نئے ججوں کی تعیناتی: ایپکس فورم پہ تھیٹر


تم نے سچ بولنے کی جرات کی
یہ بھی توہین ہے عدالت کی
سلیم کوثر

بڑے عہدوں پہ چھوٹے لوگ تاریخ نے دیکھے اور بے رحمی سے ان کے کردار کو محفوظ کر لیا۔ ہم سیاست دانوں اور آمروں کے انداز اور کردار پہ روتے رہے۔ اب عدلیہ فورم کے طرزعمل پہ بھی رونا آتا ہے۔ پانچ ججز کی تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کا انعقاد تین گھنٹے کی گفتگو کے بعد جس طریقے سے انجام کو پہنچا وہ کسی طرح بھی قابل تحسین نہیں، بنیادی اعتراض درست تھا۔ اس حوالے سے اختلافی موقف پہ بات کرتے ہوئے راستہ نکالا جانا چاہیے تھا اور اگر بات میرٹ کی ہے تو چیف جسٹس کو رجوع کر کے ایک اچھی روایت کی داغ بیل ڈال دینا تھی۔ کیونکہ ڈیٹا کسی بھی صورت ان کے موقف کی حمایت نہیں کر رہا تھا

میرٹ پہ پہلے نمبر کی کارکردگی کے جج کو لانا طے شدہ ضابطہ ہے۔ اور آپ پانچویں نمبر پہ بیٹھے ایک شخص کو سامنے لا رہے ہیں۔ ایسی ہر خلاف میرٹ تقرری کے ہمیشہ منفی اثرات سامنے آئے ہیں،

یہ بہت خطرناک روایت ہے۔

ایسا ہی آرمی چیف کی تقرری میں ہوتا رہا۔ جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ جو نامزدگیاں سنیارٹی سے ہٹ کر ہوتی رہیں۔ ان کا مقصد زیر بار کرنا ہوتا تھا تاکہ آنے والا چیف سیٹنگ گورنمنٹ کی تابعداری میں رہے۔ لیکن وہ اپنی چیئر پہ اپنی انا کے ساتھ ہمیشہ اس کے خلاف کرتا رہا۔ یہ مائنڈ سیٹ بہت خوفناک ہے۔ اور خطرناک بھی۔ جو ملک اور نظام کو لگام ڈالے رکھتا ہے۔

ایسی تقرریاں ایک اور کرپشن اور بدعنوانی کو جنم دیتی ہیں۔ اور کمزور کردار اور نفسیات کے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ خلاف میرٹ ہر تقرری اس شخص پہ احسان کی کوشش اور اس کی ساکھ کو مشکوک بنانا ہے۔ یہی نہیں جن کے میرٹ کو نقصان پہنچایا جاتا ہے ان کے اندر بھی ایک منفی کردار اور رویہ ڈویلپ ہوتا ہے۔ جوڈیشل کونسل کی روداد اور فیصلہ جات ایک بازیچہ اطفال کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ یوں تو مقامی جرگوں میں بھی نہیں ہوتا۔ کہ اپنے موقف سے رجوع یا اس پہ قائم رہنے کے بجائے بائیکاٹ کر دیا جائے۔ یہ کمزور نفسیات کمزور فیصلوں کا باعث ہوتی ہے۔ ایسے ججز کی ججمنٹ پہ سوال اٹھتے ہیں۔ اور ادارے کا عمومی اعتبار ختم ہوجاتا ہے، دنیا ہمیں کاپی نہیں کرتی لیکن ہمیں دیکھتی ضرور ہے۔ اور ایسے رویوں کے بعد ہمیں غیر سنجیدہ اور چھوٹے ذہن کے لوگوں میں شمار کر دیتی ہے۔

سپریم کورٹ کے شعبہ تعلقات عامہ کے بیان نے تو اس تضاد اور ابہام کو اور گہرا کر دیا ہے۔ اگر کثرت رائے سے پیش کیے گئے نام مسترد کر دیے گئے ہیں تو پھر دوبارہ غور کرنے کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ اجلاس کی آڈیو ریکارڈنگ بھی تائید کرتی ہے کہ نامزدگیاں مسترد ہو چکی تھیں۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ

چاروں نام ایسے کیوں لیے گئے، جو میرٹ پہ نہیں تھے۔ ان کے حوالے سے موجود ڈیٹا کو اہمیت کیوں نہیں دی گئی۔ ان کی ججمنٹ کی غیر تسلی بخش صورت حال کو کیوں نظر انداز کیا گیا۔ یہ بات بھی جوڈیشل کمیشن کے ایک رکن کے حوالے سے کی جا رہی ہے کہ مسترد شدہ نام دوبارہ زیر بحث نہیں لائے جا سکتے۔ اس کی تائید جوڈیشل کمیشن میں شریک ایک رکن اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین کا یہ بیان بھی کرتا ہے جو اس نے بی بی سی کو اپنے انٹرویو میں دیا۔

، کمیشن کا اجلاس تین گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہا اور اس اجلاس میں چیف جسٹس کی طرف سے پیش کیے گئے ہر نام پر تفصیلی غور کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ اس بارے میں جب رائے شماری ہوئی تو ان کے نام کثرت رائے سے مسترد کر دیے گئے جبکہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے معاملے پر غور کرنے کے لیے اس کو اگلے اجلاس تک مؤخر کر دیا گیا،

آڈیو تین گھنٹے کے اجلاس میں ہمارے معزز جج صاحبان اپنی کمزور قوت فیصلہ اور نفسیات کا مظاہرہ کرتے رہے۔ جس کا کمزور ترین لمحہ معزز چیف جسٹس کا اجلاس سے اٹھ جانا ہے۔

عدالتی منصب تو تحمل اور برداشت کا نام ہے، اس حد تک کہ ملزم کے عدم اعتماد کی بھی توثیق کر دی جاتی ہے

لیکن ہماری عدالتوں میں ملزمان پر اور مجرمین پر جگتیں اور طنز و تشنیع کے نشتر چلانے کا رواج بھی موجود ہے۔

اسی لیے یہ سسٹم دنیا میں پہلے سو نمبر کے قریب تک نہیں پہنچ سکا
128 نمبر سے اگے جا رہا ہے۔

بہت سے التوا کا شکار کیسز کو لٹکا دینے اور سیاسی اور میڈیا کی ہائپ کا باعث بنے کیسز پر بہت زیادہ وقت اور توجہ دینے کا المیہ بھی اسی عدالتی غیر ضروری فعالیت کا کریڈٹ ہے۔ جو عدالتی تاریخ میں ایک منفی پیش رفت شمار ہو رہی ہے، عدلیہ کے ان رویوں کا مظاہرہ موجودہ عدالتی نظام کی سب سے معتبر سطح پر 28 جولائی کو ایک بار پھر دنیا نے دیکھا۔ ہر ایک کی انا آسماں پر تھی

لیکن چیف جسٹس کا رویہ سب سے زیادہ ناقابل تحسین تھا۔ وکلا ء پارلیمنٹ اور جوڈیشل کمیشن کے ارکان کی اکثریتی رائے تھی کہ نئی نامزدگیاں خلاف میرٹ نہ ہوں، میرٹ کی تفصیلات بھی کمیشن کی بحث اور ریکارڈ کا حصہ تھیں۔ اس کے باوجود اصرار اور اجلاس باقاعدہ اختتام اور ججمنٹ کے بغیر ادھورا چھوڑ کر اٹھ جانا عدالتی تاریخ کا ایک اور المیہ ہے۔ فیصلے نظیر بنتے ہیں۔ ایسے ہی رویے بھی آنے والوں کی لیے ایک حوصلہ اور روایت بن جاتے ہیں۔

ایسے بالا مناصب پر بیٹھے لوگ ایسے رویوں کا اظہار کریں گے تو عالمی رینکنگ میں کیا خاک اگے بڑھیں گے اپنے لوگوں میں بھی اعتبار کو کھو دیں گے

ان مناصب پر بیٹھے لوگ افراد نہیں ہوتے
ادارے ہوتے ہیں۔
ان کا رویہ اداروں کا رویہ شمار ہوتا ہے
ان حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدالت کے معزز جج صاحبان اپنے ان رویوں سے رجوع کریں گے
انھیں ایسا کرنا چاہیے تاکہ قوم اور ادارے کو اپنی شاندار روایات کی تشکیل میں مدد ملے۔

مگر ایسا وہی کر سکتے ہیں جو اپنی ذات میں بڑے لوگ ہوں نہ کہ اپنی تنخواہ عہدے اور سٹیٹس کے لحاظ سے بڑے ہوں۔

لوبھیوں کی بستی میں، مایا کے ترازو سے
فیصلہ کرے گا کون، کیا ہے پاپ کیا ہے پن
محمد وارث


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments