کرانچی والا صحافی اختر بلوچ بھی چلا گیا


 

کراچی کی تاریخ، ادب، علم، سماج، خواجہ سرا سمیت لیاری تک ہر پہلو پہ ریسرچ کرنے والا محقق، صحافی اختر بلوچ ہم سے دور چلا گیا۔

یہ اس زمانی کی بات ہے جب حیدرآباد پریس کلب سندھ کا سیاسی ہائیڈ پارک تھا کراچی پریس کلب کے سامنے ابھی مظاہروں کا رواج نہیں پڑا تھا اور نہ ہی ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں کسی پریس کلب کا رواج تھا حیدرآباد پریس کلب کے سامنے صبح سے شام تک احتجاجی مظاہروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتا تھا

ایک دن پریس کلب کے سامنے بی بی سی کا رپورٹر علی حسن ایک نوجوان کا تعارف کرواتے ہوئے کہا یہ میرپور خاص کا مکرانی اختر بلوچ کے نام سے جانا جاتا ہے ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ ہیں، اب شکیل صاحب کی فرمائش پر یہاں صحافت کریں گے، بس اختر بلوچ سے وہ پہلا تعارف تھا، اس نے کائنات اخبار جوائن کی ہم نے ساتھ ہی صحافت کی، دیکھتے ہی دیکھتے وہ حیدرآباد کا ہر دل عزیز صحافی بن گیا۔

انتہائی زندہ دل اور خوش مزاج اختر بلوچ ایک دن حیدرآباد پریس کلب کے فکشن میں کمپیئرنگ کر رہا تھا حیدرآباد کا ایس ایس پی شاید مظہر جان تھا، اس نے بڑی فخر سے کہا کہ صحافیوں کے مسئلے ہوں تو بتاؤ۔ اس پر اختر بلوچ نے کہا کہ ہمارے صحافیوں کا ایک مسئلہ ہے، یہ جو روڈ پر بجلی کے کھمبے لگے ہوئے ہیں، رات کے وقت ہم صحافیوں کے آگے بیچ روڈ پر آ جاتے ہیں، اور ہم ان سے ٹکرا جاتے ہیں۔ پولیس والوں کو (پارت) کردے کہ رات کو تھانے کے بجائے گھر پہنچا کے آئیں یہ سن کر ہال میں قہقہے گونج اٹھے۔

اختر بلوچ کی روح کو میرپور کے بعد حیدرآباد میں بھی چین نہیں آیا، ایک دن حیدرآباد کو چھوڑ کر کراچی آ کے بسایا۔ 2005 میں بھی کراچی آ گیا، ایک دن کراچی پریس کلب کے لان میں مجھ سے کہا انگریزی سیکھنے کے لئے داخلہ لو، میں نے کہا اس عمر میں! میری بات پر ہنستے ہوئے کہا کہ پڑھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ میں نے انگریزی سیکھنے کے لیے پی ای سی سی میں داخلہ لیا اور جب پڑھنے کلاس میں گیا تو بچے ٹیچر سمجھ کر کھڑے ہو گئے، میں جا کے بینچ پر بیٹھا تو بچے زور زور سے ہنسنے لگے، مگر میں نے ان کی پر وہ نہیں کی اور پڑھنے پر توجہ دی۔

اختر بلوچ کچھ عرصے میں کراچی کا بہترین صحافی بن کر سامنے آیا، اس نے کراچی کے عمارتوں اور تاریخ پر جو تحقیق کی، ڈان ڈاٹ کام میں جو اسے نے لکھا، اس کو کتاب کی شکل دی۔

میں سمجھا ہوں وہ بہت بڑا کام ہے اس نے کراچی کے شہریوں کو انگریزی اور اردو میں سمجھایا کہ مولوی مسافر خانہ ہے یا وہ مولچند مسافر خانہ ہے۔ اس نے کراچی کی عمارتوں اور واقعات پر ایک سچا تحقیقی مورخ بن کر لکھا، اور نئے سرء سے تاریخ لکھی۔

اختر بلوچ لیاری نے گینگ وار پر بہت بہترین لکھا۔ شیرو دادا سمیت بہت سے پروفائل لکھے۔ اس نے کراچی کے معمار پارسی پر اور یہودیوں پر لکھا۔ نیپئر روڈ پر لکھا۔ مطلب سارے کراچی پر لکھا۔ کراچی کی نئی پہچان کروائی۔

کراچی پریس کلب میں وہ ہمیشہ لکھتے اور پڑھتے نظر آتے۔ ہر اتوار کو اختر بلوچ ریگل چوک یا فیریئر ہال میں کتابوں کے بازاروں میں نظر آتے تھے، ہمیشہ نئی نئی کتابیں پڑھنے کی صلاح دیتے تھے۔

آج صبح جو آنکھ کھلی تو اس کی وفات کی اطلاع ملی، آنکھ بھر آئی، دل نے کہا بڑی زور سے چیخ کر کہوں کہ اختر جانے میں اتنی جلدی کرتے ہیں کیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments