موبائل فون نے کیسے لاہور سے اغوا ہونے والی حاضر دماغ لڑکی کی جان بچائی

شاہد اسلم - صحافی، لاہور


 

اغوا

18 جولائی کی شام پانچ بجے کا وقت تھا جب شمائلہ لاہور کے پوش علاقے ڈیفینس کے فیز فائیو میں دفتر سے چھٹی کے بعد گھر جانے کے ارادے سے باہر نکلیں۔

وہ ہر روز دفتر سے نکلتے ہی اپنے خاوند کو فون پر ایک پیغام بھیج کر مطلع کر دیتی تھیں کہ وہ گھر کے لیے روانہ ہو رہی ہیں۔ اس دن بھی انھوں نے ایسا ہی کیا لیکن اس کے بعد کے لمحات نے اس دن کو غیر معمولی بنا دیا۔

شمائلہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان پر کیا بیتنے والی ہے لیکن اس دوران ان کی حاضر دماغی اور جدید ٹیکنالوجی اس طرح ان کے کام آئے کہ وہ ایک خوفناک صورتحال سے بال بال بچ گئیں۔

اس وقت ان کے ذہن میں اپنی بیمار والدہ کی تصویر گھوم رہی تھی جن کی سرجری ہونے والی تھی۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ گھر جاتے ہی اپنے شوہر سے کہیں گی کہ ایک دن بعد ان کو والدہ کے گھر چھوڑ آئیں۔

اس سوچ میں ان کو خبر ہی نہیں ہوئی کہ چند نامعلوم افراد کچھ ہی فاصلے سے ان پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ اسی سوچ میں گم شمائلہ نے معمول کی طرح پارکنگ میں کھڑی گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا، اپنا ہینڈ بیگ، لیپ ٹاپ رکھا اور دروازہ بند کرنے کے بعد ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئیں۔

اس وقوعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جیسے ہی شمائلہ اپنی گاڑی میں بیٹھتی ہیں، ایک سفید رنگ کی گاڑی ساتھ آ کر رکتی ہے۔

شمائلہ کی ایک غلطی جس کا ملزمان نے فائدہ اٹھایا

شمائلہ اس گاڑی کی موجودگی سے بے خبر گاڑی میں بیٹھ کر ایک ایسی غلطی کرتی ہیں جس کا فائدہ ملزمان اٹھاتے ہیں۔ یعنی گاڑی کو لاک نہ کرنا۔

دوسری گاڑی میں سے ایک شخص کو شمائلہ کی گاڑی کے قریب آتے اور پھر اچانک پچھلا دروازہ کھول کر اندر بیٹھتے دیکھا جا سکتا ہے جو فورا ہی دروازہ بند کر لیتا ہے۔

شمائلہ گھبرا کر اپنا دروازہ کھولتی ہیں تو ایک دوسرا شخص ان کی جانب لپکتا ہے جو ان کی ٹانگوں کو پکڑ کر ان کو پچھلی نشست پر دھکیل دیتا ہے اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی بھگا دیتا ہے۔ سی سی ٹی وی کی فوٹیج کے مطابق جس گاڑی سے ملزمان اترے تھے، وہ بھی ان کے پیچھے ہی روانہ ہو جاتی ہے۔

کسی بھی انسان کے لیے یہ ایک خوفناک لمحہ ہوتا ہے جب اوسان خطا ہو جاتے ہیں اور ذہن کام کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے لیکن ایک ایسے وقت میں شمائلہ نے کچھ ایسا کیا جس کی اغواکاروں کو قطعی توقع نہیں تھی۔

ان دردناک لمحات کو بیان کرنا آج بھی شمائلہ کے لئے آسان نہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شمائلہ احسن نے بتایا کہ جس وقت دونوں ملزمان نے ان کو سر اور گلے سے دبوچ کر گاڑی کی پچھلی نشست پر لٹایا، ان ہیجانی لمحات میں بھی اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے انھوں نے اپنا فون گاڑی کی سیٹ کے نیچے چھپا دیا۔

شمائلہ کے مبینہ اغواء کار ان سے مسلسل پوچھتے رہے کہ فون کہاں ہے۔ شمائلہ نے کہا کہ ان کا فون گاڑی سے باہر گر گیا تھا۔

خاوند کے نام پیغام جس نے شمائلہ کی جان بچا لی

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شمائلہ نے بتایا کہ ’جب انھوں نے مجھے پیچھے دھکیلا تو فون میرے ہاتھ میں تھا جو میں نے سیٹ کے نیچے کر دیا یہ سوچ کر کہ یہ فون میری جان اور عزت بچا سکتا ہے۔‘

’اس وقت اللہ نے ہی میرے ذہن میں یہ بات ڈالی تھی کہ ایسا کروں جس کی وجہ سے ہی بعد میں میرا خاوند سے رابطہ ہوا۔‘

شمائلہ بتاتی ہیں کہ موقع ملتے ہی انھوں نے سیٹ کے نیچے چھپائے فون سے اپنے خاوند کو لائیو لوکیشن بھیجی اور ایک مختصر پیغام لکھ کر بھیجا۔ یہ پیغام تھا ‘help’۔

یہی وہ حاضر دماغی اور ٹیکنالوجی کا استعمال تھا جو شمائلہ کو بچانے میں معاون ثابت ہونے والا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں شمائلہ کا کہنا تھا کہ ’کال بھی میاں کو اسی لیے ملائی تھی کہ اگر صرف لوکیشن سے مدد نہ ملے تو وہ گاڑی کے اندر ہونے والی گفتگو سن کر مجھے بچانے کے لئے اقدامات کر سکیں۔‘

شمائلہ کے شوہر جو پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اس روز معمول کے مطابق اپنے دفتری کاموں میں مصروف تھے۔

جب ان کو اپنی بیوی کا پیغام ملا تو ان کے کان کھٹکے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’ابھی میں میسج پڑھنے والا تھا کہ شمائلہ کی فون کال آئی۔ میں نے ہیلو کیا تو دوسری جانب اس کے رونے کی آواز آرہی تھی۔ وہ کسی سے بات کر رہی تھی کہ اسے چھوڑ دیں، گھر جانے دیں۔‘

یہ بات چیت سن کر ان کو لگا کہ شاید ان کی بیوی سے گاڑی کو کوئی حادثہ پیش آیا ہے جس کے بعد کوئی بدمعاش شخص ان سے جھگڑ رہا ہے۔

احسن نے فوری طور پر اپنے والد اور شمائلہ کے بھائی کو فون کیا جو پولیس میں ایک اہم عہدے پر تعینات ہیں۔ ان کو فون کرنے کے بعد سٹاف کے ایک فرد کو لیکر احسن شمائلہ کے دفتر کی جانب روانہ ہوئے۔ راستے میں بھی وہ فون پر ہونے والی گفتگو سنتے رہے۔

احسن پر اب واضح ہو رہا تھا کہ ان کی بیوی کسی بڑی مصیبت میں آ چکی ہے۔

احسن نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ شمائلہ کے دفتر کے قریب پہنچے لوکیشن سے ان کو معلوم ہوا کہ گاڑی بیدیاں روڈ کی طرف جارہی تھی۔ وہ بھی اس طرف چل پڑے۔

احسن نے بتایا کہ معاملے کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے انھوں نے نواز شریف انٹر چینج سے دو مزدور بھی اپنی گاڑی میں بٹھا لیے۔

احسن کے مطابق گوگل ٹریکنگ سے پتا چلا کہ ملزمان شمائلہ کو نواز شریف انٹرچینج اور فیروز پور انٹر چینج کے درمیان تقریبا 50 منٹ تک گھماتے رہے۔

کسی نے ان کو بتایا کہ ان کا پیچھا کیا جا رہا ہے

اغوا

شمائلہ کے مطابق مبینہ اغواء کار، جو 30-35 سال کی عمر کے تھے، اس دوران ان کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ وہ ان سے سوال کرتے رہے کہ ان کے والد کیا کرتے ہیں۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ شمائلہ اپنے والد کو فون ملائیں۔

پچھلی نشست پر بیٹھے ملزم کے پاس پستول تھا جسے وہ شمائلہ کو ڈرانے کے لیے استعمال کرتا رہا۔

’میں نے کہا میرے پاس تو فون ہی نہیں ہے، میں کیسے فون کروں، پلیز مجھے چھوڑ دیں۔‘

شمائلہ بتاتی ہیں کہ ملزمان کسی سے فون پر رابطے میں تھے۔ ’ڈرائیونگ کرنے والے شخص کو ایک فون آیا جس میں اسے کوئی سمجھا رہا تھا کہ گاڑی میں کچھ ہے جس کی وجہ سے شاید ان کا پیچھا کیا جارہا ہے۔‘

ملزمان کو کون فون کر رہا تھا اور اسے کیسے معلوم ہوا کہ ان کا پیچھا کیا جا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب شاید پولیس کی تفتیش میں واضح ہو سکے۔ لیکن یہ شک ہی شمائلہ کے لیے کافی تھا۔

شمائلہ کے مطابق اس فون کے بعد ملزمان نے ان کا سکارف اتار کر آنکھوں پر باندھ دیا۔

تھوڑی دیر بعد ملزمان ان کو سٹیٹ لائف ہاؤسنگ سوسائٹی کے پاس پھینک کر فرار ہو گئے جہاں ان کے شوہر پہنچے اور ان کو گھر لے آئے۔

لوکیشن آن نہ ہوتی تو اب تک اسے ڈھونڈ رہے ہوتے

شمائلہ اور ان کے گھر والے اسی رات متعلقہ تھانے گئے اور کیس درج کروایا لیکن پولیس کی جانب سے صرف گاڑی چھینے جانے کا سیکشن لگا کر تھانہ ڈیفینس بی میں ای آئی آر درج کر لی گئی۔

پولیس نے شمائلہ کے جسم اور چہرے پر واضح نظر آنے والے تشدد کے نشانات کا میڈیکل تک نہیں کروایا۔

مقدمے کے اندراج کے بعد پولیس نے چار دن تک ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

بی بی سی نے کیس کے تفتیشی افسر غلام رسول سے ان کا مؤقف جاننے کے لئے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ مصروف ہیں۔ دوسری بار انھوں نے کہا کہ وہ میڈیا کو اس معاملے پر جوابدہ نہیں ہیں۔

شمائلہ کے مطابق 26 جولائی کو ان کے والد نے خود پولیس سے رابطہ کیا اور پیشرفت پوچھی تو ان کو بتایا گیا کہ پارکنگ میں موجود گارڈز سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔

اس وقت تک پولیس نے اس مبینہ اغوا کی سی سی ٹی وی فوٹیج تک حاصل نہیں کی تھی۔

پولیس کی مبینہ عدم دلچسپی کے باعث شمائلہ کے والد نے ایک خفیہ ایجنسی سے رابطہ کیا تاکہ ان کی گاڑی کو ٹریس کرتے ہوئے ملزمان کا پتا چلایا جاسکے۔ اسی روز یعنی وقوعہ کے کئی دن بعد شمائلہ کا میڈیکل بھی کروایا گیا۔

شمائلہ کے خاوند احسن نے دعویٰ کیا کہ یہ گروہ اس دفتر کی پارکنگ سے درجنوں گاڑیاں چرا چکا ہے جس کے بعد ایف آئی آرز بھی درج ہوئیں۔

’ہماری اطلاعات کے مطابق اس گروہ نے اب تک 250 سے زائد وارداتیں انجام دی ہیں اور صرف اس سال اس گروہ نے 70 سے زائد گاڑیاں چھینی ہیں۔‘

احسن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پولیس کے اینٹی کار لفٹنگ (اے سی ایل) سکواڈ نے بھی کوئی کوشش نہیں کی اور اگر خدانخواستہ فون کی لوکیشن آن نہ ہوتی تو کیا پتا اب تک اسے ڈھونڈ رہے ہوتے۔‘

شمائلہ کے مطابق نئے تعینات ہونے سی سی پی او لاہور ایڈیشنل آئی جی غلام محمود ڈوگر سے ان کی تفصیلی ملاقات ہوئی ہے جس میں انھوں نے اس کیس کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔

پولیس سے کچھ کوتاہیاں ہوئیں

ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور کامران عادل
ڈی آئی جی انوسٹیگیشن لاہور کامران عادل

ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور کامران عادل بھی شمائلہ سے اس حد تک اتفاق کرتے ہیں کہ ابتداء میں پولیس اہلکاروں سے کچھ کوتاہیاں سرزد ہوئیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور کامران عادل کا کہنا تھا ’جیسے ہی مجھے ابتدائی سست روی کا پتا چلا تو میں نے فورا رابطہ کرکے شمائلہ کا میڈیکل کروایا اور یہ بھی درست ہے کہ اس وقت تک وقوعہ کو گزرے چار روز ہو چکے تھے۔‘

ایک سوال کے جواب میں کامران عادل کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان کے ایف آئی آر میں لگائی گئی دفعات پہ اگر اعتراضات ہیں تو وہ خود ان دفعات کو شامل کروادیں گے جو متاثرہ خاندان سمجھتا ہے کہ لگنی چاہیں۔

کامران عادل کے مطابق ابھی تک واردات میں چھینی گئی گاڑی بازیاب نہیں ہوسکی۔ انھوں نے دعوی کیا کہ اس گروہ کے بارے میں کافی معلومات مل چکی ہیں اور جلد بریک تھرو متوقع ہے۔

یہ گروہ گاڑیاں چھیننے کے علاوہ خیبر پختونخواہ میں پولیس اور دیگر لوگوں کے قتل اور زخمی کرنے میں بھی ملوث پایا گیا ہے۔

کامران عادل کے مطابق چند ماہ میں صرف ڈیفنس لاہور کے علاقے میں 10 کے قریب وارداتوں میں اس گروہ کے ملوث ہونے کے شواہد بھی ملے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ملزمان بہت شاطر کرمنلز ہیں۔ یہ باقاعدہ ریکی کرکے اپنے ٹارگٹ کو نشانہ بناتے ہیں۔ ہمیں اس گروہ کے سنگین وارداتوں میں ملوث ہونے کے واضح ثبوت مل چکے ہیں۔ بہت جلد یہ تمام لوگ ہماری گرفت میں ہوں گے۔‘

کامران عادل کا مزید کہنا تھا کہ کیس حل ہونے کے فوری بعد وہ متعلقہ پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی کریں گے جنھوں نے ابتداء میں اس کیس میں سست روی کا مظاہرہ کیا تھا۔

خوف کے مارے رات کو نیند نہیں آتی

دوسری طرف شمائلہ جنھوں نے خود بھی قانون کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے اب تک خوفزدہ ہیں۔

’مجھے اس واقعے کے بعد خوف کے مارے رات کو نیند نہیں آتی۔ لیکن پولیس کو کوئی پرواہ نہیں کہ ایسے ملزمان کو پکڑ کر قرار واقعی سزا دلوائیں۔‘

احسن کے مطابق پولیس کی ناکامی کی وجہ سے ’اس گروہ کے حوصلے اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ وارداتیں انجام دیتے وقت وہ اپنی شناخت تک نہیں چھپاتے۔‘

نوٹ: اس سٹوری میں شناخت محفوظ رکھنے کے لیے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments