دولے شاہ کے چوہے اور سیاسی ورکر


سیاسی جماعتوں کے ورکرز بھی دولے شاہ کے کسی چوہے سے کم نہیں ہیں۔ بس فرق صرف یہ ہے کہ ان کے سر کے سائز نارمل ہیں مگر ان پر نظر نا آنے والا جو آہنی خول چڑھا ہوا ہے اس نے ان کی ذہنی استطاعت کو کم کر دیا ہے۔ سوچنے سمجھنے سے عاری ایک ہی رمز میں مست و مست، پارٹی فنکشن اور جلسوں میں دھمال ڈالتے یہ ورکرز ہر زی شعور کے لیے اسی طرح مرکز نگاہ ہیں جیسے کہیں اچانک دولے شاہ کا چوہا سامنے آ جائے تو لوگ حیرت سے دیکھنے لگتے ہیں۔

اب ان ورکرز کی موجودگی میں سیاسی ماحول کیسا ہو گا اس کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں اس کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ بات ورکرز کی ہوتی تو پھر بھی امید کی جا سکتی تھی کہ کسی وقت بہتری آ جائے گی مگر رونا تو اس بات کا ہے کہ دوسرے درجے کی سیاسی قیادت جو مختلف سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں پر مشتمل ہے کی حالت بھی دولے شاہ کے کسی چوہے سے کم نہیں ہے۔ کسی بھی ٹاک شو میں ان کی گفتگو سن لیں کمال ڈھٹائی کے ساتھ پارٹی کی غلط پالیسیوں کو دفاع کرتے نظر آئیں گے بسا اوقات تو ایسی مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہوجاتی ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ ان کی بات پر کس طرح کا ردعمل دیا جائے۔ مجال ہے کوئی ترجمان کسی مخالف سیاسی جماعت کے ترجمان کی کسی بات سے اتفاق کر جائے۔ ایک عجیب و غریب سیاسی مکالمہ شروع ہو گیا ہے کہ میں نامانوں والی رٹ لگائے رکھنی ہے نا دلیل کے ساتھ کوئی بات کرنی ہے اور نا ہی کسی کی دلیل کو ماننا ہے

معاملہ یہیں تک رہتا تو بھی ٹھیک تھا مگر دکھ تو اس بات کا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ٹاپ لیڈرشپ کا بھی یہی حال ہے جو ان کی پارٹی کے ورکرز کا ہے۔ بات اگر ذہنی استطاعت کی ہے تو ورکر اور لیڈر شپ ایک ہی ذہنی سطح پر رکے ہوئے ہیں۔ اس لیے کسی جماعت کے ورکر کی ذہنی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی لیڈر شپ سے متعلق رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ اور یہ رائے کم وبیش درست ہی ہوگی۔ اب اگر یہی سیاسی فضا ہے تو پھر ہو گا کیا؟ سیاسی معاملات کیسے چلیں گے اور سیاسی مسائل کو کب مل بیٹھ کر حل کیا جا سکے گا؟ ان سوالوں کے جواب شاید کسی کو معلوم نہیں ہیں خدا جانے ان سوالوں کے جواب ہیں بھی سہی یا نہیں ہیں۔

سوالوں کے جواب سے یاد آیا کہ الیکشن کمیشن کے سوالوں کے جواب تو مستند صادق و امین کے پاس بھی نہیں تھے کئی سالوں تک یہ سوال پوچھے جاتے رہے مگر جواب ندارد۔ نتیجہ یہ کہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ دیا کہ صادق و امین اب مزید صادق و امین نہیں رہے۔ اس کے بعد تو وہ شور اٹھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اور یہ شور وہ کر رہے ہیں جن کو خود اس طرح کے سوالات کا سامنا ہے اور مزے کی بات یہ کہ ان کے اپنے کیس میں ان کے پاس ان سوالات کے جواب نہیں ہیں۔ مطلب آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اب اگر یہی حالت تو بندہ خدا پھر شور کس بات کا کر رہے ہو۔ اب تردامنی کی شکایت تو وہ کرے جس کا اپنا دامن گیلا نا ہو اپنی جھولی میں سو چھید نا ہوں۔

پنجاب چھن گیا نون لیگ سے اور برسراقتدار چوہدریوں کا بھی رنگ نہیں جم پا رہا۔ سیلاب آیا اور ملک کا وزیراعظم سندھ، بلوچستان کے دورے کر رہا ہے مگر پنجاب کے سیلاب زدگان کو چوہدریوں کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے۔ ایک اکائی کے یکسر نظر انداز کردینے سے وفاق پھر وفاق تو نہیں رہے گا۔ اب پسند ہویا نا ہو فریقین کو سیاسی حقیقت کو تسلیم تو کرنا پڑے گا وگرنہ معاملات کیسے چلیں گے اور اس طرح کب تک چلیں گے۔ مگر ہم نے کسی کا مینڈیٹ تسلیم ہی کب کیا ہے۔ اگر مینڈیٹ تسلیم کرلیتے تو ملک آدھا نا ہوتا۔ المیہ تو یہ ہے کہ آدھا ملک گنوا کے بھی ہم نے کچھ نہیں سیکھا اور نا ہی سیکھنے کا موڈ ہے۔ شاید تاریخ سے نا سیکھنے کی قسم کھا رہی ہے ہم نے یا پھر یہ ہماری سیاسی تربیت کا حصہ ہے کہ ہم نے ہر تجربہ خود کرنا ہے اور ماضی کے تجربات سے کچھ نہیں سیکھنا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں سے چلے تھے وہیں کھڑے ہیں نا آگے کا سفر کر پا رہے ہیں اور نا ہی رستہ کٹ رہا ہے۔ بطور قوم دن مہینے اور سال ضائع کیے جا رہے ہیں۔ کوئی ایسی لیڈر شپ ہی میسر نہیں آ سکی جو ملک و قوم کی بات کرے۔ سیاسی بونوں میں ہوا بھر کے سر پر مسلط کر رکھا ہے ہم نے اور ان سے ہی بہتری کی امید لگائے ہم کیا کسی دولے شاہ کے چوہے سے کم ہیں۔ عجیب خوش فہم لوگ ہیں کہ اس فصل کی امید لگائے بیٹھے ہیں جس کے لیے نا تو ہل چلایا اور نا ہی وہ فصل کاشت کی ہے۔ ہم سا بھی کوئی نا اہل اور نکما ہو گا۔ جب بویا ہی کچھ نہیں تو کاٹیں گے کیا۔

ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہیں اور ان کے قائدین کے سینے میں خدمت کا جذبہ ہے ہر قائد صادق اور امین ہے ان پر لگائے گئے تمام الزامات سازش ہیں جھوٹ کا پلندا ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ملک کیوں قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ سات دہائیوں سے عام آدمی کی حالت بہتر کیوں نہیں ہو رہی ہے۔ ملکی معیشت کیوں زبوں حالی کا شکار ہے۔ بطور معاشرہ پستی کی طرف کیوں جا رہے ہیں۔

ہماری اخلاقی اقدار کو کیا ہو گیا ہے۔ کچھ تو ہے جو غلط ہے اور جو غلط ہے اس کی نشاندہی ضروری ہے اور اس کو ٹھیک کرنا ضروری ہے تاکہ ملک و قوم کو درست سمت میں لے جایا جا سکے ترقی کا سفر شروع کیا جا سکے۔ منزل کا تعین کیا جا سکے۔ اب یہ سب کچھ کرنے کے لیے دماغ سے سوچنا پڑے گا مگر کیا کریں کہ ہمارے پاس سیاسی قیادت سے لے کر ایک ورکر تک سب کے سب اپنے آہنی سیاسی خول کے اندر بند ہیں کوئی سوچنے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہر کسی نے پارٹی پرچم کا چوغہ پہن کر ہاتھوں میں کشکول تھاما ہوا ہے کہ کوئی اس میں ووٹ کی بھیک ڈال دے۔ ستم یہ ہے کہ کسی کا کاسہ بھر بھی جائے تو حالات پھر بھی وہی رہیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments