پاکستان تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس


وزیر اعظم سمیت ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں نے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف کمر کس لی ہے۔ مبینہ طور پر سیاسی پارٹی کے سیاسی پارٹیوں کے لیے ممنوعہ اور غیر قانونی ذرائع سے حاصل کردہ فنڈنگ کا کیس زبان زد عام ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعلیٰ حکام کے مطابق پارٹی پر غیر قانونی ذرائع سے حاصل کردہ رقوم کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ اس حوالے سے تحقیقات میں بین الاقوامی شخصیات کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔

ان تحقیقات کے حوالے سے ہونے والے انکشافات میں کافی پیچیدگیاں شامل ہیں۔ اچانک ایک امریکی نژاد پاکستانی بزنسس مین کی اہلیہ بطور ڈونر سامنے آئیں ہیں جن کے پیشہ ورانہ تعلقات مشہور امریکی کمپنیوں کے ساتھ بتائے جا رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف پر فارن فنڈنگ ثابت ہو جانے کا مطلب ہے کہ عمران خان کی سیاسی جماعت نے ملک میں سیاسی مہم جوئی کے لیے غیر قانونی ذرائع سے رقوم حاصل کی ہیں۔ اگر پاکستان تحریک انصاف کی میڈیا کوریج کا جائزہ لیا جائے تو اے آر وائی نیوز اور اے آر وائی گروپ نے بہت کھلے اور دبنگ انداز میں پاکستان تحریک انصاف کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

اس جماعت سے منسلک سیاسی نمائندوں کو اپنی جماعت کے بیانیے کی مکمل وضاحت کرنے کے مواقع فراہم کیے گئے ہیں۔ اور نمائندہ اکثریت کے لحاظ سے ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کو استحکام فراہم کرنے میں اس چینل کا مرکزی کردار ہے۔ اس چینل کو درجہ اول میں شمار کیے جانے والے چینلز کے درمیان اس کے کانٹینٹ کی پسندیدگی کی وجہ سے خصوصی مقبولیت حاصل ہے۔ مزید یہ کہ اس سیاسی جماعت کے نظریہ کی طرف دلچسپی اور جھکاؤ کا مطلب یہ ہے کہ درجہ دوئم اور سوئم کے چینلز کو بالواسطہ اثر انداز کرنا۔

اس کیس میں کتنی صداقت ہے اور سیاسی جماعت کس حد تک تفصیلات اور ان الزامات کی تردید میں کتنے شواہد فراہم کر سکتی ہے یہ ایک بہت توجہ طلب بات ہے۔ اسمبلیوں میں اکھاڑ پچھاڑ کے ہوتے ہوئے ایک نئے موضوع پر اتنی تفصیل طلب توجہ تحریک انصاف کے لیڈران کے لئے بہت کٹھن مرحلہ ہے۔ مگر یہ نا ممکن نہیں ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کے الیکشن کمیشن کی جانب سے آنے والے فیصلے کے بعد معاملہ ملک کی اعلیٰ عدالت میں جاتا دکھائی دیتا ہے۔

جہاں اس پارٹی کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ بشمول اس کے لیڈران کے کیے جانا متوقع ہے۔ بین الاقوامی اداروں کے مطابق پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈران کو بین الاقوامی فنڈنگ سے ملکی سالمیت کے بچاؤ کے لیے محروم رکھتے ہیں۔ مختلف ذرائع نے فنڈنگ کے حوالے سے ڈونرز کی ایک طویل فہرست جاری کی ہے۔ جس کے مشاہدے سے ایسا لگتا ہے کہ یہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک خطرناک چیلنج سے کم نہیں ہے۔

میڈیا مالکان اور پاکستان تحریک انصاف کے دیگر کارپوریٹ ڈونرز عمران خان اور ان کی جماعت کے حامی انھیں مکمل تحفظ فراہم کریں گے۔ سیاسی طور پر بھی عمران خان ایک ایسی شخصیت ہیں جو عوام میں مقبول ہیں اور عوام متعلقہ جذبات کو مخاطب کرنے میں سب سے زیادہ کامیاب ہیں۔ وہ مذہبی جنونی بھی نہیں ہیں، مغربی ثقافت سے آشنا بھی ہیں اور دنیا کے بیشتر ممالک کی ثقافتوں کا مشاہدہ اپنے کرکٹ کیریئر کی بدولت کر چکے ہیں۔ وہ بطور لیڈر ایک اعتدال پسند معاشرے کی بہترین نمائندگی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

وہ پاکستان کو نظریاتی بحران سے نکالنے میں بہت حد تک کامیاب ہو چکے ہیں۔ عوام ان کے پیش کردہ نظریہ کی حمایت میں دل و جان سے ان کے ساتھ وابستہ معلوم ہوتی ہے۔ عوامی سطح پر تبدیلی، کاروباری زندگی، معیشت، بیروزگاری، فرقہ واریت، اور دیگر ریاستی ذمہ داریوں میں عوامی لائحہ عمل دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ زیادہ تر معرکہ آرائی سیاسی ہے۔ جس سے عوام میں، دیگر سیاسی جماعتوں کی مخالفت کا جنون دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔

مگر عام آدمی کی زندگی میں پاکستان تحریک انصاف وہ اقدار شامل کرنے سے اب تک قاصر ہے۔ کہیں نہ کہیں عمرانی عوامل کی درستگی درکار ہے۔ فرسودہ روایات سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی اتحاد، اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ مذہبی اقدار کو استحکام فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی اور دنیاوی مطابقت سے معاشرے کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ سیاسی اطمینان حاصل ہو سکتا ہے۔ شاید یہ بہت طویل عمل ہے۔ اور اتنی محنت اور اتنا وقت سہنے، سوچنے اور جد و جہد کرنے کا حوصلہ مجموعی طور پر قائم رکھنا بہت مشکل ہے۔ ایسے سیاسی الزامات کے بعد تو یہ نا ممکن کا حصول لگتا ہے۔ کیوں کہ عوامی سطح پر انفرادی فائدہ اور بہتری ہی ایک ایسا معیار ہے جس پر کسی بھی سیاسی جماعت اور سیاسی لیڈر کی کارکردگی کو ماپا جا رہا ہے۔

اور بات جب طویل جد و جہد کی آتی ہے تو آنے والی نسلوں کی فکر میں جد و جہد جاری رکھنے کا جذبہ ماند پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ ظاہر ہے اگر ایک انسان اپنی زندگی میں اپنے معاشی مسائل حل نہیں کر سکتا، اپنے خاندان کو بہتر اور خوش حال مستقبل فراہم نہیں کر سکتا تو اس کے مرنے کے بعد چاہے اس کا نام سیاسی جماعت کی کتاب میں سنہری حروف میں لکھیں اسے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ اپنے لیے مناسب سے رہائش گاہ بنانے کے لیے بھی آپ کو کم سے کم مفکر پاکستان کا نواسہ ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کوئی صورت نہیں. پاکستان کی سیاست سیاسی کارکنان اور عوامی نمائندگان کے فائدے سے بہت دور کی بات ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments