کتاب زندگی اور ماضی کی یادیں


ہماری پیدائش سے پہلے کے زمانے میں یادیں بلیک اینڈ وہائٹ تصویروں میں محفوظ ہوا کرتی تھیں۔ اپنا کوئی محبوب رشتہ زندگی میں یا موت کے بعد دور جائے اور اس کی یاد ستائے تو ایلبم کھول کر اس کی تصویر کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ لیا جاتا تھا۔ وہ وقت تھا ہمارے دادا دادی، نانا نانی اور ان کے والدین کا ۔ ہماری والدہ کو بھی اس دنیا میں وقت بہت ہی کم ملا تھا، اٹھائیس کی تھیں تو بلاوا آ گیا، سو ان سے بھی ملاقاتیں کچھ اسی طرح ہو سکیں۔

پھر ایک وقت آیا جب یادوں کو رنگین تصویروں اور شادی کی فلموں میں قید کیا جانے لگا، یہ دور بڑوں کے ساتھ ساتھ ہم نے بھی اپنے بچپن میں دیکھا ہے، جب کسی بزرگ کی یاد ستاتی تو ہم شادی کی ویڈیو لگا کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جایا کرتے تھے۔ میں نے اپنے دادا کو ان کے انتقال کے بعد اپنی بڑی بہن کی شادی کی ویڈیو میں بار بار ریوائنڈ کر کے دیکھا۔

میں سوچتا ہوں اگر ہمارے گزشتہ صدی کے مرحومین کی اس دنیا میں واپسی ہو جائے تو کتنے حیران ہوں گے۔ جو ماں پچوں کو فیڈر پیتا چھوڑ گئی تھی آج کتنی خوش ہو گی کہ کون فرشتہ صفت عورت تھی جو خود غیر شادی شدہ رہ کر قربانی دے گئی، جس نے اپنی زندگی اور آرام بھلا کر بچے اتنے بڑے کر دیے۔

سائنس کی ترقی ایسی کہ سب ششدر رہ جائیں۔ اے ٹی ایم مشین ہو یا ڈرون کے ذریعے کھانے کی ڈیلیوری، خلائی جہاز ہو یا سمارٹ فون، یا پھر ان میں موجود جی پی ایس سسٹم، مصنوعی ذہانت کی تحقیقات میں کامیابی ہو یا انٹرنیٹ کی ترقی، مرحومین کی عقل دنگ رہ جائے۔

ایک ملک کو دوسرے ملک سے سمندر کے ذریعے ایسے ملا دیا گیا ہے کہ سفر کے دوران پانی کے ہونے کا احساس تک نہ ہو اور سمندر کراس ہو جائے۔ فرانس سے برطانیہ کا سفر اس کی مثال ہے۔

کبھی کبھی ماضی میں جانا کتنا اچھا لگتا ہے، نا آسودہ خواہشات کو خیالوں میں ہی آسودہ کر لینا، ٹوٹے ہوئے دل کو وقتی طور پر جوڑنا، بکھرے وجود کو لمحات کے لئے سمیٹ لینا۔ میرے کچھ اشعار آپ کی خدمت میں پیش ہیں :

دن بھی آئے اندھیرا نہ جائے
ہر سو تاریکی اور خستہ حالی
وقت کو مرہم کیسے مانا جائے
زخم نہ بھرے ہو روح سوالی

کچھ مہینے پہلے ایک معروف اخبار نے ایک خبر شائع کی کہ اب مردوں کی آوازیں سنی جاسکیں گی۔ سرخی ایسی جسے پڑھ کر انسان خبر کی تفصیل کو جاننے کے لئے مجبور ہو جائے، اس لئے اخبار بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہوا۔

یہ سب کیسے ممکن ہو سکتا ہے، آئیں تفصیلات جانتے ہیں۔ آرٹیفشل انٹیلی جنس کی مدد سے ایک ایسا سپیکر تیار کیا گیا ہے جس کے ذریعے ہم وفات پا جانے والوں کی آواز کو سن سکتے ہیں۔ آرٹیفشل انٹیلی جنس یعنی مصنوعی ذہانت، یہ وہ نظریہ اور طریقہ کار ہے جس پر ایک روبوٹ کام کرتا ہے۔ کمپیوٹر پروگرامنگ کے ذریعے مصنوعی طور پر وہ کام کرنا جو ایک انسان کرتا ہے، آرٹیفشل انٹیلی جنس کہلاتا ہے۔ خبر کے مطابق ورچوئل اسسٹنٹ ٹیکنالوجی ایمیزون الیکسا پر ایک نیا فیچر متعارف ہونے جا رہا ہے جس کے ذریعے کسی کی بھی آواز کی نقل کی جا سکے گی۔

ایمیزون کے ’الیکسا اے آئی‘ کے سربراہ سائنسدان کا کہنا ہے کہ آج کل کا دور مصنوعی ذہانت کا بہترین دور ہے جہاں ہم اپنے خوابوں اور سائنس فکشن کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکسا کا نیا فیچر چند سیکنڈوں کی ریکارڈ شدہ آواز سن کر اس کی نقل کر سکتا ہے۔ موجودہ عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے بہت سارے لوگوں نے اپنے محبوب رشتوں کو کھویا ہے، ایسے میں یہ سائنسی کامیابی یادوں کو تازہ رکھنے میں بہت اہمیت رکھتی ہے گو کہ یہ کسی رشتے کا متبادل نہیں۔

ایمیزون نے سالانہ ’مارس کانفرنس‘ کے دوران اس نئے فیچر کا ڈیمو بھی پیش کیا تھا جو ابھی آزمائشی مراحل میں ہے، عام صارفین کے لیے یہ کب تک دستیاب ہو گا، ابھی تک کوئی باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

اس خبر سے ایک اور بات یاد آ گئی ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ واٹس ایپ کا استعمال کرتے ہیں اور ہمارا ڈیٹا محفوظ بھی ہو جاتا ہے۔ آج ہم کسی بچھڑے ہوئے کے ساتھ کیے گئے میسجز کھولیں تو فوری طور پر ایک الگ اور پرانی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جو ہم سے قدرت نے چھین لی ہے۔ کتنا اچھا لگتا ہے وہ سب پڑھتے ہوئے یادوں میں گم ہو جانا۔ جہاں یہ وقتی سکون کا باعث ہے، وہاں خیالی دنیا سے واپسی غم اور پریشانی میں اضافے کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے خواب میں کسی گزرے ہوئے محبت کے رشتے کے ساتھ وقت گزارا جائے اور بیداری کے بعد جینا پھر سے محال ہو جائے۔

حسرتیں یاس زخم محرومی
اور اس دل میں اب بچا کیا ہے
ہر گھڑی بے کلی و بے زاری
اے مرے دل تجھے ہوا کیا ہے

زندگی کی کتاب ایک ایسی کتاب ہے جس کے ورق تیزی سے پلٹے جا رہے ہیں، ہم چاہ کر بھی نہ روک سکتے ہیں اور نہ پلٹے گئے صفحے پر واپس جا سکتے ہیں۔ صرف یادیں رہ جاتی ہیں، بس ہمیں بے چین کرتی ہوئی، پرانے صفحات کی یادیں۔ کوشش کریں اپنا آج اتنا خوبصورت بنا لیں، رشتوں کی قدر کر کے، محبتیں بانٹ کر کہ مستقبل میں جب آج کے صفحات ماضی بن جائیں تو آنکھوں سے وہ آنسو چھلکیں جن میں محبت سے بھری یادیں ہوں، پچھتاوا نہیں۔

وہ نہیں بھولتا جہاں جاؤں
ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments