اب نگہت کیا کرنے جا رہی ہے؟


نگہت کی کہانی کے دو سیزن تو آپ کی نظر سے گزر چکے ہیں۔ آپ کہیں گے کہ اب بس بھی کرو۔ کہانی کا دی اینڈ کرو۔ پر کیا کریں زندگی میں موڑ آتے رہتے ہیں اور کہانیاں نیا رخ دھارتی ہیں۔ نگہت کی کہانی تو ویسے بھی پوری کی پوری تھرلر ہے۔ اگلا باب حاضر ہے۔

نگہت کا وہ جملہ ”دھکا میں نے نہیں دیا تھا“ رہ رہ کر مجھے تنگ کر رہا تھا۔ ایک بار پوچھا بھی لیکن اس نے ٹال دیا۔ ”باجی چھوڑو جانے دو“ میں نے بھی پھر اصرار نہیں کیا۔

نگہت سے ملنا ملانا رہتا، کبھی کافی کبھی لنچ پر۔ وہ سمجھدار ہو گئی تھی اور باتیں بھی محتاط انداز میں کرتی۔ زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ ایک کمپیوٹر کا کورس بھی کر رہی تھی۔ ڈرائیوینگ بھی سیکھ رہی تھی۔ خود اپنے پر بھی توجہ دینی شروع کردی۔ لباس جدید اور فیشن کے مطابق پہنتی۔ بال طریقے سے کٹواتی اور سنوارتی، ابرو بھی موڈرن ترین اسٹائیل میں۔ یعنی اس کا ٹوٹل میک اوور ہو گیا۔ گھر بھی خوب سجا لیا۔

زبان کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ جاب کی تلاش میں تھی۔
میں نے اسے سی وی بنانے میں مدد کی۔ کام کی درخواست لکھنا سکھایا۔

اسے کنڈر گارڈن میں کام کرنے کا بہت شوق تھا۔ بچے پیارے لگتے تھے۔ درخواست دینے والے کو پولیس کا اٹیسٹ سرٹیفیکیٹ بھی اٹیچ کرنا تھا۔ میں جانتی تھی کہ اس کے لیے مسئلہ ہو گا۔ اس نے پولیس میں درخواست دی اور جو جواب آیا اس میں اس کے جرم اور سزا کا ذکر تھا۔ نگہت نے کنڈر گارڈن میں اٹیسٹ اٹیچ کر کے درخواست بھیج دی۔ وہاں سے جواب آیا کہ چھوٹے معصوم بچوں کو کسی سزا یافتہ کے پاس نہیں رکھا جا سکتا۔ نگہت کے لیے یہ ایک شدید صدمہ تھا۔

اس کے بعد اس نے ایک اسٹور پر اٹینڈینٹ کے لیے اپلائی کیا وہاں سے جواب ملا کہ کسی سزا یافتہ کو وہ کیش کے لین دین کے لیے نامناسب جانتے ہیں۔

” مجھ پر ٹھپا لگ گیا باجی۔ میں مجرم اور سزایافتہ ہوں اور یہی رہوں گی۔ میری کوئی عزت نہیں۔ مجھ پر کوئی اعتماد نہیں کرتا“ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں اسے تسلی دیتی اور مشورہ دیا کہ اپنے وکیل سے بات کرے کہ کسی طرح یہ داغ اس پر سے دھل جائے۔

ایک اسکول کی کینٹین میں ہیلپر کی جگہ خالی ہوئی۔ میں نے نگہت کو وہاں اپلائی کرنے کو کہا۔ اس جاب میں پولیس کا اٹیسٹ بھی نہیں مانگا گیا تھا۔ نگہت کو وقتی کنٹریکٹ پر کام مل گیا وہ بے انتہا خوش تھی اور محنت سے کام سیکھ رہی تھی۔ ہماری ملاقاتیں ہوتی رہتیں۔ ایک بار میں نے پوچھا

” گھر والوں سے کوئی رابطہ ہے؟“ ۔

” جب ندیم جیل میں مجھ سے ملنے آیا تھا تب اس نے میرے بھائی کا پیغام دیا۔ وہاں تو صرف تین سال کی سزا ہوئی ہے اگر پاکستان آئی تو میں خود اس کے ٹکڑے کر دوں گا۔ پچھلے ہفتے اسی بھائی کا فون آیا۔ بڑے پیار سے بات کی۔ کہا پاکستان میں حالات خراب ہیں۔ روزگار نہیں میں اسے یہاں بلا لوں۔ اس کے بعد بھابی کا فون آیا کہ برسات میں گھر کی چھت ٹپکنے لگی ہے۔ مرمت کے پیسے نہیں۔“

”پھر؟“
”پھر کیا۔ میں نے پیسے بھجوا دیے۔ لیکن بھائی کو کہا ان کا یہاں آنا ممکن نہیں“
مجھے لگا کہ نگہت کو حالات نے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ وہ اپنے فیصلے خود کر رہی تھی۔

اس کی کچھ سہیلیاں بھی بن گیں۔ ایک سہیلی برایڈل بیوٹی پارلر چلا رہی تھی نگہت جاب کے بعد شام میں اس پارلر جاتی وہاں کام سیکھا میک اپ کرنا بال رنگنا، اسٹائیل بنانا، مصنوعی پلکیں، ابروؤں کی جدید تراش، ناخن بنانا، ڈیزائن والی مہندی سب ہی کچھ سیکھ گئی۔ کسی کسی شام وہاں کام بھی کرنے لگی۔ آمدنی بھی بڑھ گئی۔ بہت مصروف ہو گئی اور خوش بھی لگتی تھی۔ ان دنوں اس کی زندگی بظاہر بہت اچھی اور کامیاب گزر رہی تھی۔

ایک دن ہم ملے تو میں نے کہا۔
” نگہت تم اب شادی کرلو“

”شادی؟ ہممم۔ ہاں کروں گی۔ ضرور کروں گی۔ پتہ ہے میرا ماموں کا بیٹا تھا شعیب، اچھا لگتا تھا مجھے۔ وہ بھی میری طرف مائل تھا۔ میں نے سمجھ لیا کہ اسی سے میری شادی ہو گی پر اس نے کسی اور سے شادی کرلی کیونکہ وہاں سے اسے سلامی میں موٹر سائیکل کا وعدہ تھا۔ میں بن ماں باپ کی، بھائی اور بھابی کے ٹکڑوں پر پلنے والی، وہ منہ پھیر کر چل دیا۔ شادی کے بعد دو بچے ہوئے۔ بیوی بھاگ گئی۔ اب بھائی کے ذریعے اپنا رشتہ بھیجا۔ شادی کرتے ہوئے اسے میں نظر نہیں آئی۔ اب اپنی موٹر سائیکل کو گلے لگا کر بیٹھے۔“ وہ تلخی سے بولی۔

” پچھلے ہفتے ندیم آیا تھا“
” کیوں؟ کچھ مانگنے آیا تھا؟“
” ہاں مانگنے ہی آیا تھا۔ میرا ہاتھ۔ میرا ساتھ“
”کیا؟ لیکن۔ وہ تو۔“ مجھے جھرجھری سی آ گئی۔
” کہتا ہے اس نے کسی مولوی سے فتوی لیا ہے۔ ہمارا نکاح جائز ہے“
میں سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ وہ جملہ دھکا جیسا میں نے نہیں دیا تھا پھر دماغ میں کلبلایا۔
”پھر؟“
” میں نے صاف انکار کر دیا۔ اسے صرف لالچ ہے۔ مجھ سے محبت نہیں ہے“
” شادی اس سے کروں گی جس سے مجھے محبت ہوگی۔ پہلے محبت پھر شادی“ وہ کھلکھلائی۔

نگہت سوشل میڈیا پر بھی سرگرم ہو گئی۔ فیس بک پر اکثر اپنی تصاویر پوسٹ کرتی۔ سیلفیز لیتی، کبھی اپنی گاڑی کے ساتھ کبھی کسی مال میں۔ کبھی بھاپ اڑاتی کافی کے پیالی کے ساتھ۔

ایک دن اس کا فون آیا۔ ”میرے ساتھ ڈنر کریں آپ کو کچھ بتانا ہے“ ۔ جوش اور خوشی اس کے لہجے سے عیاں تھی۔

ایک اٹالین ریسٹورنٹ میں ہم آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ کھانا آرڈر کیا۔
” بتاؤ جلدی سے کیا بات ہے“ میں نے بے تابی سے کہا۔

”باجی مجھے محبت ہو گئی“ وہ لال سرخ ہو رہی تھی۔ ”باجی کیا بتاؤں۔ سلطان اتنا اچھا ہے اتنا پیارا ہے“ ۔ اس کی آنکھوں میں بے پناہ چمک تھی۔ فون پر اس کی تصویر بھی دکھائی، دیکھنے میں اچھا تھا۔

دھیرے دھیرے اس نے تفصیل بتانی شروع کی جو کچھ یوں تھی کہ اس کے فیس بک پر بہت سارے نئے دوست بن گئے۔ انہی میں ایک شخص سلطان تھا جو پاکستان سے اسپین روزگار کی تلاش میں آیا تھا۔

”باجی سلطان نے شینگن ویزا لیا اور اسپین آ گیا لیکن وہاں بھی حالات ٹھیک نہیں۔ ڈھنگ کا کام نہیں ملتا۔ اس نے مجھ سے بات کی اور اپنا حال بتایا۔ مجھے وہ اچھا لگا۔ بہت سادہ اور مخلص بندا ہے۔ اسے بھی مجھ سے محبت ہو گئی۔ اب میں کوشش کر رہی ہوں کہ وہ یہاں آ جائے اور پھر ہم شادی کر لیں گے“

مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ وہ بولتی رہی اور میں گھبراتی گئی۔ شینگن ویزا ہولڈر کسی بھی شنگن ممبر ملک آ سکتا ہے اور تین مہینے رہ سکتا ہے اس دوران اسے کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور تین ماہ بعد اسے واپس جانا ہوتا ہے۔ میں جو یہ سوچ رہی تھی کہ نگہت اپنی زندگی کے اتنے اتار چڑھاؤ سے گزرنے کے بعد بہت سمجھدار اور محتاط ہو چکی ہے اب یہ کیا حماقت کرنے جا رہی ہے۔

”ایسا مت کرو نگہت۔ یہ ٹھیک نہیں۔ ایک ایسے شخص سے شادی کرنے کا سوچ رہی ہو جسے تم صرف دو ماہ پہلے انٹر نیٹ پر ملی ہو۔ کیا جانتی ہو اس کے بارے میں؟“

نگہت نے عجیب نظروں سے مجھے دیکھا پھر سر جھکا لیا۔ دیر تک چپ رہی پھر ہاتھ میں پکڑا گلاس میز پر دھرا میری طرف دیکھا اور بولی۔

” باجی میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں۔ ، آپ نے میرا بہت ساتھ دیا۔ بہت پیار دیا۔ لیکن اب میں آپ سے نہ اجازت مانگ رہی ہوں نہ مشورہ۔ میں تو آپ کو اپنی خوشی میں شریک کرنا چاہ رہی تھی کہ آپ مجھے خوش دیکھ کر خوش ہوں، دعائیں دیں۔ مجھے مشورہ درکار ہوا تو آپ ہی سے مانگوں گی۔“

میں اپنی جگہ بیٹھی سن ہو گئی۔ توقع نہیں تھی کہ وہ اس لہجے میں مجھ سے بات کرے گی۔

باقی کی ساعتیں بہت بوجھل گزریں۔ بے دلی سے کھانا ختم کیا اور گھر لوٹ آئی۔ اس کے بعد کئی دن خاموشی رہی۔ میں بھی اس سے کچھ کھنچ گئی تھی۔ دو ہفتے بعد ہی اس کا فون آ گیا۔

”باجی جمعہ کو میرا نکاح ہے۔ آپ نے ضرور آنا ہے۔ بھائی صاحب کو بھی لائیں اور بچوں کو بھی“ لہجہ ایسا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ میں نے معذرت کی لیکن ادھر سے اصرار ”باجی اس دنیا میں آپ ہی تو ہیں میری۔ پلیز ضرور آئیے گا۔ سلطان بھی آ گیا ہے۔ یہاں اس کے دوست ہیں وہیں ٹھہرا ہے۔ آپ سے ملوانا ہے“

کچھ تجسس اور کچھ اس سے لگاؤ شادی کا تحفہ خریدا اور دولہا کی سلامی لفافے میں ڈالی۔ بچے تو نہیں البتہ میاں ساتھ چلے۔

نگہت بہت اچھی لگ رہی تھی۔ لباس، میک اپ زیورات سب اچھے تھے۔ مہندی بھی لگائی ہوئی تھی۔ نگہت کی سہیلیاں بھی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں سلطان بھی اپنے تین دوستوں کے ساتھ آ گیا۔ منحنی سا نوعمر لڑکا سفید شلوار قمیض میں ملبوس کچھ جھجکتا شرماتا سا آ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔ ہم نے اسے خوش آمدید کہا وہ بس مسکرا دیا۔

مولوی صاحب بھی آ گئے۔ نگہت نے میرے میاں کو آہستگی سے مخاطب کیا ”بھائی صاحب آپ ہمارے گواہ بنیں“ وہ مان گئے۔

نکاح شروع ہوا۔ حق مہر کی بات ہوئی تو سلطان نے اپنے دوست کے کان میں کچھ کہا۔ دوست بولا۔

” حق مہر ایک کروڑ روپیہ اور بیس تولے سونا“ ہم سب ہی دنگ رہ گئے۔ نگہت ہلکے سے غرور سے مسکرا دی۔ نکاح ہو گیا سب نے دولہا دلہن کو مبارکباد دی۔ نکاح کے بعد ایک پاکستانی ریسٹورنٹ میں ڈنر ٹیبل ریزرو تھی۔ گنے چنے مہمان تھے۔ میز پر نگہت نے اپنے ساتھ مجھے بٹھایا۔ دوسری طرف سلطان تھا اور سلطان کے ساتھ میرے میاں۔ ہلکی پھلکی باتیں شروع ہوئیں۔ سلطان ہر بات کے جواب میں گھبرایا سا کہتا ”جی مجھے پتہ نہیں۔ جی شاید۔“ ۔ میں نے سوچا کہ شاید سلطان بہت شرمیلا ہے۔

ڈنر کے بعد بل آیا تو نگہت نے بل سلطان کے آگے کر دیا وہ لاتعلق سا بیٹھا رہا۔ نگہت نے ٹہوکا دیا اور سرگوشی میں کچھ کہا۔

سلطان نے کندھے اچکائے۔ کچھ لمحے عجیب سے گزرے پھر نگہت نے اپنے پرس سے ویزا کارڈ نکالا اور ادائیگی کی۔ ایک کروڑ روپیہ اور بیس تولے سونے کا حق مہر لکھوانے والا سلطان کہیں اور دیکھتا رہا۔ میرے دل میں اندیشوں کے جھکڑ چلنے لگے۔ یہ لڑکی اب کس نئی مشکل میں پھنسنے جا رہی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments