دنیاوی خداؤں کا شکریہ


دنیاوی خداؤں کا شکریہ۔ اس سفر میں میں نے سیکھا ہے ہر داڑھی والا دہشت گرد نہیں ہوتا بلکہ دہشت گرد داڑھی رکھ لیتا ہے۔ ہر حجاب میں لپٹی عورت عزت کے معنی نہیں جانتی۔ بلکہ عزتوں کا کاروبار کرنے والی اکثر عورتیں حجاب لے لیتی ہیں۔ مسلمان قرآن کو قسم کھانے کے لئے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ خوبصورت غلافوں میں سنبھال سنبھال کر اپنے گھروں کی شان بڑھائی جاتی ہے۔ دین کی بات آئے تو ایسے الجھتے ہیں جیسے ہم سے بڑا عالم کوئی نہیں۔

حق کی بات پر بولنا گناہ سمجھتے ہیں۔ اس دین کا تماشا بنانے کا حق ان کو کس نے دیا۔ کیوں مدرسہ میں موجود مولویوں کی ہم دل سے عزت نہیں کرتے۔ کیوں یہ نیم دیندار دین کے سوداگر بنے بیٹھے ہیں۔ کیوں یہ حجاب میں لپٹی ہوئی عورتیں دوسروں پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ کیوں لوگ گناہ کی رات کی صبح بھول جاتے ہیں۔ ہم کیوں برداشت کرتا ہے ایسے لوگوں جو تدریس کے نام پر لوگوں کے گریبانوں میں جھانکتے رہتے ہیں۔ کون ’کب‘ کہاں اور کیسے پھر رہا تھا اس کا حساب ہمارا معاشرہ ایسے لگتا ہے جیسے وہی دربان ہیں دوزخ اور جنت کے دروازے کے۔

ہم کیوں اس روایتی چکی کی میں خود کو پیستے چلے جا رہے ہیں۔ آسان نہیں اس جال کو توڑنا۔ بالکل آسان نہیں ان تمام آوازوں پر اپنے کانوں کو بند کر لینا جو خدا کے خوف سے زیادہ خوفناک لگتی ہو۔ ہم معاشرے کی باتوں سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ لوگ کیا کہیں گے؟ سر پر بڑی سی چادر ڈالیے ہوئے ایک عورت آپ کو درس دے رہی ہے اور تھوڑی ہی دیر بعد کسی اور کو مخاطب کر کے کہتی ہے۔ سنو! یہ جو روز نیا جوڑا پہن کے آتی ہے اس کا بھی کوئی آگے پیچھے ہے مجھے تو اس کا چال چلن بالکل ٹھیک نہیں لگتا۔

اس کا اس قدر خوشبو لگانا درست نہیں۔ پتا تو کرنا کون سی خوشبو لگاتی ہے؟ وہ جو دین تمہاری بہو ’بہن اور بیٹی کو پردے میں رہنے کا حکم دیتا ہے۔ وہی دین دوسروں کی بہن بیٹیوں کا بھی ہے۔ ان کی چادریں کیوں کھینچی جاتی ہے۔ کیوں دین کے بیوپاری یہ نہیں سوچتے کہ وہ خدا نہیں۔ کیوں لوگ داڑھیوں اور پردوں کا غلط استعمال کرتے ہے۔ دین کو اس قدر مشکل بنا دیتے ہیں کہ سننے اور دیکھنے والا ڈر جائے! بھاگ جائے! فرار کا وہ راستہ اختیار کرے۔

ایسا رستہ جہاں وہ بھول جائے دین کے ان احکامات کو جو انسان نے اپنی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے توڑ موڑ کر دنیاوی سلطنت قائم کر رکھی ہو اور بغاوت کا یہ رستہ اسے دوزخ میں جلنے سے آسان لگے۔ ایک بہت ہی دیندار گھر سے تعلق رکھنے والا انسان جب اس معاشرے میں نکلتا ہے۔ اپنے نفس کی تسکین اور اس ہو کہ عالم کو سمجھنے کے لئے تو معاشرہ اور دین کے سوداگر آپ کو ایسا سبق دیتے ہیں کہ آپ منتشر ہو کر بکھر جاتے ہیں۔ وقت سے تھوڑا زیادہ بھوکے رہے روزہ باطل‘ حد سے زیادہ جھکے رکوع نہیں ہوا ’نماز میں ہوا سے دوپٹہ سرکا نماز باطل‘ اپنی بیوی حجاب میں ساتھ بیٹھی ہے مگر دوسرے کی بے پردہ بیٹی پر نظر پھر پردے والی عورت کیوں نہ سوچے بے پردگی کے بارے میں کیونکہ عورت تو ہمیشہ اچھا لگنا چاہتی ہے۔

یہ معاشرہ عورت کو کس معیار پر تول رہا ہے۔ کیوں توڑ رہا ہے؟ یہ وہی تو رنگ ہے جو یہ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ پھر کیوں انگلیاں اٹھاتے ہیں نہ خود جیتے ہیں نہ جینے دیتے ہیں۔ کیوں! کیوں یہ لوگ دنیاوی خدا بن کے بیٹھے ہیں۔ دائیں بائیں کے فرشتوں سے زیادہ نظر گاڑھے ہوئے۔ ایک لفظ ’ایک جملہ کتنے گھروں کی تباہی کر گزرتا ہے نہیں جانتے یہ پیشہ ور مولوی یہ چادروں میں ملبوس معصوم دیکھنے والی خنجر سے زیادہ تیز دھار زبان والی خواتین جو کاش بولنے سے پہلے یہ سوچیں کہ خدا ہے جو سب کچھ دیکھ رہا ہے۔

وہ میرا ہم سب کا رب ہے۔ وہ سب کا مالک و خالق ہے۔ بدصورتی میں چھپی دل کی خوبصورتی کے راز جاننے والا۔ وہ انسان کی بے قراری اور بے چینی کا راز جاننے والا۔ خوف صرف خدا کا ہونا چاہیے۔ میں غلط ہو یا صحیح ہو یہ میرا اور میرے پروردگار کا معاملہ ہے۔ آج مجھے صرف اپنے خدا کا خوف ہے۔ اس خدا کا جو ستر ماؤں سے زیادہ شفیق ہیں۔ کردار اور اعمال کے تضاد سے بہت آگے ان تمام لوگوں کا شکریہ جنہوں نے مجھے میرے رب کی پہچان کروائی یہ ٹھوکریں یہ اذیت اگر میں نا سہتی تو شاید میں بھی آج دوسروں کو خوش کرنے کے لیے دین مسلط کر کے زندگی گزار رہی ہوتی اور دوسروں کو ان آنکھوں سے دیکھتی کہ لوگ دین کے مالک کی بجائے مجھ سے ڈرتے۔ کردار اور زبان اعمال کے ترازو میں چھوٹے پڑھ جاتے ہیں جب انسان خود کو سب سے افضل اور طاقتور محسوس کرنے لک جاتا ہے۔ غلط کہ صحیح نہیں جانتی! بس آج ایک پرانی تصویر دیکھ کر جو دل نے کہا لکھتی گئی۔ آپ کو بنانے میں معاشرہ بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ خدا کے لیے دین کے نام پر کاروبار نہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments