انقلابی شوہر کی کیبنٹ سیکریٹری بیوی کی خود نوشت


Pakistan in an age of turbulence معصومہ حسن کی نئی کتاب کہنے کو تو ان کی سوانح عمری ہے لیکن اس میں بجا طور پر ہمیں فتحیاب علی خان کا اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کا تفصیلی ذکر بھی ملتا ہے۔ ریٹائر منٹ کے بعد معصومہ کا ارادہ بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کے بارے میں کتاب لکھنے کا تھا لیکن 26 ستمبر 2010 کو جب ان کے شوہر اور زندگی بھر کے دوست فتحیاب علی خان کا انتقال ہوا تو انہوں نے جناح پروجیکٹ کو کسی اور وقت کے لئے اٹھا کر رکھ دیا۔ فتحیاب اور ان کی نسل جسے وہ مڈل جنریشن کہتی ہیں نے پاکستان کے سیاسی ارتقا اور سماجی ثقافت میں جو کردار ادا کیا، وہ ہمیشہ معصومہ کے ذہن میں رہا۔ کراچی جس نے پارٹیشن کے بعد ان کے خاندان کو پناہ دی اور گھر دیا، اس جنریشن کی اختلافی سیاست کا گڑھ رہا اور معصومہ کی پیشہ ورانہ زندگی اس سے متاثر ہوتی رہی۔

اس کتاب میں آپ کو اس عورت کی پرورش، تعلیم، اور کیریر کے بارے میں پتہ چلے گا جس کا تعلق ایک مراعات یافتہ اور لبرل گھرانے سے تھا اور جو گورننس کی پدر سری اقدار اور تمام رکاوٹوں کے باوجود کیبنٹ سیکریٹری اور پاکستان کی سول سروس کی سربراہ بنی۔ اس کامیابی کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں بھی تھیں۔ نجی زندگی کی مصروفیات اور سرکاری ذمہ داریاں جن کی ہر وقت سکروٹنی ہوتی رہتی تھی، میں توازن پیدا کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔

معصومہ کے خاندان کا تعلق پانی پت سے تھا لیکن ان کے والد ثروت حسین نے پینتالیس سال کی عمر میں پرکھوں کا گھر چھوڑا اور اگست 1947 میں کراچی آنے والی ٹرین میں سوار ہو گئے۔ ان کے جد امجد خواجہ ملک علی 1286 میں ہرات سے پانی پت آئے تھے۔ بچپن میں ہم نے کورس کی کتابوں میں پانی پت کی لڑائیوں کے بارے میں پڑھا تھا لیکن اس کتاب کے پہلے باب میں ہمیں پانی پت کے بارے میں گراں قدر معلومات ملتی ہیں۔

دوسرا باب حیدرآباد دکن کے بارے میں ہے۔ جہاں ان کے دادا جو ایک انجینئیر تھے، ملازمت کے حوالے سے مختلف شہروں میں کام کرنے کے بعد آ کر بس گئے۔ معصومہ کے والد ثروت حسین نے پہلے علی گڑھ اور پھر کیمبرج میں تعلیم حاصل کی۔

معصومہ کا بچپن اپنے والدین کے ساتھ دہلی میں گزرا۔ انہیں نیو دہلی چرچ اسکول میں داخل کرایا گیا۔ دہلی میں ہی ان کے والد نے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف انڈین افئیرز میں شمولیت اختیار کی۔ یوں ان کا رابطہ ان اکابرین کے ساتھ رہنے لگا جو ان کی طرح قیام پاکستان کے زبردست حامی تھے۔ پاکستان بننے کا فیصلہ مئی کے تیسرے ہفتے میں ہو گیا تھا مگر اس کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ تب ہی مئی کی ایک گرم سہ پہر کو ان کے والد کے پرانے دوست ممتاز حسین ان کے دفتر آئے، ان کے ساتھ چوہدری محمد علی بھی تھے جن سے وہ پہلے کبھی نہیں ملے تھے۔

انہیں ممالک کے پارٹیشن کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں کتابیں درکار تھیں۔ اور معصومہ کے والد سمجھ گئے کہ پاکستان معرض وجود میں آنے والا ہے۔ انہوں نے معصومہ کے والد سے دو پیپرز لکھنے کو بھی کہا، ایک تو پارٹیشن کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں اور دوسرا ”سرحدیں بنانے کے اصول“ کے بارے میں۔ معصومہ کے والد کا اسٹینو گرافر ہندو تھا، اس لئے ممتاز حسین اپنا اسٹینو گرافر بھیجتے تھے جنہیں وہ ڈکٹیشن دیتے تھے۔

اسی حوالے سے محمد علی جناح سے بھی ان کی ملاقات ہوئی اور باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش کرنے کے لئے نقشے تیار کیے گئے۔ انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف انڈین افئیرز کو بھی پاکستان منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ کام بہت رازداری سے کیا گیا۔ اشتیاق قریشی، ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین اور سلطان احمد خان نے ان کا ساتھ دیا۔ اثاثوں کی منتقلی کے لئے لیاقت علی خان اور چوہدری محمد علی نے مدد کی۔ آج کراچی میں پریس کلب کے سامنے ایک خوبصورت عمارت میں یہ ادارہ ”پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افئیرز“ کے نام سے کام کر رہا ہے۔

پاکستان آنے کے بعد معصومہ اور ان کے بھائی عارف حسن نے سینٹ جوزف کانونٹ اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ 1969 میں معصومہ کی شادی فتحیاب علی خان سے ہوئی جن کا شجرہ قائم خانی راجپوتوں اور پرتھوی راج چوہان سے ملتا تھا۔ 1950 کا عشرہ جس میں فتحیاب اور ان کے دوستوں نے کراچی میں جوانی میں قدم رکھا، ایک ایسا روح پرور دور تھا جس کو الفاظ میں سمویا نہیں جا سکتا۔ اسلامیہ کالج اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے فتحیاب کی قائدانہ صلاحیتوں کو جلا بخشی۔

اس وقت اسلامیہ کالج میں لڑکیاں برقع نہیں پہنتی تھیں اور نہ ہی لڑکے لڑکیوں کے میل ملاپ پر کوئی پابندی تھی۔ 1953 میں طلبہ کی تحریک چلی جس کی قیادت ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے کی۔ حکومت نے طلبہ کے لبرل اور ترقی پسند رجحانات کا مقابلہ کرنے کے لئے این ایس ایف بنوائی لیکن ترقی پسند طلبہ نے بڑی ہوشیاری سے اس پر قبضہ جما لیا۔ اس حوالے سے دیگر دلچسپ تفصیلات کے لئے آپ کو کتاب کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ کراچی یونیورسٹی اور فتحیاب اور دیگر طلبہ کی غیر نصابی سرگرمیوں کا احوال بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

ایوب خان نے سرکاری افسران کی ٹریننگ کے لئے ایک ادارہ NIPAبنایا تھا، معصومہ اس میں ملازمت کرنے لگیں۔ حکومت کی عدم دلچسپی کے باوجود بتدریج یہ ایک بڑے ادارے میں تبدیل ہو گیا۔

کتاب کا ساتواں باب بھٹو کے دور کے بارے میں ہے۔ معصومہ کے والد بھٹو کے بہت قریب رہے۔ جب بھٹو کو 1966 میں ایوب خان نے وزیر خارجہ کے عہدے سے ہٹایا تو وہ چند لوگ جو کراچی ائر پورٹ پر ان کے استقبال کے لئے گئے، ان میں وہ بھی شامل تھے۔ قارئین کے لئے یہ باب بہت معلومات افزا ثابت ہو گا۔

آٹھواں باب تحریک بحالی ء جمہوریت کے بارے میں ہے۔ اس کا ذکر آپ کو بے نظیر بھٹو، شیر باز مزاری اور اصغر خان کی کتابوں میں بھی ملے گا۔ ایوب خان کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی سارے سیاستدانوں نے محترمہ فاطمہ جناح سے درخواست کی تھی۔ اسی طرح ضیا الحق کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی حزب اختلاف کی قیادت نصرت بھٹو نے کی۔ تمام تر اختلافات کے باوجود 6 فروری 1981 کو ایم آر ڈی کے چارٹر پر دستخط ہوئے۔ فتحیاب نے بھی مزدور کسان پارٹی کی طرف سے دستخط کیے ۔ اور 4 اپریل 1981 کو گرفتار ہو گئے اور معصومہ کو سماجی مقاطعے کا سامنا کرنا پڑا، دوستوں نے ملنا چھوڑ دیا، اپنے گھر بلانا چھوڑ دیا۔ کچھ عرصہ بعد ہی سرکار نے انہیں جبری چھٹی پر بھیج دیا۔ اس کڑے وقت میں ان کی والدہ اور ان کے بھائی عارف حسن نے ان کا ساتھ دیا۔

باب نہم ویانا کے بارے میں ہے۔ 1994 کی سردیوں میں بے نظیر نے معصومہ کو پاکستان میں ویانا کا سفیر مقرر کیا۔ باب دہم ان کی آخری پوسٹنگ کے بارے میں ہے۔ پرویز مشرف کی حکومت کا انہیں کیبنٹ سیکرٹری مقرر کرنا دوسروں کے لئے ہی نہیں خود معصومہ کے لئے بھی حیران کن تھا۔ یہ باب مشرف دور کے بارے میں گراں قدر معلومات فراہم کرتا ہے۔

گیارہواں باب فتحیاب کے لئے ہے۔ آغاز میں ادارہ بین الاقوامی تعلقات کی بقا کی جنگ کا ذکر ہے۔ اس کو بچانے کے لئے سینئیر ارکان میں سے ایک نے معصومہ کو اس کا چئیر پرسن بننے پر آمادہ کیا۔ اور کچھ عرصہ بعد ہی ضیا حکومت نے انسٹیٹیوٹ کو سرکاری ملکیت میں لینے کا آرڈیننس جاری کر دیا۔ اس پر معصومہ اے کے بروہی کے ساتھ ضیا الحق سے ملنے گئیں۔ لیکن ضیا کو فتحیاب کی سر گرمیوں پر اعتراض تھا۔ معصومہ نے عدالتی آرڈیننس کو عدالت میں چیلنج کر دیا۔

تیرہ سال کی عدالتی لڑائی کے بعد ادارے کا خود مختارانہ تشخص بحال ہو گیا۔ اب اس کی عمارت کو بھی protectedورثہ کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ یہ باب سیاسی معلومات کا بیش قیمت خزانہ ہے۔ اس میں عورتوں کی تحریک اور عورت فاؤنڈیشن سے ان کی وابستگی کا بھی ذکر ہے۔ میری خواہش ہے کہ معصومہ اس کتاب کا جلد از جلد اردو ترجمہ کرائیں تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہوں۔ پین اینڈ سورڈ نے برطانیہ سے یہ کتاب شائع کی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments