طلوع پاکستان پر دشمن کی یلغار


پاکستان کی جدوجہد کے بارے میں بڑی قابل قدر کتابیں منظرعام پر آ چکی ہیں، مگر ان میں ”پاکستان ناگزیر تھا“ غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے مصنف سید حسن ریاض ہیں جن کی ادارت میں مسلم لیگ کا ترجمان ”منشور“ 1938 سے ستمبر 1947 تک شائع ہوتا رہا۔ وہ قائداعظم کے رفقا میں سے تھے اور ’منشور‘ کے مدیر کی حیثیت سے ممتاز مسلم لیگی راہنماؤں کے بڑے قریب رہے۔ مزید براں یو پی مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈ، یو پی لیگ ورکنگ کمیٹی اور آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے رکن بھی تھے۔

اس بلند پایہ تصنیف کے بارے میں پاکستان کے بہت بڑے محقق اور کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جمیل جالبی حرف آغاز میں لکھتے ہیں کہ حسن ریاض صاحب نے واقعات کو بہت قریب سے دیکھا اور ان میں حصہ لیا۔ اس کتاب کو تحریر کرنے کا مقصد بقول سید صاحب یہ تھا کہ ”جو میرے سامنے گزرا ہے اور جو میں نے سمجھا ہے، اس کے اہم پہلو ایک کتاب میں لکھ دوں تاکہ لوگوں کو تحریک پاکستان اور مقاصد پاکستان سمجھنے میں سہولت ہو۔ انہوں نے یہ التزام رکھا ہے کہ واقعات اسی طرح نظر آئیں جس طرح وہ گزرے ہیں۔“

سید حسن ریاض نے اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں ایک باب کا اضافہ کیا ہے جو ان اعتراضات اور بدگمانیوں کے جواب میں ہے جو دشمن اور اپنے حریص لوگ اس وقت پھیلانے میں پورا زور لگا رہے تھے جب قائداعظم کی مدبرانہ قیادت اور برصغیر کے مسلمانوں کی سرفروشیوں سے پاکستان قائم ہو رہا تھا۔ پہلی بدگمانی یہ پھیلائی گئی کہ انگریزوں کی عنایت سے پاکستان بنا ہے اور وہ بھی (خدانخواستہ) چند مہینوں کا مہمان ہے۔ دوسری بدگمانی یہ تھی کہ قائداعظم نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں دو قومی نظریے سے انحراف کیا تھا اور ان کو برصغیر میں اسلام کے تحفظ اور اس کی تمدنی طاقت کی نشوونما سے کوئی سروکار نہیں تھا۔

اس پروپیگنڈے کا سب سے بڑا مقصد عام ذہنوں میں یہ تاثر قائم کرنا تھا کہ پاکستان کی تشکیل میں برصغیر کے مسلمانوں نے سرے سے کوئی جدوجہد نہیں کی اور قائداعظم نے کسی سیاسی بصیرت اور غیرمعمولی فراست کا ثبوت نہیں دیا، بلکہ انگریزوں نے اپنی چاپلوسی اور مکمل وفاداری کے صلے میں ہندوستان کو تقسیم کر کے پاکستان قائم کر دیا ہے۔ ’پاکستان ناگزیر تھا‘ کا دوسرا ایڈیشن 1970 کے لگ بھگ شائع ہوا اور سید حسن ریاض کو ان تمام اعتراضات اور بدگمانیوں کا ہر پہلو سے جائزہ لینے کا موقع ملا۔

وہ قیام پاکستان کے بعد کراچی یونیورسٹی میں تدریسی صحافت سے وابستہ ہو گئے تھے۔ انہیں انگریزی زبان پر کمال دسترس حاصل تھی۔ وہ دوسرے ایڈیشن کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ”یہ بارہا ہوا ہے کہ بدگمانیوں اور غلط فہمیوں سے حاصل شدہ فتوحات شکستوں میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ پاکستان کے لیے بھی یہ خطرہ سامنے ہے۔ بے شک دشمن کو شکست تو ہوئی، مگر وہ میدان چھوڑ کر بھاگا نہیں، ہر وقت جارحانہ اقدامات کرتا رہتا ہے اور اس میں یہ طاقت بھی ہے کہ پاکستان کی صفوں میں غداری کے میلانات پیدا کرتا رہے، لہٰذا یہ ان کے ذمے ہے جنہیں پاکستان اور اس کے مقاصد عزیز ہیں کہ جن اسباب اور وجوہ کی بنیاد پر ہندوستان تقسیم اور پاکستان کا قیام ناگزیر ہو گیا تھا، ہر وقت ان کی اشاعت جاری رکھیں تاکہ پاکستان اور دنیا کے انصاف پسند لوگ ان سے واقف رہیں اور انصاف کے اس اہم محاذ کی حفاظت پر پاکستانی کمربستہ رہیں اور دنیا کی رائے عامہ ان کی مؤید ہو۔“

سید حسن ریاض اپنے بارے میں تفصیل سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے تاریخ ساز آزادی کے سفر میں حصہ لیا اور اہم واقعات کا نہایت قریب سے مشاہدہ کیا۔ ان کی رائے میں مسلمانوں کی کوشش سے برصغیر ہند کی تقسیم اور خودمختار دولت کی حیثیت سے پاکستان کا قیام ایک ایسا واقعہ ہے کہ اس پر ہمیشہ گفتگو رہے گی کہ ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود یہ کیسے ہو گیا۔ اس خطے میں ہندو اکثریت میں تھے جنہوں نے مسلمانوں کی فیاضانہ حکومت میں سات سو برس دولت سمیٹی تھی اور اپنے توہمات اور تعصبات کو ترقی دینے میں بالکل آزاد رہے تھے، چنانچہ وہ قوم برصغیر کے مسلمانوں کی مخالفت میں سامنے آ گئی اور اس نے انگریزوں کا تسلط قائم کرنے میں ان کا پورا ساتھ دیا۔

ان کے اس تعاون سے ہندوؤں اور انگریزوں کے مفادات مشترک ہو گئے۔ اس سے اقدامی عمل کے تمام مواقع مسلمانوں کے ہاتھوں سے یک لخت نکل گئے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی فراست کا یہ عجیب کرشمہ ہے کہ انہوں نے ہر مرحلے پر دفاعی عمل سے اقدامی عمل کے مقاصد حاصل کیے۔ مسلمانوں کا بنیادی مقصد اور مطمح نظر یہی رہا کہ آزاد ہندوستان میں اسلام آزاد ہو اور مسلمانوں میں یہ طاقت ہو کہ وہ اس آزادی کی حفاظت کر سکیں۔ انہوں نے اسلام کا دامن کسی حال میں بھی نہیں چھوڑا۔

سید حسن ریاض نے ان تمام فیصلہ کن واقعات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے جن پر تحریک پاکستان مبنی ہے۔ انہوں نے ہر واقعہ بڑی دیانت کے ساتھ بیان کیا اور لکھا ہے کہ تحریک پاکستان ایسی کھلی ہوئی، برملا اور ڈنکے کی چوٹ پر تھی کہ اس میں راز اور اسرار کا دخل ہی نہیں، البتہ مخالفین نے پروپیگنڈے کے طاقت ور ذرائع سے ان کی ایسی تاویلات اور تعبیرات کی ہیں کہ ان سے بڑی غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں اور حقائق کے رخ تبدیل ہوتے نظر آنے لگتے ہیں۔

میں نے واقعات کے بیان میں اس کا خیال رکھا ہے کہ وہ اس طرح نظر آئیں جس طرح وہ گزرے ہیں۔ ہم آگے چل کر جناب حسن ریاض کے وہ حقائق اور دلائل پوری صراحت سے پیش کریں گے جن میں انگریز آخری لمحے تک قیام پاکستان کی مخالفت کرتے رہے اور مسلمانوں کی سیاسی طاقت اور قائداعظم کی عظیم الشان حکمت عملی تھی جس کے اعجاز کے سامنے حکمران انگریز اور آبادی کے اعتبار سے اکثریت رکھنے والی ہندو قوم کے قائدین سرنگوں ہوتے گئے اور اپنی سیاسی بقا کے لیے پاکستان کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے۔ یوں بیسویں صدی کا سب سے بڑا معجزہ تخلیق ہوا جو غیرمعمولی حوادث میں اپنا وجود بھی قائم رکھے ہوئے ہے اور دنیا کو حیران کر دینے والے کرشمے بھی تسلسل کے ساتھ دکھا رہا ہے۔ (جاری ہے )

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments