یوکرین: متواتر بمباری کی زد میں شہر سے نیند کوسوں دور
اینڈرو ہارڈنگ - بی بی سی نیوز، مائکولیو
مائکولیو میں پہلی رات ہمیشہ سب سے زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ اس یوکرینی شہر پر فروری میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے متواتر روسی بمباری کی وجہ سے سونا تقریباً ناممکن ہے۔
آپ کا ذہن دوڑنے لگتا ہے کہ دھماکہ کتنی دور ہوا تھا، کیا یہ راکٹ تھا یا میزائل، اور دوسری بار کھڑکیاں کب بجیں گی اور ہوائی حملے کے نتیجے میں شروع ہونے والے سائرن کی آواز کب تک سنائی دے گی۔
لیکن اگر میری طرح کے وزیٹر کو جو جنگ شروع کے بعد تین بار اس شہر آ چکا ہو سونے میں مشکل پیش آتی ہے تو ان لوگوں کا کیا ہوگا جو یہاں رہ رہے ہیں اور شاید جنگ چھڑنے کے بعد 20 راتیں ہی ایسی گزری ہوں جب کوئی دھماکہ نہ سنائی دیا ہو۔
ہماری ہوٹل کی منیجر نے گذشتہ ہفتے ایک صبح کہا، ’نیند؟ زیادہ نہیں۔‘ مارچ میں وہ زیادہ توانا اور چست تھیں جب وہ مہمانوں کو بم سے بچاؤ کے لیے بنایا گیا عارضی شیلٹر دکھا رہی تھیں۔
مگر اب ان کا چہرہ ان کی تھکاوٹ کی چغلی کھا رہا تھا جو شہر پر مسلسل بمباری کی وجہ طاری تھی۔
انھوں نے کہا، ’میرے گھر میں تہہ خانہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس چھپنے کی جگہ نہیں۔ ہم بس اندھیرے میں لیٹ جاتے ہیں۔ کل رات کے دھماکے سب سے قریب ہوئے تھے، صرف چند گلیاں دور۔‘
لوگ لاشعوری طور پر اب ہر اس آواز پر چونک اٹھتے ہیں جو کسی میزائل یا جہاز سے ملتی جلتی ہو۔
ایک کیفے کی مالک 60 سالہ گیلا چاوچاویدزے کا کہنا تھا، ’میں؟ میں جلدی سونے کی کوشش کرتی ہوں۔ شام کے 7 یا 8 بجے۔ اس طرح اگر آپ خوش قسمت ہوں تو سونے کے لیے چند گھنٹے مل جاتے ہیں۔‘
دھماکے بالعموم آدھی رات کے بعد شروع ہوتے ہیں۔
بعض اوقات راکٹ، بم اور میزائل کسی ہدف پر پھینکے جاتے ہیں مگر اکثر اوقات چاہے حادثاتی طور پر یا جان بوجھ کر یہ آبادیوں پر گرتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے کے دوران روسی بمباری میں نئی شدت آئی ہے اور کئی حملے دن کو بھی کیے گئے ہیں۔
مائکولیو میں فوجی ترجمان کیپٹن دمترو پلیتنچک نے مجھے بتایا کہ فروری میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک روسی بمباری میں 130 شہری ہلاک اور 589 زخمی ہو چکے ہیں۔ انھوں نے ہم صحافیوں کے ایک گروپ کو حفاظتی جیکٹیں اور ہیلمٹ پہنے رکھنے کا مشورہ بھی دیا۔
اٹھاون سالہ ڈینٹسٹ الیگزینڈر یاکووینکو باہر گلی میں بم پھٹنے کے بعد اپنی کچن ٹیبل سے شیشے کے ٹکڑے صاف کرتے ہوئے حیران تھے کہ وہ بچ کیسے گئے۔
ان کا کہنا تھا، ’میں اس کی وضاحت نہیں کر سکتا۔ میں کیونکر (زندہ) ہوں۔ ہر رات سائرن بجتا ہے۔ مگر کسی وجہ سے پچھلی رات میں نے اپنے بیڈروم سے پرے اپارٹمنٹ کے دوسرے حصے میں جانے کا فیصلہ کیا۔‘
یہ کہہ کر انھوں نے بم کا وہ ٹکڑا اٹھایا جس سے وہ بچ گئے تھے۔
اتنے میں پڑوسن اوگلا بھی مدد کو آ گئیں۔
انھوں نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا، ’میں اپنے پوتے سے کیا کہوں؟ ایک رات وہ نیند سے اٹھا اور روتے ہوئے مجھ سے کہا، ’دادی میں جینا چاہتا ہوں۔‘
مصیبت کی اس گھڑی میں مائکولیو کے کچھ لوگ مذہب کا سہارا لے رہے ہیں۔
67 سالہ سلطانہ خرلانووا کا کہناتھا، ’یہ سب خدا کے ہاتھ میں ہے۔ جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا۔‘ چار گھنٹے پہلے ہی ایک میزائل گرنے سے ان کے آنگن میں گڑھا پڑ گیا تھا، مگر ان کا گھر معجزانہ طور پر بچ گیا تھا۔
کئی لوگ اس چیز میں سکون تلاش کر رہے ہیں جو جنگ کے پہلے مہینے میں مائکولیو میں بند تھی۔
ایک کیفے کی مالک گیلا چاوہاوید نے کہا کہ ’میں اب بہت سے لوگوں کو شراب پیتے ہوئے دیکھتی ہوں، حتٰی کہ صبح کے وقت بھی۔ میرے خیال میں اس پر پابندی نہیں ہٹانی چاہیے تھے۔ جنگ کے زمانے میں یہ اچھی چیز نہیں ہے۔‘
شدید شراب نوشی یوکرین کے بہت سے حصوں میں زندگی کی ایک حقیقت اور ایک مسئلہ ہے۔ میں نے ایک شام ایک مدہوش فوجی کو ایک ہوٹل کی سیڑھیوں پر لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا، اور ایک دوسرے کیفے میں دو بڑی عمر کے آدمیوں کو بلند آواز میں بحث کرتے ہوئے پایا۔
مگر دمتری وُلوشچینکو جو مائکولیو میں شراب کشید کرنے کے ایک کارخانے کے مالک ہیں کہتے ہیں کہ ’(پابندی ہٹنے کے بعد سے) ہمارے مسائل میں کوئی اضافہ مجھے نظر نہیں آتا۔ اگر آپ خود پر قابو رکھ سکیں تو شراب آپ کی مددگار ہے۔‘
رات کے وقت بمباری کے ڈھائی لاکھ مکینوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر جو نقصان دہ اثرات پڑ رہے ہیں اس پر سب متفق ہیں۔ جنگ سے پہلے شہر کی آبادی پانچ لاکھ تھی۔
شہر کے ایک ڈاکٹر الیگزینڈر دیمیانوف جو بہت سے متاثرین کا علاج کر چکے ہیں کا کہنا تھا کہ ’اس سے ہماری نیند اور خواب خراب ہوتے ہیں۔ یہ لوگوں کے اعصابی نظام کو کمزور کرتی ہے جس سے خوف اور گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے۔ بہت مشکل صورتحال ہے۔ میں رات میں صرف بم دھماکوں کی وجہ سے نہیں جاگتا بلکہ فون کالیں بھی آتی ہیں۔ جب میں سو جاتا ہوں تو مجھے جنگ اور تباہی کے خواب آتے ہیں۔‘
مگر ایسے بھی لوگ ہیں، مائکولیو میں نہیں، جو رات کے وقت دھماکوں کی آواز پر خوش ہونا سیکھ رہے ہیں۔
تقریباً 30 میل دور جنوب مشرقی شہر خرسون روسی قبضے میں ہے۔ مگر حالیہ ہفتوں میں یوکرینی فورسز نے مغرب کے فراہم کردہ توپ خانے اور راکٹوں کی مدد سے وہاں پر موجود روسی ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔
خرسون میں چھپے ایک یوکرینی صحافی کونسٹینٹِن راژونکو کا کہنا ہے، ’اگر ہمیں دھماکہ سنائی دے تو ہم خوش ہوتے ہیں، کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ ہماری فوج ہمارے قریب آ رہی ہے۔ ہم آزادی کا انتظار کر رہے ہیں۔‘
- مرنے سے قبل چند افراد کو اپنے وہ پیارے کیوں دکھائی دیتے ہیں جو پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں؟ قریب المرگ افراد کے تجربات - 18/04/2024
- یوکرین جنگ میں 50 ہزار روسی فوجیوں کی ہلاکت: وہ محاذِ جنگ جہاں روسی فوجی اوسطاً دو ماہ بھی زندہ نہیں رہ پا رہے - 18/04/2024
- دنیا کے دوسرے مصروف ترین دبئی ایئرپورٹ کی کہانی: ’یہاں حالات بدترین نہیں بلکہ خطرناک ہیں، ہمیں جانوروں کی طرح رکھا گیا ہے‘ - 18/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).