ماہ محرم الحرام۔ شہادت امام حسین – یوم عاشور


محرم الحرام اسلام سے پہلے اور بعد میں بھی مقدس اور احترام والا مہینہ ہے۔ دنیا کی ابتداء بھی محرم الحرام میں ہوئی تھی اور دنیا کی اختتام قیامت بھی محرم الحرام ( 10 محرم الحرام) کو ہوگی۔ محرم الحرام کا ماہ مقدس بابرکت، اور حکمتوں والا ماہ ہے۔ محرم اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں جنگ و جدل کی منع کی گئی ہے۔ اسی حرمت کی وجہ سے اسے محرم کہتے ہیں۔ اس مہینے سے نئے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ اسی ماہ مبارک سے ہجری/قمری سال کی ابتدا ہوتی ہے اور یہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ یقیناً اللہ تعالی کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور یہ تعداد اسی دن سے ہے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا فرمایا تھا۔

ان میں سے چار حرمت و ادب والے مہینے ہیں یہی درست اور صحیح دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم و ستم نہ کرو، اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں، اور جان رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے } التوبۃ ( 36 ) حدیث شریف میں آتا ہے کہ رمضان المبارک کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعال کے مہینہ محرم الحرام کے روزے ہیں۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1982 ) سال کے بارہ میں مہینے ہیں جن میں سے چار حرمت والے ہیں، تین تو مسلسل ہیں، ذوالقعدہ، ذوالحجۃ، اور محرم، اور جمادی اور شعبان کے مابین رجب کا مہینہ جسے رجب مضر کہا جاتا ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر 2958 ) ۔

محرم الحرام کے دسویں دن یوم عاشور کو خاص فضیلت حاصل ہے۔ حضرت محمد ﷺ کے نواسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی یوم شہادت بھی یوم عاشور کو ہوئی تھی۔ یوم عاشورہ میں ہی آسمان و زمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیا گیا۔ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ 10 محرم کو اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔ اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہو کر کوہ جودی پر لنگر انداز ہوئی۔

اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ، خلیل اللہ ”بنایا گیا اور ان پر آگ گل گلزار ہوئی۔ اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ یوم عاشور کو حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی، 10 محرم کو اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔ اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و استبداد سے نجات حاصل ہوئی۔

اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔ یوم عاشور کے دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔ اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔ اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔ اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ختم ہوا۔ اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلا کر آسمان پر اٹھایا گیا۔

دنیا میں پہلی باران رحمت نازل ہوئی۔ 10 محرم الحرام کو قریش خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔ 10 محرم کو اسی دن حضور اکرم ﷺ نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ 10 محرم الحرام کو یوم عاشور کے دن کربلا کی ریزگار دھرتی پر امام حسین رضی اللہ عنہ کو ساتھیوں سمیت شہید کیا گیا۔ اور اسی دن قیامت قائم کردی جائے گی۔

شاہ است حسینؓ، پادشاہ است حسینؓ
دیں است حسینؓ، دیں پناہ است حسینؓ
سرداد، نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہٰ است حسینؓ

حضرت امام حسین رضہ نے یزید کی حکومت کو ماننے اور بیعت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ حضرت امام حسین عالی جناب کے نظر میں یزید نا اہل نالائق ظالم جابر تھا جس کی حکمرانی کو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہی ہو رہا تھا۔ رجب 60 ہ/ 680 ء میں یزید نے اسلامی اقدار اور دین کی روح کے منافی ظلم، جبر و استبداد پر مبنی اپنی حکومت کا اعلان کیا۔ بالجبر عام مسلمانوں کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا گیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یزید کی حکومت میں شمر، ابن زیاد جیسے منحوس چہرے موجود تھے۔

مدینۂ منورہ میں ایک مختصر حکم نامہ جاری ہوا، جس میں تحریر تھا، ”حسینؓ ’عبداللہ بن عمرؓ اور عبداللہ بن زبیرؓ کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا جائے۔ اس معاملے میں پوری سختی سے کام لیا جائے، یہاں تک کہ یہ لوگ بیعت کر لیں۔“ (ابن اثیر/ الکامل 3 / 263 ) ۔ یہاں بیعت کرنا آسان تو نہ تھی، سیدنا حسینؓ ابن علیؓ اپنے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ اور اپنے نانا سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ کی اتباع میں یزید کے ظلم و جبر پر مبنی باطل نظام کے خلاف جرات اظہار اور اعلان جہاد بلند کرتے ہوئے اسوۂ پیمبری پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔

مرشد امام حسین فرماتے ہیں امت مسلمہ کو حق و صداقت اور دین پر مر مٹنے کا درس دیتے ہیں۔ خلق خدا کو اپنے ظالمانہ قوانین کا نشانہ بنانے والی اور محرمات الٰہی کو توڑنے والی حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے ببانگ دہل فرماتے ہیں، ”لوگو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم‘ محرمات الٰہی کو حلال کرنے والے ’خدا کے عہد کو توڑنے والے‘ اللہ کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قولاً و عملاً اسے بدلنے کی کوشش نہ کی، تو اللہ کو حق ہے کہ اس شخص کو اس ظالم بادشاہ کی جگہ دوزخ میں داخل کردے ’آگاہ ہو جاؤ!

ان لوگوں نے شیطان کی حکومت قبول کرلی ہے، اور رحمن کی اطاعت چھوڑ دی ہے‘ ملک میں فساد پھیلایا ہے ’حدود اللہ کو معطل کر دیا ہے، یہ مال غنیمت سے اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ انہوں نے خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کر دیا ہے اور حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کر دیا ہے۔ اس لیے مجھے اس کے بدلنے کا حق ہے“ ۔ (ابن اثیر / الکامل فی التاریخ 4 / 40 ) ۔ امام حسین کو کوفے والوں نے ہزاروں خطوط لکھے کہ آپ کوفے آ جائیں ہم یزید کے مقابلے میں آپ کی بیعت کرنے کو تیار ہیں اگر آپ نہی آئے تو کل ہم قیامت کے دن آپ کے نانا کو شکایت کریں گے! امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے 72 جانثار ساتھیوں اور اہلبیت کے ساتھ کربلا کی طرف چل پڑے۔

جب ظلم ہو اس کا کس طرح مقابلہ کیا جائے، مصیبتوں پر کس طرح صبر کیا جائے، اللہ کے راستے میں باطل کو مٹانے کے لئے کس طرح میدان برپا کیا جائے؟ جب باطل سر اٹھا کے چلے کس طرح اس کا سر تن سے جدا کیا جائے؟ ظالم جابر حکمراں سے نجات کے لئے اللہ کی دھرتی پر اللہ کے نظام کے لئے جس طرح امام حسین نے کربلا میں نانا نبی صہ کے دین کو بچا کر ہمیں سبق دیا کہ تلوار گردن پر ہو میدان جنگ میں بھی اللہ کا فرض نماز نہی چھوڑنی چاہیے۔

جب سیدنا حسین ابن علیؓ اپنے جاں نثاروں کے ساتھ کربلا کی جانب روانہ ہوئے اور روکنے والوں نے آپ کو روکنا چاہا، تو آپ نے تمام باتوں کے جواب میں ایک بات فرمائی، ”میں نے (اپنے نانا) رسول اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے، آپ ﷺ نے تاکید کے ساتھ مجھے ایک دینی فریضہ انجام دینے کا حکم دیا ہے، اب بہرحال میں یہ فریضہ انجام دوں گا، خواہ مجھے نقصان ہو یا فائدہ۔ پوچھنے والے نے پوچھا کہ وہ خواب کیا ہے؟ آپؓ نے فرمایا، ابھی تک کسی کو نہیں بتایا، نہ بتاؤں گا، یہاں تک کہ اپنے پروردگار عزوجل سے جا ملوں“ (ابن جریر طبری 5 / 388، ابن کثیر/البدایہ والنہایہ 8 / 168 ) ۔

ابراہیمؑ کے خواب کی تعبیر دس ذی الحجہ کو پوری ہوئی اور سیدنا حسینؓ کا خواب دس محرم 61 کو تعبیر آشنا ہوا، دونوں خوابوں کی تعبیر قربانی تھی، دس ذی الحجہ کو منیٰ میں یہ خواب اپنے ظاہر میں رونما ہوا اور دس محرم کو سرزمین کربلا پر اپنی باطنی حقیقت کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔ وہ امام حسین رضہ ہی تھے جس نے باطل کے خلاف الم اٹھایا اور حق کا بول بالا کیا۔ اپنے ساتھیوں، معصوم بچوں تک کو شہید کرایا مگر کسی ظالم جابر کی بیعت کی نہ جھکے، یہ فلسفہ کربلا ہے یہی محرم الحرام کا استقبال ہے۔

10 محرم الحرام یوم عاشور کے دن 71 ساتھی پہلے ہی شہید ہو چکے تھے آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور پھر آپ نے اپنی جبین نیاز خاک کربلا پر رکھ کر فرمایا، ”بسم اللہ و باللہ و فی سبیل اللہ و علیٰ ملۃ رسول اللہ“ ۔ اور حالت سجدہ میں اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کردی۔ ایسا سجدہ کیا کہ جس پرتا ابد سجدوں کو ناز رہے گا۔ شہادت عظمیٰ کے ایسے بلند مراتب پر فائز ہوئے، جو شہادتوں کے لیے سرمایۂ افتخار ہے مسلمانوں کے لئے محرم ماڈل مہینہ ہے، دنیا کا بڑا سانحہ حق اور باطل کا معرکہ کربلا برپا ہوئی امام حسین رضہ ساتھیوں سمیت اسلام کی سربلندی کے لئے شہید ہوئے۔ اسی 10 محرم الحرام کو دنیا ختم ہوگی قیامت برپا ہوگی۔ اللہ پاک محرم الحرام کا تقدس رکھنے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

(ابن جریر طبری 5 / 388، ابن کثیر/البدایہ والنہایہ 8 / 168 ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments