وظائف کے بارے میں کچھ باتیں


یکم محرم سے پہلے فیس بک پر بعض فضلاء اور اہل علم کی جانب سے ایک فتوی شیئر کیا گیا تھا، جس میں لکھا تھا کہ ”جو شخص محرم کی پہلی تاریخ کو ایک سو تیرہ مرتبہ پوری“ بسم اللہ الرحمن الرحیم ”کاغذ پر لکھ کر اپنے پاس رکھے گا، ہر طرح کی آفات و مصائب سے محفوظ رہے گا“ اور حوالہ مفتی شفیع رحمہ اللہ کی کتاب جواھر الفقہ جلد 2 صفحہ 187 کا لکھا ہوا تھا اور بعض جگہ ساتھ مزید وضاحت کے لیے یہ بھی لکھا تھا ”احکام و خواص بسم اللہ“ جواہر الفقہ، میں نے دارالعوام کراچی میں پڑھنے کے دوران خریدی تھی، میرے پاس جو ایڈیشن ہے وہ 1425 ہجری کی ہے۔

تخصص کے دوران اور بعد میں حسب ضرورت چیدہ چیدہ مباحث کا مطالعہ بھی کیا ہے۔ اس وقت پوری کتاب کا مطالعہ تو مشکل تھا لیکن زیر بحث پوسٹ دیکھنے کے بعد نہ صرف یہ کہ حوالہ میں منشن کیا گیا صفحہ دیکھا بلکہ پوری فہرست میں بھی مجھے بسم اللہ کے متعلق کوئی ایسی بات نہیں ملی۔ مذکورہ فتوی میں حوالہ ذکر کرنے کے بعد لکھنے والے نے حکم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”یہ بزرگوں کے تجربات میں سے ہے، سنت یا لازم سمجھے بغیر اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے“

پہلے یہ واضح کردوں کہ میں اگرچہ خود اس عمل کو درست نہیں سمجھتا لیکن مقصد کسی پر تنقید بھی نہیں اور نہ ہی خود کو اس کا اہل سمجھتا ہوں، بلکہ شیئر کرنے والے فضلاء کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ قطع نظر اس عمل کے جواز یا عدم جواز کے، کیا ایک ایسی قوم کو اس قسم کی باتوں کی ترغیب دینا حکمت کے خلاف نہیں، جس پر پہلے سے ہی توہم پرستی کا غلبہ ہے اور جو بحیثیت مجموعی اس قدر بیکار قوم بن چکی ہے کہ ہر پریشانی کا علاج جھاڑ پھونک اور وظائف سے کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔

جسے بذات خود عمل اور محنت سے کوئی دلچسپی نہ دین کے لیے ہے اور نہ دنیا کے لیے۔ جو دنیا میں ترقی بھی وظائف کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتی ہے اور جنت میں اعلی منازل کو بھی کوئی عمل کیے بغیر شارٹ کٹ طریقے سے حاصل کرنا چاہتی ہے۔ جہاں پہلے ہی نظر بد سے بچنے کے لیے گاڑیوں کے ساتھ جوتا لٹکا ہوتا ہے۔ جہاں یہ اعتقاد بن چکا ہے کہ دکانوں میں حروف مقطعات کا نقش، سب بلاؤں سے کفایت کر جاتا ہے، پھر چاہے دکان کا مالک جھوٹ، دھوکہ دہی اور ناپ تول میں کمی کی جسارت کیوں نہ کرے۔ جہاں بچوں کی حفاظت کالے دھاگوں اور تعویذ سے کی جاتی ہے۔ جہاں ایک طرف غربت عام ہے اور دوسری طرف و یہلے پن کا یہ عالم ہے کہ بعض علاقوں میں سات آٹھ مردوں پر مشتمل گھرانے میں صرف ایک دو کمانے والے ہوتے اور باقی کھانے والے؟

کیا اس قسم کے ذاتی تجربات کو مذہب کی طرف منسوب کر کے ان کی ترغیب دینا اور انہیں اہم سمجھ کر بڑے پیمانے پر پھیلانا لوگوں کے لیے مسنون اعمال سے مزید دوری کا باعث نہیں بنے گا؟ کیا ہر فتوی کو یوں عام کرنا دانشمندی ہے؟ اگر فقط لکھ کر رکھ لینا اس قدر موثر ہے تو ہر گھر میں بسم اللہ کیا، پورا قرآن موجود رہتا ہے، اگر اس کو پڑھنے، سمجھنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کے بغیر انسان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا تو پھر پہلی محرم کو فقط بسم اللہ لکھنا اتنا موثر کیونکر ہوا؟

جہالت اس قدر عام ہے اور سہل پسندی کا اس قدر رجحان بڑھ چکا ہے کہ جب کوئی ہمارے پاس آ کر کہتا ہے، مجھے رات کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں، اور ہم اس کی اس مشکل کے حل کے لیے آیت الکرسی اور دیگر چند مسنون اعمال کرنے کو بتاتے ہیں تو فوراً جبیں پر شکن پڑ جاتی ہے، کیوں کہ کچھ حضرات نے ان کو تعویذ کا عادی بنایا ہوتا ہے جس کا تجربہ ہم نہیں رکھتے ہیں۔

اس کے برعکس ہمارا اعتقاد ہے کہ صبح و شام اور دیگر اوقات کے مسنون اذکار پڑھنے سے ہم دن بھر اللہ کی امان میں رہتے ہیں، کئی قسم کی تکلیفوں سے ہمیں نجات ملتی ہے۔ کام بھی آسان ہو جاتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کی سنت پر عمل بھی ہو جاتا ہے۔ یہ اذکار اللہ کی دی ہوئیں بے شمار نعمتوں پر شکر کا ایک ذریعہ ہیں، یہ اللہ تعالی سے وعدہ اور عہد کی یومیہ تجدید ہے۔ یہ پڑھنے کی وجہ سے ہم ہر قسم کے شر سے محفوظ ہو جاتے ہیں، کیونکہ یہ شر کو دور کرنے کا ایک مشروع سبب ہے۔

یہ روحانی غذا ہے جس سے تھکان، بزدلی اور بے چینی وغیرہ سب دور ہو جاتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ اللہ کا ذکر ہے اور ذکر الہی شرک پر کاری ضرب ہے، جھوٹے خداؤں سے بیزاری کا اعلان ہے اور شیطان کے وسوسوں سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ لیکن افسوس کہ جب سے کچھ حضرات نے عوام کو اپنی خود ساختہ اور سپیشل مناجات غیر مقبول کا عادی بنایا ہوا ہے تب سے وہ ان میں دلچسپی نہیں لے رہے۔

سو مدارس کے فضلاء سے دست بستہ درخواست ہے کہ دین کی تعلیمات کو ان کی اصلی شکل و صورت میں درست طریقے سے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ واعظ اور مفتی میں فرق ہوتا ہے۔ مفتیان کرام لوگوں کو حکم شرعی بتاتے ہیں، تجربات نہیں۔ چنانچہ یہی سوال جب ایک عربی ملک کے دارالافتاء سے کیا گیا تو ان کا جواب تھا ”ہمارے علم کے مطابق شریعت میں اس عمل کی کوئی بنیاد نہیں ہے، اور تمام بھلائی سنت نبوی ﷺ کی پیروی میں ہے“ ایک مفتی کے لیے اس سے زیادہ خوبصورت جواب اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ کسی بے دلیل عمل کے بارے میں اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہے کہ میرے پاس اس بارے میں کوئی علم نہیں۔

سو لوگوں کو متاثر کرنے یا اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے روایتی واعظوں کی طرح من گھڑت باتیں، خواب اور تجربات بیان کرنے سے گریز کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر آپ کے بارے میں بھی کوئی یہ کہے کہ

منبر پر اگر باتیں نہ چھانٹے تو کرے کیا
دنیا کے بد و نیک سے بیکار ہے واعظ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments