(3) سید فخرالدین بلے اور شہزاد احمد کی نصف صدی پر محیط داستانِ رفاقت


( 3 ) سید فخرالدین بلے اور شہزاد احمد کی نصف صدی پر محیط داستان رفاقت
(ولادت:۔ 16۔ اپریل 1932۔ امرتسر) (وفات: یکم۔ اگست 2012۔ لاہور)
شہزاد احمد کے 10 ویں یوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر
داستان گو : ظفر معین بلے جعفری

شہزاد احمد نے جہاں بحیثیت شاعر اور محقق اور تنقید نگار کے حوالے سے اپنی صلاحیتوں کو تسلیم کروایا وہیں نفسیات اور فلسفہ کے موضوعات پر انتہائی اہم مضامین سپرد قلم کیے اور متعدد اہم ترین سائنسی موضوعات پر معروف کتب کے تراجم بھی ان کے نام کے ساتھ یادگار ہو چکے ہیں۔ اسلام اور فلسفہ ان کا محبوب موضوع ہے اور اس سلسلے میں ان کی تصانیف اور تراجم پاکستانی ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ شہزاد احمد صاحب نے سید فخرالدین بلے کی تحقیقی تصنیف۔

اسلام اور فنون لطیفہ ایک شاہکار تحقیقی تصنیف قرار دیا تھا اس حوالے سے شہزاد احمد کا مفصل تجزیاتی مضمون بے حد پسند کیا گیا۔ یہاں یقیناً اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہو گا کہ شہزاد احمد کو انجمن ترقی ادب کا بہترین مضمون نویسی کا ایوارڈ 1958 ء، نقوش ایوارڈ 1989 ء اور مسعود کھدر پوش ایوارڈ 1997 ء بھی مل چکا ہے۔ فنون، اوراق، سیپ، ادب لطیف، آواز جرس، بیاض جیسے معیاری ادبی جرائد اور رسائل میں شہزاد احمد صاحب مستقل بنیادوں پر شائع ہوا کرتے تھے۔

سید فخرالدین بلے کی زیر ادارت شائع ہونے والے آواز جرس لاہور میں شہزاد احمد صاحب کی تخلیقات کو اہتمام سے شائع کیا جاتا تھا اور سید فخرالدین بلے صاحب نے آواز جرس میں شہزاد احمد کا خصوصی گوشہ بھی شائع فرمایا تھا۔ خالد احمد صاحب اردو غزل اور نظم، تنقید، تحقیق، صحافت، خطابت، ڈرامہ نگاری، اسکرپٹ رائٹنگ اور نعت گوئی کی دنیا میں ممتاز اور قابل رشک مقام پر فائز رہے اور ہیں۔ انہوں نے اب سے تیس برس قبل شاندار اور جاندار ادبی رسالہ ماہنامہ بیاض لاہور کتابی سائز میں شائع کرنا شروع کیا تو باوجود اس کے کہ اس وقت فنون، اوراق، محفل، اقدار، طلوع افکار، آواز جرس، ادب لطیف، نیرنگ خیال، سیپ اور افکار جیسے معیاری ادبی رسائل اور جرائد پہلے ہی سے دلدادگان شعر و ادب کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے ماہنامہ بیاض لاہور نے اپنا ایک مقام بنایا اور مواد، کاغذ، طباعت اور تزئین اور کتابت و کمپوزنگ کے اعلی ترین معیار کو مسلسل تیس برس سے بلا کسی تعطل کے جاری رکھا ہوا ہے۔

قبلہ محترم خالد احمد کی زندگی میں بھی اور اس جہان فانی سے کوچ کر جانے کے بعد بھی۔ قبلہ خالد احمد صاحب نے اپنی رحلت سے چار برس قبل اپریل دو ہزار نو میں جناب شہزاد احمد کے ستتر ویں یوم ولادت کی مناسبت سے ماہنامہ بیاض کا شہزاد احمد نمبر شائع فرمایا تھا جو کہ بے شک ایک مکمل تاریخی دستاویز ہے۔ ماہنامہ بیاض کی پوری ٹیم نے ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ تیس سالوں میں بیاض کبھی بھی ایک روز بھی تاخیر سے شائع نہیں ہوا اور نہ ہی اس کی ترسیل میں کبھی کوئی بھی رکاوٹ آئی۔

سلام ہے برادر محترم سرکار عمران منظور صاحب، جناب نعمان منظور صاحب اور ان کے جملہ معاونین بشمول قابل صد احترام قبلہ اعجاز رضوی صاحب اور عزیزم ہیثم عمران اور اب تو خیر سے جناب نوید صادق، جناب جہاد احمد اور کنور امتیاز احمد جیسے مخلص اور ادب شناس اور تخلیق کار بھی بیاض کی مجلس ادارت میں شامل ہیں۔ سرکار عمران منظور صاحب نے حضرت خالد احمد کی تمام تر روایات اور اعلی اقدار کو تسلسل کے ساتھ جاری اور زندہ رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے متعدد اصناف اور شخصیات کے حوالے سے بیاض کی بہت سی اشاعت خاص منظر عام پر لاکر وابستگان علم و ادب کو حیران کر دیا۔

سید فخر قلدین بلے شاہ صاحب کی قائم کردہ ادبی تنظیم قافلہ کی تقریبات اور نشستوں کو پڑاؤ کا نام دیا جاتا تھا۔ ہر ماہ کی یکم تاریخ بوقت پانچ بجے شام۔ غیر ملکی اور دیگر شہروں سے آئے ہوئے مہمانوں کے اعزاز میں خصوصی پڑاؤ ڈالے جاتے تھے۔ شہزاد احمد، ڈاکٹر اجمل نیازی، ڈاکٹر اصغر ندیم سید، سرفراز سید، ڈاکٹر انور سدید، بیدار سرمدی، ظفر علی راجا، تسلیم احمد تصور، اشفاق نقوی، صدیقہ بیگم، سیما پیروز، قائم نقوی پیروز بخت قاضی، ابصار عبدالعلی، اسلم کولسری، اسلم کمال، کلیم عثمانی، اسرار زیدی، طفیل ہوشیار پوری، ڈاکٹر حسن رضوی، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر آغا سہیل، نورین طلعت عروبہ، سائرہ ہاشمی، بشری رحمن، مرتضی برلاس، علامہ شبیر بخاری علیگ، منور سعید (اداکار) اور دیگر بہت سے تخلیق کاروں کا شمار مستقل شرکاء قافلہ پڑاؤ میں ہوتا تھا۔

شہزاد احمد ہمیشہ بروقت بلکہ قبل از وقت پہنچ جایا کرتے تھے اور آتے ہی آوراز جرس کا تازہ شمارہ اٹھا کر اس کا مطالعہ شروع کر دیا کرتے تھے۔ تازہ شمارے میں گزشتہ ماہ کی یکم اور خصوصی قافلہ پڑاؤ کی مفصل روداد اور اس میں پیش کی جانے والی متعدد بلکہ اکثر تخلیقات شائع ہوا کرتی تھیں۔ بعد ازاں ان کی والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سے کسی بھی موضوع پر گفتگو کا آغاز ہو جایا کرتا اور اس دوران مہمانان گرامی کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا۔

شہزاد احمد صاحب یکم تاریخ کو صرف اور صرف قافلہ پڑاؤ میں شرکت فرمایا کرتے تھے اگر کسی اور تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ بھی آتا تو ان سے معذرت کر لیا کرتے تھے۔ حضرت کنور جی مہندر سنگھ بیدی، جگن ناتھ آزاد، مجروح جی سلطان پوری، راجندر ملہوترا، ڈاکٹر گولی چند نارنگ، اختر الایمان، ڈاکٹر سید حامد، ڈاکٹر فوق کریمی ڈاکٹر عطیہ خلیل عرب، خمار جی بارہ بنکوی، ڈاکٹر ایس حسن ارمان نجمی، جوگندر پال، کرشنا دیوی اور دیگر غیرملکی ادبی شخصیات کے اعزاز میں منعقدہ قافلہ پڑاؤ میں شامل اور شریک ہوتے یا مشفق خواجہ صاحب، شبنم رومانی صاحب، پروفیسر اقبال عظیم اور علامہ قبلہ طالب جوہری صاحب اور دیگر دیگر شہروں سے آئی ہوئی ممتاز شخصیات کے اعزاز میں منعقدہ قافلے کے جتنے بھی پڑاؤ ڈالے گئے ان میں سے اکثر میں شہزاد احمد صاحب نے اپنی تمام تر مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر اپنی شرکت کو یقینی بنایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments