جو چلے تو جاں سے گزر گئے


احمد فراز نے کہا۔
تیرے بیٹے تیری آبرو کے لیے
یوں جلائیں گے اپنے لہو کے دیے
مسکرائے گی تاریکیوں میں کرن
اے وطن

تاریکیوں کو اپنے لہو کی لو سے اجالے میں بدلنے والے پولیس افسران و جوانوں کے اعزاز میں ہر سال کی طرح اس سال بھی 4 اگست کو یوم سپاس منایا گیا۔ میں سارا دن ان ساتھیوں کے بارے میں سوچتا رہا جن کے ہمراہ نوکری کا کچھ یا بڑا حصہ گزرا تھا۔ بے شمار انمول چہرے اور نام ذہن میں آئے۔ ان میں دو نام نمایاں تھے۔ وجہ یہ تھی کہ ان کے ہمراہ دوران نوکری ایک خاص قربت رہی تھی۔ جان سے گزرنے والے ان دو افسروں کو یاد کر کے دل کا بوجھ ہلکا کرتا ہوں۔

سکردو سے تعلق رکھنے والے محمد اشرف نور صاحب پی ایس پی افسر تھے۔ میں بنیادی طور پر کے پی کی صوبائی سروس سے تھا اور بعد میں پی ایس پی کا حصہ بنا تھا۔ آپ کی تعیناتی کے پی میں تھی۔ جب فروری 2000 میں پاکستان سے پولیس کا ایک دستہ کوسوو امن مشن کے لیے منتخب کیا گیا تھا اس میں ہم دونوں شامل تھے۔ وہاں ہم دو سال رہے۔ پہلے چھ ماہ نور صاحب اور میں پے آ نامی شہر میں ایک ہی شعبہ میں تعینات ہوئے۔ چناں چہ رہائش بھی اکٹھی رکھی۔ اچھی رہائش کے حصول میں راولپنڈی پولیس کے انسپکٹر راجہ سہیل نے قابل قدر مدد کی۔

نور صاحب ابتدائے جوانی سے ہی باریش تھے۔ نماز اور قیام اللیل کے علاوہ آپ شاید یقین نہ کریں کہ کوسوو میں پورے دو سال انہوں نے تواتر سے روزے رکھے اور ہر بڑی عید پر 7 / 7 بکروں کی قربانی دی۔

ہمارے شعبے کا سربراہ ایک امریکی افسر تھا جس کا نام گورڈن تھا۔ وہ نور صاحب کی مذہب پسندی کی وجہ سے ان سے بے حد مرعوب تھا۔ گورڈن ہر وقت اس تاک میں ہوتا تھا کی وہ انہیں اپنا ہاتھ دکھا کر قسمت کا حال معلوم کرے۔ صاحب اس ٹائپ کے نہیں تھے لیکن میں اپنی دنیا دارانہ سوچ کی وجہ سے انہیں کہتا کہ آپ کا کیا جائے گا اسے کچھ جنرل سی باتیں بتا دیں۔ آپ کا مرید ہو جائے گا اور پھر اگر ہم اپنے دیسی سٹائل میں ڈیوٹی سرانجام دیں گے تو پوچھے گا بھی نہیں۔ یعنی وقت کی پابندی ندارد جو گوروں کے لیے زندگی موت کا مسئلہ تھا۔ مکمل طور پر تو نہیں لیکن کبھی کبھی وہ میرا ”مشورہ“ مان لیتے۔ اور پھر اپنا مشہور فقرہ بولتے، بڑے مشکل آدمی ہو آپ۔

آپ اس وقت ایس پی تھے۔ ہم 2002 میں کوسوو سے واپس لوٹے۔ کبھی کبھی ملاقات رہی لیکن زیادہ تر باقاعدگی سے فون پر ہی رابطہ ریا۔ پھر 2014 میں جب میں ڈی آئی جی تھا اور وہ ایڈیشنل آئی جی تھے، میری جگہ کمانڈنٹ پولیس کالج ہنگو تعینات ہوئے۔ میں 2017 میں جب ریٹائرڈ ہوا تو اس وقت بلوچستان میں تعینات تھا۔ صلاح الدین صاحب اس وقت، پختونخوا، کے آئی جی تھے۔ وہ بھی کوسوو مشن میں اسی زمانے میں ہے آ شہر میں ایک بڑی پوزیشن میں رہے تھے۔ انہوں نے اس تعلق کی خاطر اور میرا بنیادی تعلق کے پی کے پولیس سے ہونے کی وجہ سے وضع داری نبھاتے ہوئے سی پی او پشاور میں میرے اور کچھ اور ریٹائرڈ ہونے والے افسران کے لیے ظہرانے کا اہتمام کیا اور تحائف سے بھی نوازا۔

نور صاحب اس وقت وہاں ایڈیشنل آئی جی ہیڈ کوارٹر تھے۔ تقریب کے فوراً بعد آئی جی صاحب نے ایک میٹنگ بلا رکھی تھی۔ وہ اس میں نہیں گئے اور مجھے اپنے دفتر لے جا کر لمبی محفل رچائی۔ یہ ان سے میری آخری ملاقات تھی۔

اس کے چند ماہ بعد انہیں صبح گھر سے دفتر آتے ہوئے حیات آباد میں ایک موڑ پر خود کش حملے میں شہید کر دیا گیا۔

***       ***

1988 میں پی سی ایس کے امتحان میں کامیابی کے بعد ہم 14 امیدوار کے پی پولیس میں ڈی ایس پی تعینات ہوئے۔ مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والا ساجد خان مہمند عمر میں ہم سب سے چھوٹا تھا چنانچہ عادل خان اسے بھتیجا کہہ کر پکارتا تھا۔ بعد میں وہ سب کا بھتیجا بن گیا اور جواباً ہم میں سے ہر ایک کو وہ چاچا پکارنے لگا۔

ہم جب پولیس ٹریننگ کالج ہنگو میں ابتدائی ٹریننگ کر رہے تو علی الصبح پی ٹی/ پیریڈ کے لیے اٹھنے پہ بہت تنگ رہتے تھے۔ بقول شخصے ابھی تو پرندے بھی محو نیند ہوتے تھے اور ہم جگا دیے جاتے تھے۔ ہم اس کارن بہت اوازار تھے۔ ہماری ڈھارس بندھانے کو ڈرل انسٹرکٹر قسمت علی خان ایک فقرہ بولا کرتے تھے۔ ”یہ وقت بھی گزر جائے گا“ ۔ بھتیجے کو یہ فقرہ ایسا پسند آیا کہ اس کی ہر کاپی پر کہیں نہ کہیں یہ نقل ہوتا اور اس کے کمرے میں لٹکے کیلینڈر پر ہر ماہ کے نئے صفحے پر بھی یہ نمایاں طور پر لکھا جاتا۔

پھر یوں ہوا کہ نہ صرف وہ مشکل وقت گزر گیا بلکہ کئی دن، مہینے اور سال گزر گئے۔ ہماری ترقی بھی ہوتی رہی۔ اس دوران بھتیجا دادا بھی بن چکا تھا۔ کم عمری میں دادا بن جانے کی وجہ اس کی قبائلی روایت کے مطابق دوران تعلیم ہی ہو جانے والی شادی تھی۔ اس کا پوتے سے پیار کچھ ایسا تھا کہ لگتا تھا کہ اس کے لیے دنیا میں عالیان سے بڑھ کر کچھ بھی عزیز جاں نہیں۔

2014 میں میرا، اقبال اور بھتیجے کا تبادلہ بلوچستان ہو گیا۔ بڑے ہاتھ پیر مارے لیکن تبادلہ منسوخ کرانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بھتیجے نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ نوکری چھوڑ دے گا لیکن بلوچستان نہیں جائے گا۔ چنانچہ اس نے آئی جی صاحب کو استعفیٰ بھیج دیا۔ اس پہ آئی جی صاحب نے ہم تینوں کو بلا کر تسلی دی اور بھتیجے کا استعفیٰ اس بنیاد پر آگے نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا کہ میں اور اقبال جن کی ڈھائی / تین سال نوکری بقایا ہے وہ تو استعفیٰ نہیں دے رہے اور نو سال بقایا نوکری والا استعفیٰ دے رہا ہے۔

اس وقت ہمارے آئی جی صاحب ناصر خان درانی تھے جو بلا شبہ در دوراں شخصیت تھے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ وہ نو سال کی بات کر رہے ہیں جب کہ تین سال کے اندر اندر نہ ساجد زندہ ہو گا اور نہ خود درانی صاحب۔ ساجد بلوچستان کے سرحدی ضلع چمن میں خود کش حملے کا نشانہ بنا اور کووڈ نے ناصر درانی صاحب کو ہمارے درمیان سے اٹھا لیا۔

اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لیے ، کس کس کا ماتم کیجیئے۔ آتش


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments