سعد رضوی سے ملاقات


“مجھے بابا جی نے کہا تھا پتر زندگی میں کبھی فوجیوں پر اعتبار نہ کرنا سیاستدانوں پر چاہے کرلینا۔ میں نے اپنے والد صاحب کی وہی بات پلے باندھ لی ہے۔ الحمدللہ میں آج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ فوج کی سیاست میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر فوج کے سہارے اور کسی ڈیل کے تحت اسمبلی میں جانا ہے تو اس سے بہتر ہے میں اسمبلی سے باہر رہ کر ہی عوام کی خدمت کر لوں۔ اسمبلی سے باہر رہ کر ہم تو آج بھی عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ پورے بلوچستان میں ہماری جماعت واحد جماعت ہے جو بغیر کسی سپورٹ کے سیلاب سے متاثرہ اپنے بلوچ بھائیوں کی دن رات خدمت میں مصروف عمل ہے۔ “

گزشتہ روز تحریک لبیک کے سربراہ حافظ سعد رضوی سے ایک لمبی چوڑی نشست ہوئی۔ سعد رضوی سے میں نے تند و تیز سوالات پوچھے لیکن مزے کی بات ہے سعد رضوی نے ہر سوال کا بڑی تفصیل کے ساتھ جواب دیا وہ بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے۔ میں نے سوال پوچھا کہ آپ کی جماعت پر لیبل ہے کہ آپ کو اسٹیبلشمنٹ نے لانچ کیا ہے اور آپ ان کی مدد سے ہر دفع باہر نکلتے ہیں؟

سعد رضوی نے ٹھنڈا سانس لیا اور غور سے میری طرف دیکھا بولے کہ بھائی اگر ہمارے ساتھ فوج کی مدد ہوتی تو ہماری 44 کارکن شہید نہ ہوتے۔ ہم پر سیدھی گولیاں نہ چلائی جاتی، ہمارے کارکنوں پر شیلنگ نہ ہوتی، مجھ کو بلاوجہ جیل میں نہ ڈالا جاتا۔ ہمارے ہزاروں کارکن جیلوں میں نہ ڈالے جاتے۔ میں جب کورٹ لکھپت جیل میں قید تھا تو مجھ پر جیل میں بیٹھے ہی درجنوں مقدمات درج کر دیے گئے۔ ہر دو گھنٹے بعد سپرٹینڈنٹ آتا اور مجھے کہتا اس ایف آئی آر کی وصولی کے لئے اس پر دستخط کر دیں۔

میرا ایک ہی جواب ہوتا تھا تم لوگ چاہیے ہزاروں مقدمات درج کردو میں ایک پر بھی دستخط نہیں کرو گا۔ مجھے ایک پولیس افسر کہتا کہ تمہارا سوفٹ ویئر اپڈیٹ کر دیں گے میں نے کہا میں آپ لوگوں کی ہارڈ ڈسک اڑا دوں گا۔

آپ نے فرانس کے سفیر کے معاملے میں باقاعدہ لانگ مارچ کیا لیکن بھارتی حکومت کی ترجمان نوپور شرما کے بیان پر باہر کیوں نہیں نکلے؟

فرانس کے سفیر کو نکالنے کا ہمارا مطالبہ بالکل جائز تھا کیونکہ فرانس کے صدر نے سرکاری سطح پر رسول ﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی ہمارا پہلے مطالبہ تھا حکومت سرکاری سطح پر فرانس کو جواب دے لیکن اس وقت عمران خان نے کہا ہم فرانس کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کر سکتے ہماری معیشت فرانس کی مدد سے چل رہی ہے۔

اس حکومتی موقف کے بعد ہمیں دلی صدمہ ہوا۔ ہم پھر ناموس رسالت ﷺ کے لیے نکلے۔ فرانس کا سفیر اگر رضاکارانہ طور پر خود اپنے ملک واپس چلا گیا تھا لیکن ہمارے مطالبے پر عمران خان نے اس کو نہیں نکالا تھا۔ جہاں تک بات نور پور شرما کی ہے تو میرا سب سے پہلے اس گستاخی کے خلاف بیان آیا تھا۔ جس کو پاکستانی میڈیا نے تو نہیں چلایا لیکن بھارتی میڈیا نے ضرور چلایا۔ اس معاملے پر شہباز شریف کی حکومت نے سرکاری سطح پر باقاعدہ احتجاج کیا۔

میں نے پوچھا کہ آپ کی اور آپ کے کارکنوں کی رہائی، جماعت سے کالعدم کا لفظ ختم کرنا کیا یہ سب ایک معاہدے کے بعد ممکن ہوا۔ جو مفتی منیب الرحمن اور فاروقی صاحب نے جنرل باجوہ سے کیا۔ اس سوال پر سعد رضوی تھوڑے سے جذباتی ہو گئے۔ انہوں نے کہا مجھے آدھی رات کو پہلے ایک ہوٹل میں لے جایا گیا جب میں ایک کمرے میں پہنچا تو سامنے کرسی پر جنرل فیض حمید بیٹھے تھے کمرے میں دو اور فوجی افسر موجود تھے۔ مجھے فیض حمید نے کہا اپنے لوگوں کو واپس بلائیں اور دھرنا ختم کریں۔

مجھے غصہ آ گیا میں نے ان سے کہا ہمیں گولی مارنی ہے تو انڈین یا اسرائیلی گولی مارو پاکستانی گولی نہ مارو۔ ہمارے لوگوں کی لاشیں گرا رہے ہو اور مجھے واپس لاشیں اٹھا کر گھر جانے کا کہہ رہے ہو۔ یہ میری فیض حمید سے پہلی ملاقات تھی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ بات نہیں بن رہے تو مجھے اسلام آباد لے گئے۔ آپ کو معلوم ہے اس سے پہلے جیل میں بھی میرے پاس دو وفد آئے تھے ایک حامد رضا کی قیادت میں علماء کا وفد آیا اور دوسرا حکومتی وزراء کا وفد تھا۔

جب میں اسلام آباد گیا تو مجھے مفتی منیب الرحمن صاحب نے بھی کہا کہ بیٹا اب جو ہو گیا ختم کریں۔ میں نے ان کو بھی وہی جواب دیا کہ ہمارے لوگوں کو ہلی کاپٹر سے گولیاں مار کر شہید کیا جا رہا ہے ہم ایسے کیسے واپس چلے جائیں۔ پھر میری جنرل باجوہ سے ملاقات کرائی گئی۔ جنرل باجوہ نے کہا یہ جو پولیس والے شہید ہو رہے ہیں ان کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں۔ میں نے ان کو کہا وہ مارنے آئے تھے اور مر گئے۔ جنرل باجوہ نے کہا اب اس کو ختم کریں۔ آپ نے دوبارہ ایسے سڑکیں بلاک کر کے احتجاج نہیں کرنا۔ میں نے کہا اگر ناموس رسالت ﷺ پر حملہ ہوا تو ہم پھر باہر نکلیں گے۔ اگر ہمیں احتجاج سے روکنا ہے تو ایک معاہدہ باقی جماعتوں کے ساتھ بھی کر لیں کہ وہ بھی آئندہ کبھی احتجاج کے لئے باہر نہیں نکلیں گئیں۔ تھوڑی دیر بعد میں کمرے سے باہر نکل آیا اور مجھے واپس جیل بھیج دیا گیا۔ جہاں تک بات معاہدے کی ہے تو میرا فوج کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ ہم اپنے موقف پر آج بھی قائم ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔

وہ تھوڑی دیر رکے تو میں نے پھر ایک سوال داغ دیا کہ آپ کی جماعت 2018 کے الیکشن میں اور اس کے بعد جتنے ضمنی الیکشن ہوئے تیسرے نمبر پر رہی، کیا آئندہ جنرل الیکشن میں پھر تیسرے نمبر پر ہی رہنے کا ارادہ ہے یا کسی سیاسی جماعت سے اتحاد کریں گے؟

بولے اس وقت دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں ممتاز قادری کو پھانسی دی گئی اس لیے ہمارا ان سے اصولی اور نظریاتی اختلاف ہے جہاں تک بات تحریک انصاف کی ہے تو یہ ہماری قاتل ہے قاتلوں سے اتحاد نہیں ہوتے۔ میں جب جیل سے رہا ہوا میرے پاس تحریک انصاف کے اعجاز چوہدری آئے اور انہوں نے مبارکباد دی۔ مسلم لیگ نون کی طرف سے خواجہ سعد رفیق آئے انہوں نے ہمارے لوگوں کی شہادتوں پر افسوس بھی کیا۔ انہوں نے مجھ سے کوئی سیاسی بات نہیں کی ہاں لیکن میں نے سعد رفیق سے خود سیاسی گفتگو کی تھی۔

کیا مولانا فضل الرحمن سے اتحاد ہو سکتا ہے؟

سعد رضوی نے کہا اگر وہ اپنا موقف ایک واضح کر دیں تو ان کے ساتھ ہم بیٹھ سکتے ہیں بات چیت کر سکتے ہیں۔ ہاں ہمارے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments