹ جائے۔ مگر اس عادت کے باعث وہ ایسی کہانیاں لوگوں کی سماعتوں کے حوالے کر دیتے ہیں کہ جو ہماری یاداشت یا تجربہ کا حصہ بن جاتی ہیں۔

نا جانے کیوں میرا دماغ اسی کی طرف جا رہا تھا وہ زار زار رو رہی تھی کبھی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تو کبھی سر جھکا رہی تھی۔ وہ اتنی بے بسی کے عالم میں تھی کہ کئی بار دل کیا اس سے پوچھوں کہ آخر اس شدت غم کی وجہ ہے کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ من پسند شخص کی آواز میں خدا نے اتنی شفاء رکھی ہے کہ اس کی آواز جو سکون اور تازگی بخشتی ہے ایسا سرور شاید ہی مہدی حسن کی غزلوں، لتا یا مکیش کے گیتوں میں ہو۔

وہ: مجھے اس سے ملنے کی عادت ہے وہ بلاتا ہے میں چلی جاتی ہوں مگر اب میں تھک چکی ہوں، میں رکنا چاہتی ہوں مگر خود کو روک نہیں پاتی۔ کیا نہیں کیا میں نے اس کے لئے جو مانگتا تھا دیتی تھی اس کے خرچے تک اٹھائے اب مجھے شدت گناہ کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس اس وقت بڑھ جاتا ہے جب میں اپنے شوہر کو ہمارے لئے محنت کرتے دیکھتی ہوں تو ندامت کا احساس ہوتا ہے اور جب اپنے بیٹے کو اسی کی طرح چیزوں کی ضد کرتے دیکھتی ہوں تو ڈوب مرنے کا جی چاہتا ہے۔ میں اب بے غش ہو کے ایک طرف ہونا چاہتی ہوں اب اس دلدل سے نکلنے کا دل کرتا ہے۔

وہ یہ ساری باتیں میرے اور اس کے درمیان بیٹھی خاتون کو بتا رہی تھی۔ نا چاہتے ہوئے بھی اس کی باتیں میری سماعت کی توجہ حاصل کر رہی تھیں۔ وہ اور میں زیادہ فاصلے پہ نہیں تھے اس کی یہ باتیں میرے ہوش اڑا لے گئیں۔ کیسے؟ کیوں؟ لوگ اپنے ساتھ محبت کے نام پہ اپنا استحصال کرلیتے ہیں۔ نکاح کے بعد ہماری زندگی میں کوئی اور نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ اس کی گنجائش نہیں۔ جہاں تک بات آئی محبت کے نام پہ اپنے جنسی استحصال کی تو وہ کسی اور سے کرنا دور کی بات اپنے شریک حیات سے بھی نہیں کرنا چاہیے چوں کہ تم ایک کامل وجود ہو صرف جسم نہیں۔

نمائش سے تھوڑا آگے بس چلتے ہی وہ یک دم کھڑی ہو گئی؛ روکو، بس کی تیز رفتاری، جھنکار مارتے گانوں میں اس کی آواز دب گئی۔

میں : روکو۔
دوران سفر وہ اور میں پہلی بار مخاطب ہوئے یہ لفظ روکو، بس اور اس، دونوں کے لئے تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments