سیلاب اور سیاست سے رشتہ؟


ہم نے سیلاب کو موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ قدرت کے کھاتے میں ڈال رکھا ہے کہ یہ سب کچھ جو بھی ہو رہا ہے قدرتی آفات ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر سال آنے والا سیلاب نہ صرف املاک کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ قیمتی انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ خوبصورت خوابوں کو بھی اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال مون سون کے مہینے میں ہمیں دل سوز خبریں سننے کو ملتی ہیں جنہیں سن کے روح تک کانپ جاتی ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال کے مون سون سے نے بھی ایک بار پھر ہمیں شکست دی اور ہمارے خوابوں کو اپنے سیلاب میں بہا لے جانے میں کامیاب ہوا اور ہم سسکیاں بھرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکے۔ نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق موجودہ سیلاب میں اب تک تین سو ( 300 ) سے زائد انسانی ہلاکتیں ہوئی ہیں اور یہ اعداد و شمار روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔

نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ایک وفاقی ادارہ ہے جس کا کام آفات سے نمٹنے کی تیاری، تخفیف، خطرے میں کمی، ریلیف، اور بحالی کے ساتھ مستقبل میں ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے بہتر فیصلہ سازی بھی کرنا شامل ہے۔ چونکہ یہ ایک وفاقی ادارہ ہے جس کا سربراہ سیاسی طور پر منتخب کردہ سیاسی نمائندہ ہوتا ہے۔ پاکستان آزاد کرنے سے اب تک پاکستانی سیاست اور سیاست دانوں کی سب سے بہترین خوبی یہ رہی ہے کہ کہ یہاں کے لوگوں کو سیاسی طور پر لاعلم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں اور یہ تعلیمات عام کر دی ہیں کہ سیاست کے علاوہ باقی تمام فضول موضوعات پہ بحث عام کی جائے جس کا سیاست اور جمہور سے کوئی تعلق نہ ہو۔

جس کی بدولت آج اس ملک کے ہر باشندے کا اجتماعی رویہ یہ رہا ہے کہ ایک دوسرے کی کردار کشی کرنا، گالم گلوچ کرنا، اور اجتماعی مفادات پہ خاک ڈال کے انفرادی مفادات کی بات کی جاتی ہے جس سے عدم برداشت، جہالت جیسی خوبیاں ہم پا لیتے ہیں جن کی نشو و نما یہاں کے سیاسی لٹیرے آئے روز اپنی تقاریر میں کرتے رہتے ہیں۔

چونکہ ہمیں سیاسی طور پر لاعلم رکھا جاتا ہے اور ہمیں بھی جاہل رہنا ہی پسند ہے اسی لیے سیاست کی گرائمر سے کوسوں دور رہتے ہیں اسی جہالت میں ہم ایسے الفاظ استعمال کر لیتے ہیں جن کا ہمیں لفظی معنی تک معلوم نہیں ہوتا۔ پاکستانی ٹیلی ویژن پہ ہم ہر روز اس کا تماشا دیکھتے ہیں کہ ایک عوامی نمائندہ جسے ہم منتخب کرتے ہیں وہ کسی اور کو سیاسی چور کہتا ہے تو ہم بھی اسے انہیں القابات سے نوازتے ہیں اور زور و شور سے اپنی جہالت کا اعلان کرتے ہیں۔

اس جہالت کو نمایاں طور پر دکھانے کے پاکستانی میڈیا سرگرم عمل اس طرح ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو کوریج دینے کی بجائے ان نوسربازوں کی اہمیت دے رہی جو سیاسی بددیانتی اور چور بازاری کی وجہ سے مشہور ہیں۔ جیسا کہ اوپر کہا جا چکا ہے کہ کسی بھی ملک کو چلانے کے لیے فیصلہ سازی کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ اس ملک کے جمہور کے حق میں ہوں اور ایسے فیصلے جو انہیں آفات سے نمٹنے کی ہمت دے نہ بچی کچی ہمت بھی چھین لے۔

سیاست دان کا سب سے اہم کام اپنے آئیں و دستور کی روشنی میں جمہور کے اجتماعی مفادات کے بارے میں فیصلہ سازی کرنا بھی ہے جو مستقبل کے لیے راہیں ہموار اور آسانیاں پیدا کرے تاکہ ملکی مفاد کو تحفظ حاصل ہو نسلیں پروان چڑھ سکیں مگر بدقسمتی ہے پاکستانی سیاست کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں پر فیصلے کرنے والے سیاسی نہیں ہوتے اور سیاسی لوگ فیصلہ نہیں کر سکتے جس کی بدولت پاکستان دوہری تلوار تلے دبی ہوئی ہے جس کا انجام کسی بھی طرح اس کے حق میں۔

چونکہ سیاسی لوگ فیصلے نہیں کر سکتے اسی لیے سب سے بہترین کام جو ان کے سپرد کیا گیا ہے وہ ہے دوسروں کے زخموں پہ نمک چھڑکنا۔ جیسے جب بھی کوئی سیلاب آتا ہے تو جمہور سے منتخب نمائندہ کشتی بنا کے شہر کی سیر کو نکل جاتا ہے تو کوئی لمبے جوتے پہن کر پانی میں لڑنے آ جاتا ہے اور جب اس پہ اکتفا نہیں ہوتا تو متاثرہ لوگوں کے پاس جا کے چند ہزار روپوں کا اعلان کرتے ہوئے یہ تک کہہ جاتے ہیں کہ ہم آ گئے ہیں اب سب بہتر ہو گا!

سیاسی لٹیروں کا یہ مشغلہ کبھی ختم نہیں ہوتا اور وہ ہر آفت کے آتے ہیں زخموں پہ نمک چھڑکنے آ جاتے ہیں۔ موجودہ تمام صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے کزابیسیگئے کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں جس میں انہوں نے ایک عام چور اور سیاسی چور کے فرق کو یوں بیان کیا ہے کہ ایک عام چور اپ کی مال اور زر کو چراتا ہے جبکہ ایک سیاسی چور آپ کی تعلیم، صحت، مستقبل اور خوابوں کو چراتا ہے لہذا سالانہ بڑھتی ہوئی آفات کے معلوم نتائج کو جانتے ہوئے بھی منظم منصوبہ بندی نہ کرنا اور ہمارے خوابوں اور مستقبل کو سپرد خاک کرنا ان سیاسی لٹیروں کا کام ہے نہ کہ قدرتی آفات کا۔ اب یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ ان سیاسی لٹیروں سے اپنے خوابوں اور مستقبل کا حساب مانگتے ہیں یہ پھر اس سیلاب کو بھی قدرتی سمجھ کر آنے والے سیلاب کا انتظار کرتے رہنا ہے، فیصلہ آپ کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments