مذاہب کا المیہ


ہر مذہب کے بنیاد پرستوں کو یہ بے جا زعم رہا ہے کہ ان کے مذہبی نظریات ہی کائنات کا محور و مرکز ہیں سو تمام تر آفاقی اخلاقیات  ان کے مذاہب کی دین ہے۔ لہذا ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ چونکے ان کا مذہب زمین میں بستے تمام خطوں کے لیے اخلاقیات مہیا کرتا ہے سو ان کا مذہب سب سے اول و اعلی ہے۔ تاریخی حقائق کے نیزے نے جب چند بڑے مذاہب کے اس زعم سے رنگے پردوں کو چاک کیا تو معلوم پڑا کہ موریلیٹی (اخلاقیات) آج سے ایک لاکھ سال قبل بستے انسانی قبائل میں بھی موجود تھیں اور ان کا اطلاق اس قبیلے کے ہر فرد پر بلا امتیاز لازم تھا۔

اخلاقیات مذاہب سے نہیں بلکہ سماج کے کلچر اور تہذیب سے پروان چڑھتیں اور معاشرہ اخلاقیات کے ان زائچوں میں خود کو ڈھالتا جاتا، یہی ارتقاء تھا اور ہے۔ تاریخی حقائق کے ساتھ ساتھ اس دعوے کے سائنسی ثبوت بھی موجود ہیں کہ انسان تو خیر انسان، جانور بھی اپنی کمیونٹی میں اخلاقیات کے اصول مرتب رکھتے ہیں اور انہی پر کاربند رہتے۔ مثلاً ہمارے بچوں کی گیارہویں بارہویں کی بیالوجی کی درسی کتب میں بھی یہ باب موجود ہے کہ چیمپانزی  اپنی کمیونٹی میں ایک فرد کو سربراہ چنتے اور اسے الفا میل کہا جاتا، اس الفا میل پر بھی اس کمیونٹی کی تمام تر اخلاقیات کا برابر اطلاق ہوتا کہ وہ کسی جونیئر چیمپانزی سے طاقت کے باوجود خوراک ( کیلے وغیرہ) چھیننے کا حق نہیں رکھتا اور اگر ایسا ہو تو اسے مزید سربراہ نہیں مانا جاتا۔

اسی طرح کے بہت سے مخصوص تجربے کیے گئے جو وقتاً فوقتاً اینیمل ڈسکوری اور نیشنل جیوگرافک جیسے چینلز پر دکھائے بھی جاتے۔ سو جانوروں نے بھی وقت کے ساتھ اپنے لیے اخلاقیات مرتب کر لیں سو ایسے میں انسانی سماج اور تہذیب کو جھٹلا کر مذاہب کو تمام تر کریڈٹ دینا انتہائی حماقت ہے۔ سو یہودیت، عیسائیت اور اسلام سے پہلے بستے مختلف سماج اور تہذیبوں میں اخلاقیات کے اصول بہرکیف موجود تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے۔

کچھ لوگوں کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ مذاہب کی دی گئی تمام اخلاقیات قدیم مصر، کنعان اور میسوپوٹیمیا کی تہذیبوں سے ماخوذ ہیں۔ کنفیوشس، بدھا اور وردھمان کے دیے گئے اخلاقی سبق ان مذاہب سے کئی پرانے ہیں۔ ان شخصیات کے ہاں بھی محبت، امن، سلامتی، اخوت، یکجہتی، بھائی چارہ اور محنت جیسے اسباق ہی ہیں۔ بلکہ کہیں نا کہیں مذاہب نے تقسیم اور منافرت کو جنم دیا۔ وحدانیت کے تصور نے مذاہب کے مقلدوں کو یہ اشتعال دیا کہ چونکہ رب ایک ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں معبود، سو تمام انسانوں کا ایک خدا کو ماننا لازم ہے ( اور یقیناً وہ خدا وہی ہے جس کا تصور ان کے اپنے اپنے مذہب کے ہاں ہے ) سو ایسے میں تھیوڈوسس سے لے کر ”سیباستی کے چالیس شہداء“ تک اور امیہ کے جری سپہ سالاروں سے محمد بن قاسم، ابدالیوں اور غزنویوں تک، ”ایک خدا“ کے نام پر ہزاروں انسانی سر کاٹتے رہے ہیں۔

آپ یقین کیجیئے عرب کے جزیروں میں بستی کوئی بستی ہو یا لاس اینجلس کے برقی قمقموں میں رہتا انسان، روس کے برفانی غاروں میں رہتے لوگ ہوں یا ممبئی کے خستہ حال محلوں کے باسی، کوئی خود کو یہودی کہتا ہو یا کوئی حاجی ہو، چاہے کوئی قدیم دیوتاؤں کو پوجتا حبشی ہو یا مغرب کے افکار سے متاثر کوئی دہریہ، تمام انسان محبت، امن، پیار، سلامتی اور یکجہتی کی اخلاقیات پر مکمل متفق ہیں مگر چونکہ موریلیٹی کے ہر پیکٹ پر مذاہب نے اپنے اپنے ناموں کے برینڈڈ سٹیکر لگا رکھے ہیں سو ہر انسان اپنے برینڈ کی محبت میں دوسروں کی اخلاقیات کے ضوابط کو قابل نفرت سمجھ رہا ہے، بس یہی تضاد مذہبی خداووں کی دکانیں چالو رکھے ہوئے ہے۔ جس دن لوگ لبرل ہو جائیں گے، محبتیں دائم آباد ہوں گی اور یہ سیارہ ہنستے مسکراتے ہوئے جینے کی خوبصورت جگہ بن جائے گی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments