کیا عمران خان الیکشن کمیشن کے ڈرون اٹیک سے بچ پائیں گے؟


الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیا سنا دیا گویا پی ٹی آئی پر ڈرون اٹیک کر دیا ہے۔ یہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا واحد کیس ہے جس کی مسلسل 8 سال سماعت جاری رہی اور پی ٹی آئی نے اس کیس کی سماعت کو روکنے کے لئے ہر قانونی و غیر قانونی حربہ استعمال کیا اور آخری وقت پی ٹی آئی اس کا فیصلہ رکوانے کے لئے اس سے جو بن پایا وہ کیا بظاہر پی ٹی آئی کے ڈھنڈورچی یہ کہتے تھکتے نہیں کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کمزور ہے۔ سپریم کورٹ پہلی سماعت پر ہی اس فیصلہ کو اڑا کر رکھ دے گی لیکن کپتان کو اندازہ ہو گیا ہے۔ یہ فیصلہ ان کی سیاست ختم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ جو پی ٹی آئی کی حکومت کے مقرر کردہ ہیں۔ ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کی سماعت کی وجہ سے عمران خان کے نشانہ ’پر تھے۔ ہی فیصلہ سے دو تین روز قبل ان کی برطرفی کے لئے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں قراردادیں لائی گئیں پی ٹی آئی اپنے خلاف فیصلہ آنے کے خدشہ کے پیش نظر چیف الیکشن کمشنر کو متنازعہ بنانے میں مصروف تھی اگرچہ الیکشن کمیشن نے 24 جون 2022 کو ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ کیس پر فیصلہ محفوظ کر دیا تھا لیکن جب فیصلہ میں تاخیر ہوئی تو پھر حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے جلد فیصلہ سنانے کے لئے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنا دیا

الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے۔ اس کے سنائے جانے فیصلوں کی اتنی ہی قانونی اہمیت ہوتی جتنی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے فیصلہ کی ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے غیر ملکی فنڈنگ کیس کا 86 صفحات پر مشتمل جو فیصلہ دیا ہے۔ اس کی بازگشت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی سنی گئی وفاقی کابینہ نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلہ پر مشاورت کی اور طے کیا ہے کہ وفاقی حکومت پی ٹی آئی کے خلاف پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 ء کی شق 2، 6، 15 اور 17 کے تحت کارروائی کرے گی اور سپریم کورٹ کو ڈیکلریشن بھجوائے گی۔

یہ ایک قانونی جنگ ہے جو حکومت سپریم کورٹ میں لڑ کر نہ صرف پی ٹی آئی پر پابندی لگوائے گی بلکہ عمران خان کو اسی اصول کے تحت نا اہل قرار دلوائے گی جس کا میاں نواز شریف، جہانگیر ترین اور فیصل واڈا شکار ہو چکے ہیں۔ میاں نواز شریف نے اپنے صاحب زادے کی فرم کا ملازم ہونے کے جرم میں نا اہل ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے فیصلہ میں لکھا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی حاصل کردہ ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو گئی ہے۔ پی ٹی آئی نے 34 غیر ملکیوں سے فنڈز وصول کیے 8 اکاؤنٹس کو اون کیا جب کہ تحریک انصاف نے 13 اکاؤنٹس کو الیکشن کمیشن سے پوشیدہ رکھا سر دست اس کیس کے فوری نتائج بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

ممکن ہے۔ اس کیس کے ان کی مقبولیت پر کوئی زیادہ منفی اثرات بھی مرتب نہ ہوں لیکن اس فیصلہ نے پی ٹی آئی کے کرپشن سے پاک ہونے کے نعرے کو دھندلا دیا ہے۔ بینک اکاؤنٹس چھپانا آئین کے آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح اب پی ٹی آئی کی قیادت منہ چھپائے پھر رہی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی پی ٹی آئی چیئرمین کی طرف سے جمع کرائے گئے ڈیکلیریشن کو بھی غلط قرار دیتے ہوئے تحریک انصاف کو شو کاز نوٹس جاری کیا گیا جس میں کہا ہے کہ کیوں نہ فنڈز ضبط کر لئے جائیں، الیکشن کمیشن نے 68 صفحات پر مشتمل فیصلہ سفارشات کے ساتھ کارروائی کے لئے وفاقی حکومت کو ارسال کر دیا ہے۔

وفاقی حکومت تو الیکشن کمیشن کے فیصلہ کی منتظر تھی۔ اسے جوں ہی الیکشن کمیشن کا فیصلہ موصول ہوا اس نے پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی کے لئے اپنی قانونی ٹیم کو متحرک کر دیا وفاقی کابینہ نے ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلہ کی روشنی میں پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی کی منظوری دے دی ہے۔ اب تمام آئینی و قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے کر سپریم کورٹ میں ڈیکلریشن بھیجنے کے لئے ایک بار پھر وفاقی کابینہ کے پاس آئے گا۔

فارن فنڈنگ کیس کی تحقیقات ایف آئی اے کرے گی۔ فیصلے میں پی ٹی آئی کو امریکہ، کینیڈا اور ووٹن کرکٹ سے ملنے والی فنڈنگ ممنوعہ قرار دی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے دانستہ طور پر ووٹن کرکٹ لمیٹڈ سے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے 34 غیر ملکیوں سے فنڈز لیے ان میں ابراج گروپ، آئی پی آئی اور یو ایس آئی یو ایس اے ایل ایل سی رومیتا سیٹھی سمیت دیگر غیر ملکی شہریوں اور غیر ملکی کمپنیوں سے فنڈز وصول کیے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے مزید کہا گیا کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے پاس سال 2008 سے 2013 تک غلط ڈیکلیریشن جمع کروائے سپریم کورٹ نے اقامہ ظاہر نہ کرنے پر نا اہل قرار دے دیا تھا۔ اب حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ 150 کروڑ روپے حاصل سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ثابت ہو گیا۔ ملک کا سب سے بڑا چور کون ہے؟ پی ٹی آئی اور عمران خان اپنے دفاع میں کچھ پیش نہ کر سکے، عمران خان نے قوم کو 8 سال بے وقوف بنائے رکھا۔ دوسروں پر غداری کا الزام لگانے والوں کو ممنوعہ فارن فنڈنگ کا جواب دینا چاہیے۔ ان کی رائے کے مطابق عمران خان اور پی ٹی آئی کی سیاست دوسروں کو چور کہنے پر ہے۔ آج ثابت ہو گیا کہ ملک کا چور عمران خان اور پی ٹی آئی کی جماعت ہے۔ یہ معمولی نوعیت کی چوری نہیں۔

الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے بعد کچھ سوالات اٹھے ہیں۔ کیا سیاسی جماعتوں کے لیے ہر قسم کے غیر ملکی فنڈز ممنوعہ ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے کبھی الیکشن کمیشن کے دائرہ سماعت کے اختیار کو چیلنج کیا گیا اور کبھی الیکشن کمیشن کے کسی حکم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور پھر عدالت کی طرف سے یہ حکم امتناعی خارج بھی کیا گیا۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق سیاسی پارٹیوں پر ممنوعہ فنڈنگ کے سلسلے میں شق 204 کے وہ نکات انتہائی اہم ہیں جو فارن فنڈنگ سے متعلق ہیں۔

الیکشن ایکٹ کی شق 204 / 3 کے مطابق ہر ایسا عطیہ ممنوع ہے جو براہ راست یا بالواسطہ طریقے سے کسی فارن سورس، بشمول کسی غیر ملکی حکومت، ملٹی نیشنل یا پبلک یا پرائیویٹ کمپنی، فرم، تجارتی یا پروفیشنل ایسوسی ایشن یا فرد کی طرف سے دیا جائے جب کہ شق 204 / 4 کے مطابق کوئی بھی ممنوعہ عطیہ حکومت ضبط کر لے گی۔ فارن سورس میں کوئی اوورسیز پاکستانی جس کے پاس نادرا کا جاری کردہ شناختی کارڈ برائے اوورسیز پاکستانی ہو، شامل نہیں کیا گیا اس کا مطلب ہے۔ وہ اپنی پسندیدہ پارٹی کو عطیہ دے سکتا ہے۔

شق 212 کے مطابق کسی سیاسی پارٹی کو الیکشن کمیشن کی جانب سے ریفرنس دائر کرنے یا کسی دوسرے ذریعے سے معلومات حاصل ہونے پر اس صورت میں بھی تحلیل کیا جا سکتا ہے۔ اگر وفاقی حکومت مطمئن ہو کہ سیاسی پارٹی کو فارن ایڈ مل رہی ہے جس وہ ملک دشمن سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ اس صورت میں حکومت آفیشل گزٹ میں نوٹیفکیشن شائع کرے گی اور اس امر کا اعلان کرے گی۔ اس کے بعد پندرہ دن کے اندر اندر حکومت اس معاملے کو سپریم کورٹ کو بھجوا دے گی۔ اگر سپریم کورٹ نے حکومتی ڈیکلریشن کو درست قرار دیا تو اس کے نتیجے میں پارٹی پر پابندی لگا دی جائے گی۔

فنانشل ٹائمز کی رپورٹ نے بھی تہلکہ مچا دیا ہے۔ اس رپورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کی توثیق کی ہے۔

اگر سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے خلاف الزامات درست ثابت ہو گئے تو نہ صرف پی ٹی آئی تحلیل ہو جائے گی بلکہ کے سینیٹ، قومی اسمبلی، تمام صوبائی اسمبلیوں اور لوکل گورنمنٹ میں موجود تحریک انصاف کے تمام ارکان موجودہ مدت کے لئے نا اہل ہو جائیں گے۔

ساڑھے سات سال تک پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو فارن فنڈنگ کے نام سے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ الیکشن کمیشن میں جو کاز لسٹ جاری کی جاتی تھی۔ اس میں بھی اکبر ایس بابر بنام پاکستان تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس ہی لکھا جاتا تھا لیکن پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور کے اعتراض پر مقدمے کا ٹائٹل فارن فنڈنگ کی بجائے ممنوعہ فنڈنگ کر دیا گیا ممنوعہ فنڈنگ اور فارن فنڈنگ کا معاملہ 1962 ء میں ہی پولیٹیکل پارٹی ایکٹ میں فارن فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ کو شامل کر کے تمام سیاسی جماعتوں کے لئے غیر ملکی فنڈنگ شجر ممنوعہ قرار دے دیا گیا پرویز مشرف کے دور میں بنائے گئے پولیٹیکل پارٹی ایکٹ 2002 ء میں بھی برقرار رکھا گیا الیکشن ایکٹ 2017 ء میں بھی اس قانون کو برقرار رکھا گیا۔

الیکشن کمیشن ایکٹ 2017 ء کے سیکشن 204 کے سب سیکشن 3 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بالواسطہ یا بلاواسطہ حاصل ہونے والے فنڈز جو کسی غیر ملکی حکومت، ملٹی نیشنل یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل کیے گئے ہوں ممنوعہ قرار دے دیے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی فنڈنگ کیس کے فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ سیاسی جماعت کسی بھی غیر ملکی حکومت، ملٹی نیشنل یا کسی بھی ملکی سرکاری و غیر سرکاری کمپنی سے کوئی بھی فنڈ براہ راست یا بالواسطہ نہیں لے سکتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون کے تحت صرف اندرون ملک یا بیرون ملک مقیم ایسے افراد سے ہی چندہ یا فنڈز لئے جا سکتے ہیں جو کہ پاکستان کے شہری ہو ’الیکشن ایکٹ کے تحت اگر کوئی ملک یا اس کا کوئی ادارہ کسی دوسرے ملک کی سیاسی جماعت کو مالی مدد فراہم کرتا ہے تو الیکشن کمیشن ایسی جماعت کی رجسٹریشن کو منسوخ کرنے اور ان کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی کے لئے وفاقی حکومت کو سفارشات بھیج سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن بیرون ممالک سے حاصل کیے گئے ممنوعہ فنڈنگ کو بحق سرکار ضبط کر سکتا ہے۔ اس جماعت کو دیا جانے والا انتخابی نشان بھی واپس لے سکتا ہے۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عمران خان کو صادق اور امین سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد ان کے صادق امین ہونے پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ ہر پریس کانفرنس کا یہ موضوع ہے۔ اس فیصلے سے ممکن ہے۔ عمران کی پارٹی کو کوئی زیادہ نقصان نہ پہنچے لیکن عمران خان کی سیاسی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی ہے اور ان کا کرپشن کے خلاف بیانیہ ہوا میں اڑ گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے۔ اعلیٰ عدلیہ عمران کی ڈوبتی کشتی کو کس حد تک ریلیف دیتی ہے۔

عام تاثر یہ ہے کہ اس وقت ملک کی اعلیٰ عدالتیں عمران خان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی ہیں لیکن عوامی دباؤ کے پیش نظر عمران خان کو ریلیف دینا بھی ممکن نظر نہیں آتا۔ پی ٹی آئی پر ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے کے بعد وفاقی کابینہ نے تحریک انصاف پر پابندی کے عمل کو تیز تر کر دیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل ( 3 ) 17 کے مطابق پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے کے لیے معاملہ سپریم کورٹ بھیجا جائے گا۔ وفاقی حکومت کے پاس دوسرا آپشن فارن ایڈڈ سیاسی جماعت ڈکلیرڈ کر کے کام آگے بڑھا سکتی ہے۔ حنیف عباسی کیس میں سپریم کورٹ نے بیان حلفی کو الیکشن کمیشن کے فیصلے سے مشروط کیا تھا۔ وفاقی حکومت کے پاس تیسرا آپشن یہ ہے کہ جعلی بیان حلفی پر کارروائی کے لئے براہ راست سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments