جنگ میں پہلا نقصان ہمیشہ سچ کا ہوتا ہے


فظ ”بیانیہ“ کا سیدھا مطلب ہے ”بیان کرنا“ ۔ یہ اصطلاح خود بیانیہ کے بارے میں نہیں، بلکہ اس کے بارے میں ہے کہ کچھ کیسے بتایا جاتا ہے، سیاست میں بیانیہ کی طاقت کو اہم قرار دیا جاتا ہے کہ کس مہارت کے ساتھ بیان کردہ ”بیانیہ“ سے سیاسی مخالفین کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ کسی اور کے بارے میں برا بھلا کہنا اور انہیں جتنا ہو سکے، اصل حقائق سے دور رکھنا اتنا ہی قدیم عمل جتنا بنی نوع انسان۔ قدیم روم اور قرون وسطی کے شاہی درباروں میں، بیانیہ کی طاقت سے ہی سازشیں رچائی جاتی تھیں، انہوں نے انسانی تاریخ کے دھارے کو اس سے کہیں زیادہ متعین کیا جس کا آج ہم تصور کر سکتے ہیں۔

بیانیہ منتقل کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ لوگ کیا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کے مثبت اور منفی دونوں اثرات ہو سکتے ہیں۔ شکار بنانے کی اس خواہش میں، شکار کی کہانیاں سنانے کے قابل ہونا، اس تصور میں کہ کوئی صرف شکار کے سامنے سچائی کو تسلیم کرتا ہے : یہ فاشسٹ کی ناکامی کی کلید ہے۔ جمہوری معاشروں میں اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کی حفاظت کا انحصار تجرباتی اعداد و شمار کے ساتھ، بیانیہ کی جنگ کا مقابلہ کرنے کا راستہ تلاش کرنے پر ہے۔ جھوٹا بیانیہ ایک خوفناک کہانی ہے جو ضابطے کے لیے عقلی نقطہ نظر کی مذمت کرتی ہے، جو سیاست کے تمام شعبوں میں مسلسل کام کر رہے ہیں۔

ایک مشہور کہاوت ہے ”جنگ میں پہلا نقصان ہمیشہ سچ کا ہوتا ہے“ ۔ غلط معلومات، جھوٹے بیانیے اور منفی پراپیگنڈوں سے سیاسی سرمایہ کار جھوٹ کا طوفان برپا کرتے ہیں۔ جب ہم سیاسی جھوٹے بیانیے میں حملہ آؤ ر کی طرف دیکھتے ہیں تو ان کا نشانہ اداروں کو اس طرح نشانہ بنانا ہوتا ہے کہ وہ خود کو مظلوم ثابت کرے اور جو ادارہ قانون کے مطابق فیصلہ دے، اسے متنازع بنا دیا جائے۔ کئی برسوں سے ایک ایسا بیانیہ بنایا جاتا رہا ہے جس نے معاشرتی اور اخلاقی اقدار کو پامال اور تقسیم پیدا کردی۔

جو کہانیاں ہم اپنوں میں سناتے ہیں وہ ہمارے اعمال کو کیسے متاثر کرتی ہے؟ جب خود کی پوزیشننگ کی بات آتی ہے تو بیانیے کیا کردار ادا کرتے ہیں؟ ہمیں ایک مختلف بیانیہ کی ضرورت ہے، یہ غلط بیانیہ ہے، ہمیں اپنی تاریخ کو نہیں بھولنا چاہیے۔ یہ وہ جملے ہیں جو ہم عموماً سنتے، لکھتے اور کہتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ جملے مسلسل عروج پر ہیں، خواہ نجی مباحثوں میں ہوں، ٹاک شوز میں یا عوامی جلسوں کی تقاریر میں۔ یہ داستان ہمہ گیر دکھائی دیتی ہے، اس کی ایک وجہ یہ مفروضہ ہو سکتا ہے کہ مسائل صرف اس صورت حل ہوسکتے ہیں جب ہم ان کے بارے میں مختلف انداز میں بات کریں، ایک ایسا خیال جو اشتہارات میں دی جانے والی پیشکشوں سے بھری ہوئی نصف کرہ میں ہی زرخیز زمین تلاش کر سکتا ہے، یعنی جہاں لوگوں کو لفظوں کے ذریعے مسحور کیا جاتا ہے۔

تاہم، متنازع بیانیہ کو تبدیل کرنے کی دیگر وجوہ بھی ضرورت کے مطابق گھڑ لی جاتی ہیں، اگر کوئی ایسے بیانیے کو درست سمجھتا ہے کہ اس سے عمل کی رہنمائی ملے گی تو اس سے زیادہ واضح اور کوئی چیز نہیں ہوگی کہ اپنے بارے میں ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا جائے جس کو تسلیم کرنے میں کسی کو عار نہ ہو۔ اس کی پرکھ کا جو بھی معیار ہو لیکن بیانیہ کو درست سمجھا جائے کیونکہ بیانیہ اسی لیے دیا گیا کہ اسے تسلیم کیا جائے۔

انسان جو کہ کسی بھی شعبے سے جڑا ہو، ایک کہانی سنانے والے کی طرح اپنے آپ کو بہادری کی کہانیوں میں جھونکتا ہے، دشمن کی تصویریں بڑھاتا ہے، خود کو عام لوگوں سے دور کرتا ہے، اور اپنے لیے

ایک موقف اختیار کرنے کے لیے اختلاف کرتا ہے۔ جھوٹے بیانیے کے لیے خود ساختہ عظیم کہانیاں تراشتا ہے، اس طرح انفرادی ہیرو کی طرح ایک بد نیتی پر مبنی طاقت کا سامنا کرنے والا ظاہر ہوتا ہے، دراصل جھوٹا بیانیہ بنا کر خود کو ہیرو اور دوسروں کو ولن، دوست دشمن محوروں پر مبنی داستانوں کا تخیل کر کے سچائی کو پیچھے چھوڑنا ہی اس کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ سوئس سیاست دان رالف ہالر نے ایک بار کہا تھا کہ ”ٹیلی ویژن کے خاندانی دائرے سے باہر ایک نیم دائرہ بنا چکا ہے، آج، ہمیں یہ شامل کرنا چاہیے“ ۔

اب چاہے کوئی بھی بحران ہو، دوسری چیزوں کے علاوہ قریباً ہر سازشی تھیوری کی بنیاد پر دنیا کے لیے الزام کا ایک بڑا حصہ بھی بیانیہ بنایا جاتا ہے، اس عمل سے معاشرے کی تباہی میں متحرک ہونے سے بہتر ہے کہ اس قسم کی روش کو الوداع کہہ دیا جائے۔ یہ امر قابل فہم ہوجاتا ہے انفرادی بہادری کی کہانیوں پر کتنا انحصار کیا جائے۔ مین اسٹریم میڈیا کی ذمے داری اور فرض بن جاتا ہے کہ وہ جو رپورٹس اور معلومات حاصل کرتے ہیں، اس کی ظاہری حقیقت کو پراپیگنڈے کی طاقت کے مقابلے میں سچائی اور ایک جدید ترین اتفاق رائے رکھنے والی حقیقت کی مشین کی جانب موڑ دے۔

ممکنہ جھوٹے بیانوں پر ہم دیکھتے ہیں کہ حالیہ سیاسی تنازعات میں ڈیٹا پوائنٹ پر ہمارے بدعنوان، خود ساختہ مین اسٹریم میڈیا اور طوطے باز سیاست دانوں کے بنائے جانے والے بیانیے کو جھٹلانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ یقینی طور پر، یہ فضولیات کی ایک مشق ہے لیکن افسوس کہ ہم بار بار جھوٹے بیانیہ بنانے والوں کا ٹریک ریکارڈ رکھنے والوں سے کسی تبدیلی کی توقع رکھتے ہیں۔

اپنی موجودہ حالت میں دنیا میں سب سے زیادہ کرپٹ معاشرہ اور حکومت ہونے کے علاوہ ایک آزاد، خود مختار جمہوریت ہونے کا بھی ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں، ہم میڈیا کے ذریعے سیاسی تخریب کی پراکسی جنگ کو ہوا دیتے رہتے ہیں، اس کی سادہ سی وجہ، اقتدار کی ہوس ہے۔ جھوٹے بیانیے ہوں یا سب جھوٹ و سازش کا کہلانے کا واویلا، بیرونی کنٹرول کے ذریعے داخلی انتشار پیدا کرنے والوں کے زیر انتظام پھیلائے گئے جھوٹے بیانوں پر ہر وقت یقین کو مسترد کرنا ہو گا۔

انصاف وہ نہیں جو بیانیہ بنا کر پیش کیا جائے بلکہ انصاف وہ ہے کہ جو ہوتا نظر آئے، بے انصافی کا نام انصاف رکھ لینے سے ہر بیانیہ منصفانہ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اس کے ہر پہلو کو جانچنا ہو گا، ایک مضبوط اور زمینی حقائق سے جڑے بیانیہ کے پیمانے کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا تصور ساڑھے تین برس قبل کسی نے نہیں کیا تھا، آج اگر جھوٹے بیانیہ نے سیاسی و اقتصادی بحران کو بڑھایا ہے تو بیانیہ کی طاقت کو کم کیسے کیا جائے، اسے ہم سب کو سوچنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments