عمران خان اور پختونخوا


آپ پختونخوا کی عوام کو جاہل سمجھیں، ان پڑھ کہہ لیں یا جانگلی کہیں۔ ایک خوبی مانیں گے۔ یہاں کوئی خان اور غریب کا فرق نہیں۔ بڑے بڑے لینڈ لارڈ جب اپنی زمینوں پر کسی کسان سے ملتے ہیں تو پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی طرح، کسان ان کے پیروں نہیں پڑتا۔ بلکہ مٹی سے لتھڑے ہوئے ہاتھ اپنے قمیض سے پونچھ کر خان سے ملاتا ہے۔ وہ کسی کے کہنے اور برادری کو بھی خال خال ووٹ دیتا ہے۔ اس تناظر میں، یہ دیکھئے کہ گزشتہ ستر سالوں میں انہوں نے کسی پارٹی کو مسلسل دو مرتبہ ووٹ نہیں دیا۔ لیکن پی ٹی آئی کو دو مرتبہ اقتدار حوالے کیا ہے۔ اور آئندہ بھی پیشین گوئی ہے کہ یہی پارٹی اقتدار میں آئے گی۔

اس پارٹی میں بھی لوٹے ہیں، رشوت خور ہیں، پینے پلانے والے بھی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود پش اور کی سڑکیں جو اس سے پہلے مسلسل مرمت کی وجہ سے بند ہوتی تھیں، اب کھل گئی ہیں۔ بی آرٹی بغیر سبسڈی کے ستائیس کلومیٹر، ائر کنڈیشنڈ ہائبرڈ بس جس میں وائی فائی اور موبائل چار جنگ کی سہولت موجود ہے، صرف پچاس روپے میں امیر و غریب کو سہولت دیتی ہے۔ صحت کی انشورنس ایسی دی کہ میرے ڈرائیور کا ریڑھی چلانے والا کزن بائی پاس سرجری کے لئے فائیو سٹار ہسپتال آیا، چار لاکھ روپے کی سرجری کروائی، ایک پیسہ جیب سے نہ دیا اور جانے کے لئے ایک ہزار روپے بھی ملے اور یہ صرف اپنے شناختی کارڈ پر ہوا۔ ایک مخالف پارٹی کے مشہور پارلیمنٹیرین ہفتے میں دو دفعہ اپنے شناختی کارڈ سے اسی فائیو سٹار ہسپتال میں مفت ڈائلیسز کرواتا ہے۔ جب وزیر صحت سے پوچھا گیا کہ یہ صرف غریبوں کے لئے کیوں نہ کیا گیا، تو انہوں نے جواب دیا کہ کسی شخص یا خاندان کی مالی حیثیت کے تعین پر اس سے زیادہ خرچہ آتا۔

عمران خان اس وقت بز کشی گیم کا بچھڑا بنا ہوا ہے۔ دائیں بازو والے اسے یہودی، شرابی، نشے باز آر زناکار ڈیکلیئر کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جبکہ لبرلز اور بائیں بازو والے اسے طالبان کا ساتھ اور کٹر مسلا بنا کے پیش کر رہے ہیں۔ اول الذکر کا درد تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ کسی سے کشمیر کی گدی چھنی ہے تو کسی سے حکومت۔ لیکن بائیں بازو والے جو ڈرائیونگ روم کے سیاستدان اور صحافی لاہور اور اسلام آباد میں ہمیں بھاشن دے رہے ہوتے ہیں، وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ طالبان اور مشرف کے دور میں خیبر پختون خواہ میں کیا تباہی پھیلی۔ آدھا صوبہ اور قبائلی علاقہ جات کے شہری گھروں سے در بدر ہوئے۔ قتل ہوئے، سروں کے مینار بنے، چوکوں کو خونی چوک کے نام دیے گئے۔ اس لئے اس بیانئے کو ہمیں تک چھوڑئیے۔ شہباز شریف نے تو القاعدہ سے ڈیل کی تھی کہ پنجاب میں کچھ نہ کریں۔ باقی ان کی مرضی۔

تو دائیں بازو والوں کو عرض ہے کہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا تقرر ہی اس یہودی، جھوٹے اور بدکار حکمران کی آخرت کے لئے کافی ہے۔ اور ثانیہ نشتر ایک لبرل اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے آئی ہیں تو لبرلز بھی بھی آرام سے بیٹھ جائیں۔ اس نے بے نظیر انکم پروگرام سے لاکھوں امیر اور سرکاری افسروں کو نکال دیا۔ کرونا کے دوران صرف ایک ایس ایم ایس پر میرے ڈرائیور کی بیوہ بہن کو بارہ ہزار روپے ملے (اس جنتی حکومت کے دو ہزار نہیں ) ۔ احساس پروگرام اتنا حساس ہے کہ صرف آپ کے شناختی کارڈ سے فوراً آپ کو جواب آ جاتا ہے کہ آپ مزید امداد کے مستحق ہیں کہ نہیں۔ اسی پروگرام کے تحت مصدقہ مستحق لوگوں کو صرف شناختی کارڈ پر رجسٹرڈ کریانے کی دکان سے تیس فیصد رعایت پر سودا مل جاتا اور کریا نے کو اگلے دن اس کی تیس فیصد رقم مل جاتی۔

پنجاب اور کراچی کے لوگ تو ”روٹ“ لگنے کے عادی ہیں جب تیس چالیس وی آئی پی گاڑیوں کا قافلہ چلتا ہے تو سڑکوں پر مسافر رل جاتے ہیں۔ مریضوں کی سانس اکھڑ جاتی ہے اور حاملہ خواتین رکشے میں بچے کو جنم دیتی ہیں۔ یہ کرپٹ پرویز خٹک تین سال تک میرا ہمسایہ رہا۔ روزانہ ہم تقریباً ایک ہی وقت میں گھر سے نکلتے۔ ان کے پیچھے پولیس کی ایک موبائل ہوتی۔ ہم دونوں ریڈ لائٹ پر کھڑے ہوتے۔

میں پشاور کی ایک کالونی حیات آباد میں رہتا ہوں یہاں تقریباً ساٹھ کے لگ بھگ سیکٹر ہیں۔ ہر سیکٹر میں تین چار چھوٹے بڑے پارک ہیں۔ جو پہلے گندگی کے ڈھیر ہوتے تھے۔ اب وہاں نہ صرف ہریالی، پھول اور بینچیں ہیں بلکہ کئی پارکوں میں اوپن ائر جیم ہیں۔ سپورٹس کمپلیکس میں وسیع جیم کے علاوہ ایک بچوں کا اور ایک اولمپک سائز سویمنگ پول ہے۔ اور یہ صرف اس کالونی میں نہیں بلکہ تقریباً ہر ضلع میں ایک ایک سپورٹس کمپلیکس تعمیر ہو چکا۔

پہلے شناختی کارڈ بنوانا ایک عذاب تھا۔ اب آپ آن لائن بنوا سکتے ہیں۔ وہ شوہر جو بیوی بچوں کو بے سہارا چھوڑ کر دوسری شادی کر لیتا تھا، اس کی بیوی اور بچے باپ کی غیرموجودگی میں شناختی کارڈ نہیں بنوا سکتے تھے۔ سڑکوں پر سونے والوں کے لئے پناہ گاہیں بنائی گئیں۔

کبھی ایسا حکمران یا سیاست دان دیکھا ہے جو ٹرک ہوٹل کے باہر بان کی چارپائی پر لیٹ کر سکون کی نیند سو سکتا ہے۔ پناہ گاہ میں دال ساگ کے ساتھ بے سہاروں کے ساتھ لنچ کرتا ہے۔

سٹیزن پورٹل کے ایپ پر میں نے خود بڑے بڑے سیاستدانوں کے گھر کے آگے سے سپیڈ بریکر ہٹوائے ہیں۔ کئی نوجوانوں کو میرٹ پر نوکری نہیں ملی تو اسی ایپ سے ان کو انصاف ملا۔

چلیں آپ کے جھوٹے سچے الزامات کے مطابق یہودی سہی، ڈکٹیٹر سہی، جھوٹا سہی، بے ایمان سہی۔ زناکار سہی۔ لیکن ایک طرف یہ حقیقت بھی دیکھیں کہ میری اور میری گزشتہ نسل نے پاکستان کا بیڑا غرق کیا ہے۔ اس نکمے آدمی کے گرد نئی نسل نے حصار بنایا ہے۔ یہ اس نئی نسل کا کمال ہے جو منہ پھٹ ہے اور اپنا حق جانتی ہے۔ میرے ہم عمر اور دس بیس سال چھوٹے ایمان داری سے بتائیں کہ انہوں نے کتنے الیکشنوں میں ووٹ ڈالا، اپنے گھر والوں کو پولنگ سٹیشن لے گئے ہیں اور اپنے پسندیدہ امیدوار کو امانت و دیانت کی بنیاد پر ووٹ دیا ہے۔

میرا بیٹا جو چھٹی کے دن بمشکل دوپہر سے پہلے آنکھ کھولتا ہے، 2013ء کے الیکشن سے پہلے اس کا شناختی کارڈ ملا۔ الیکشن کے دن صبح سویرے گھر سے نکلا اپنے چالیس پچاس دوست جمع کیے اور پولنگ سٹیشن پر قطار میں کھڑا ہو گیا۔ یہ اسی نسل کا دور ہے اور ہمارا کوئی حق ہی نہیں بنتا کہ ان کے مستقبل کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ یہ نسل نہ صرف صلاحیتوں میں گزشتہ نسل سے کہیں آگے ہے بلکہ سائنس، آرٹس، فنون لطیفہ میں بھی ہم سے کہیں آگے ہے۔

یہ اسلام کو بھی موجودہ زمانے کے تناظر میں سمجھتے ہیں اور ملک کو بھی۔ پختون خواہ نے کبھی کسی پارٹی کو دوسری بار الیکشن جیتنے نہیں دیا (پلیز یہ مینیجڈ الیکشن کے شوشے ابھی چھوڑ دیں۔ وہ ہماری نسل اور ہم سے پچھلی نسل کے جھرلو تھے ) لیکن اسی نسل نے دوبارہ جتوایا۔ یہ نسل پولیس اور فوج کے سامنے بھی کھڑی ہوجاتی ہے اور لوٹوں کے کپڑے اتارنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ یہ اس ملک کو اپنی ماں اور گھر سمجھتی ہے۔ اور اس پر ہاتھ اٹھانے والے ہر ہاتھ کو نہایت بدتمیزی سے جھٹکنا بھی جانتی ہے۔ یہی نسل ان کرپٹ سیاستدانوں کو بیرون ملک بھی ذلیل کرنے سے نہیں چوکتی۔

‎پنجاب میں پہلے کبھی سنا ہے کہ برادری کے علاوہ کسی کا ووٹ پڑا ہو؟ اس نسل نے برادری کا بت توڑ دیا ہے۔ نہتے ہاتھوں بندوقوں اور ڈنڈوں کے آگے کھڑے ہوئے ہیں۔ میں صرف اس نئی نسل کی قدر کر رہا ہوں۔ یہ ان کا حق ہے، یہ ان کا مستقبل ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اکثریت میں ہیں۔ جمہوری حق تو دیں اپنا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments