اور انہوں نے مجھے انفرینڈ کر دیا


لاہور کے ایک قدرے معروف موٹیویشنل اسپیکر اور کالم نویس سے فیس بک دوستی کی درخواست ملی تو ان کی وال وزٹ کرنے کے بعد قبول کر لی۔ میں ان کی ویڈیوز اور کالم گاہے بگاہے دیکھتا رہتا تھا۔ یہ خود کو قاسم علی شاہ صاحب کا شاگرد کہتے ہیں۔

وہ اکثر اپنی ویڈیوز اور کالم میں ”اسلامی ٹچ“ دیتے پائے جاتے۔ ایک دن ان کے اچھے اخلاق پر ویڈیو دیکھی اور اس پر کالم بھی پڑھا بڑی خوشی ہوئی۔ انہوں نے اچھی اخلاقیات کا زبردست پرچار کر رکھا تھا۔ وہ دوسروں پر اس ضمن میں تنقید بھی کرتے رہتے ہیں۔

ایک دن ان کی مہنگائی کے خلاف پوسٹ آئی جس کی آخری لائن میں انہوں نے تاجروں کو ایک گالی لکھی ہوئی تھی۔ یہ دیکھ کر میں اس لیے حیران نہیں ہوا کہ ”اسلامی ٹچ“ اکثر عمل کے میدان میں اسلامی ”ٹُچ“ ہی نکلتا ہے۔

میں نے واہ واہ کے کمنٹس کے درمیان اپنے کمنٹ میں ان سے مؤدبانہ گزارش کی کہ جناب والا آپ جیسوں سے تو ہم سیکھتے ہیں۔ آپ تنقید کو اخلاقی حدود میں رکھتے ہوئے اختلاف رائے کے اظہار کے نا صرف قائل ہیں بلکہ اس کا مذہبی تناظر میں پرچار بھی فرماتے ہیں مگر برا نہ منائیے گا۔ یہ گالی؟

اور عین توقع کے مطابق انہوں نے تاویل کرتے ہوئے کہا ”تو اور عوام دشمنوں سے کیا میں محبت کا اظہار کروں“ ۔ عرض کیا نہیں جناب اس طرح نا صرف آپ کے تبلیغ کردہ عقائد کی نفی ہو گی بلکہ جو لوگ آپ کو فالو کرتے ہیں معذرت کے ساتھ انہیں اس سماجی برائی کا جواز بھی مل جائے گا۔ انہوں نے کہا عوام کی زندگی اجیرن بنانے والوں کے لیے کوئی رعایت نہیں۔ میں نے عرض کی جی بہتر جناب میرا کام صرف پیغام دینا ہی تھا۔

پھر چند دن کے بعد ان کی ایک ویڈیو آئی جس کے تھمب نیل میں کیپشن تھی کہ دعا قبول ہونے کی گارنٹی۔ میں نے ویڈیو دیکھی تو انہوں نے کہا کہ میں ہر دعا قبول ہونے کی گارنٹی دیتا ہوں کہ دعا کرتے وقت آپ صدقہ کر دیں۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلا دیں، کسی ضرورت مند کی مدد کر دیں وغیرہ۔

میرے طالبعلمانہ ذہن میں پھر سوال پیدا ہوا اور میں نے عرض کی کہ کیا یہ گارنٹی قرآن و سنت سے لی گئی ہے کیونکہ آپ نے ریفرنس نہیں دیا تو براہ کرم یہ بتا دیجیے کہ کیا اللہ نے رسول اللہ ص کے ذریعے یہ گارنٹی ہم تک پہنچائی ہے۔ اگر ہاں تو بتائیے کہاں ثبت ہے اگر نہیں تو انتہائی احترام کے ساتھ جس دعا کی گارنٹی دعا قبول کرنے والے نے نہیں دی آپ کیسے دے سکتے ہیں؟

اس پر انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کو بھی گارنٹی دیتا ہوں۔ آزما کر دیکھ لیجیے۔ میں نے عرض کی حضور کم ازکم دو دفعہ زندگی میں یہ آزما کر دیکھ چکا دعا قبول نہیں ہوئی۔ اس پر ان کا جواب تھا۔ خدا کی مرضی۔ میں نے عرض کی یہی تو میں استدعا کر رہا ہوں۔ جب خدا نے ہی مرضی کرنی ہے تو آپ کی گارنٹی۔ چہ معنی وارد؟ اس پر اعلی حضرت یہ کہہ کر مجھے ان فرینڈ کر گئے کہ آپ اپنی بے یقینی اپنے پاس رکھیں۔

موٹیویشنل سپیکرز کی دنیا اس لیے مجھے لبھاتی نہیں کہ یہ ہم سے کہتے ہیں ان کی چکنی چپڑی باتیں ان کے کانوں سے سنی جائیں۔ ان کے بتائے ہوئے ماورائی مناظر ان کے دیدوں سے بینا کیے جائیں۔ اور ان کے بنائے ہوئے کاغذ کے پھول ان کے نتھنوں سے سونگھے جائیں۔ ہاں البتہ ان کے سیشن میں روپیے اپنی جیب سے دیے جائیں۔

ٹھیک ہے چلے گا کہ یہاں سب چلتا ہے مگر میرے جیسے ”بے یقین و بے ایمان“ لوگوں کے لیے زیادہ بڑا مسئلہ تب بنتا ہے جب ان کے کان میں کوئی کہتا ہے کہ اسلامی ٹچ دے دیں اور یہ اسلامی ٹچ دینے کے بعد ہر کسی سے نعرہ مستانہ کی امید رکھتے ہیں لیکن اگر کوئی اپنا دماغ ذرا سا استعمال کرنے کی کوشش کرے تو اسے برداشت نہیں کرتے کیونکہ برداشت، تحمل، اختلاف رائے وغیرہ کے اقوال بکتے ہیں اعمال نہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments