بڑی گاڑی والوں کی واردات اور بوڑھے پھل فروش کے آنسو


فروٹ شاپر میں ڈالتے ہوئے 72 سالہ پھل فروش نم آنکھوں کے ساتھ اپنی بپتا سنا رہا تھا۔ کہنے لگا گزشتہ روز سامان سمیٹ کر گھر جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ موٹر سائیکل پر دو افراد آئے، اسے مختلف پھل تولنے کو بولا اور ساتھ ہی باتوں میں الجھا کر میری جیب (سائیڈ پاکٹ) سے دن بھر کی جمع پونجی نکال کر لے گئے۔ میں نے اگلے روز ہمسائے سے 2000 روپے ادھار لئے جن کے آج صرف انگور ہی لا سکا ہوں۔ یہ جیب کترے اور چور اچکے نجانے کیوں ہم غریبوں کو بھی معاف نہیں کرتے؟

اس نے مزید کہا کہ چند دن قبل ایک گاڑی پر میاں بیوی آئے اور ایک ہزار روپے کے پھلوں کی خریداری کی۔ انہوں پھل پکڑے اور فوراً ہی گاڑی دوڑا کر لے گئے۔ کہنے لگا میں پھل بیچتے ہوئے 20 روپے سے زیادہ مارجن نہیں رکھتا لیکن جب بڑی بڑی گاڑیوں والے بھی ہمارے ساتھ ایسی ”وارداتیں“ کرتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے کہ حق مارتے ہوئے کسی کمزور کا بھی لحاظ نہیں رکھتے۔ اس بوڑھے کی آنکھ سے آنسو رواں تھے۔ میں نے اسے حوصلہ دیا تو اس کے ضبط کے بندھن مزید ٹوٹ گئے۔

کہتا، محدود آمدن کی وجہ سے جتنا کم فروٹ میں نے رکھا ہوتا ہے، میری سارے دن کی بچت کل ملا کر 500 روپے بھی نہیں بنتی۔ ایک معذور بیٹا ہے جس کی کفالت کے لئے اس عمر میں بھی گرمی سردی سے بے نیاز ریڑھے لگانے پر مجبور ہوں۔ بچے کی معذوری کو ”ماڈل“ بنا کر میں نے بھیک مانگنے کے پیشے کی حوصلہ شکنی کی اور محنت مزدوری کو ترجیح دی۔ لیکن لوگ ہمیں یہ صلہ دیتے ہیں کہ ہماری لاچاری و بے بسی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پھل فروش بوڑھے کی یہ روداد ہمیں اگر اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے پر مجبور نہ کرے تو پھر جان لیجیے کہ ہم اس حد تک بے حس ہو چکے ہیں کہ اپنے کیے پر شرمندہ نہیں ہوتے۔ جیب کترے ہوں یا کسی اور طرز کے وارداتیے، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ مظلوم، مجبور کی آہ اور بددعا، جلد یا بدیر، بہرحال لگتی ضرور ہے، وہ ان کا پیچھا کر رہی ہے۔ کب پکڑ لے، یہ رسی دراز کرنے والے پر منحصر ہے۔ اور جب وہ اس کی گرفت میں آئیں گے تو پھر ان کے لئے پچھتاوا ہی پچھتاوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments