”خواب گاہ میں ریت“ ( قدیم و جدید اسلوب کا ایک منفرد تجربہ)


 

اردو شاعری کے جدید منظر نامے کے باب میں کہا جاتا ہے کہ ”برصغیر پاک و ہند میں جدید شاعری کا آغاز آزادی کے بعد ہوا“ ۔ شاعری کے اس نئے رنگ و آہنگ کو علی العموم ترقی پسند تحریک کے رد عمل کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس ردعمل کے نتیجے میں باقاعدہ ایک اور تحریک کا آغاز ہوتا ہے، جس کو ”جدیدیت“ کا نام دیا گیا۔ اس نئے رجحان یا تحریک کے زیر اثر کی جانے والی شاعری کو جدید یا نئی شاعری کہا جا سکتا ہے۔ اردو ادب میں مختلف ناقدین نے 1960ء کے بعد کی جانے والی شاعری کو نئی شاعری کا نام دیا۔ اس دور کی شاعری کو نئی نظم، نئی غزل یا جدید غزل سے موسوم کیا جاتا ہے۔

جدید شاعری میں عامیانہ تاثر یہ ہے کہ جدید شاعر کسی ”ازم“ سے متاثر نہیں ہوتا۔ وہ اپنے عقل و شعور اور داخل کو ہی اپنا آئیڈیل سمجھتا ہے۔ وہ کسی بھی نظریے یا رجحان کو اپنے اظہار پر اثر انداز نہیں ہونے دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ جدید شعراء کو اکثر ترسیل کی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مگر جن شعراء نے داخلیت سے نکل کر خارجیت کا اظہاریہ بنایا اور حالات سے ہم آہنگی اختیار کی ان کے فن میں زندہ رہنے کی صلاحیت بہر طور موجود ہے۔

جدید ترین شاعری میں ایک اور پہلو جو دیکھنے کو ملا وہ یہ ہے کہ جدید شعراء اب ببانگ دہل مختلف تحریکوں اور رجحانات سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ جدید ترین رجحانات اس قدر متنوع ہیں کہ اب واقعی تفہیم کے لئے بالغ ذہن کی ضرورت ہے۔ جدیدیت کے بعد ردعمل کے طور پر آنے والی تحریکوں میں ”وجودیت“ کی تحریک بھی ایک اہم تحریک ہے، جس نے لاشیئت، اختیار کی آزادی سمیت وجود کیا ہے پر بحث کی اور فرد کی انفرادیت پر زور دیا۔

اس تحریک کے زیر اثر کی جانے والی شاعری میں یاسیت اور ماسوکزم کے موضوعات کی بھرمار ہے۔ وجودی شعراء نے فرد کی ذات کو ہمدردی کا استعارہ بنا دیا۔ اور ایسا کچھ فکشن میں بھی دیکھنے کو ملا۔ جس میں اذیت پسندی، منشیات کا استعمال، سماجی بیگانگی اور تلاش وجود جیسے موضوعات کو جگہ دی گئی، جنہوں نے نئی نسل کے جذبات کی خوب نمائندگی کی۔ شورش زدگی اور کم مائیگی کے شکار لوگوں نے خود کو فیشن کو طور پر وجودی کہلوانا شروع کر دیا۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک اور رویہ بھی نئی شاعری کے منظر نامہ کا حصہ ہے جسے ”Erotic Poetry“ کہا گیا۔ ایروٹیک شاعری میں دراصل جنسی موضوعات کو شامل کیا جاتا ہے ۔ ہر چند کہ شاعری میں جنسی اظہاریہ کوئی نئی بات نہیں یہ موضوع ہماری کلاسیکی شاعری کا بھی حصہ رہا۔ میر، غالب، درد، ذوق، انشاء، رنگین، جرات، اور نظیر کی شاعری میں ایروٹک شاعری کے نمونے باآسانی مل جاتے ہیں۔ مگر نئی شاعری میں یہ جنسیات اب صریحاً فحش نگاری کے زمرے میں آنے لگی ہے۔

ایروٹک شاعر اپنے تعارف میں، ”بے باک اور نڈر“ فن کار جیسے القاب سن کر ایک آسودگی سی محسوس کرتے ہیں۔ اور نئی نسل بھی برگشتہ طالع انہی موضوعات کو پسند کرتی ہے۔ گویا ”اب فن اظہار یہ نہیں ذریعہ تفنن بن گیا ہے“ ۔ اس تکنیک کے فروغ میں عربی شاعری کے اثرات کا بڑا عمل دخل ہے۔ جس میں عورت کے جسم کے کسی بھی حصے کو کتنا بھی کھل کو بیان کیا جائے اسے ایروٹک نہیں کہا جاتا بلکہ ادب کے اعلی ٰ فن کا نمونہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ جسے نئے شعراء نے بہ خاطر بقائے دامی اختیار کیا ہوا ہے۔ بہرکیف ایروٹک نئی شاعری کے چند نمونے دیکھئے :

” میرا دل ایک شکاری کتا ہے
جسے میں تمھارے کپڑوں کی بو سنگھا رہا ہوں
تم مجھ سے بے وفائی کر کے
ایک اور مرد کے ساتھ بھاگ گئی ہو
میرا دل اس مرد کے تناسل کے اعضا بھنبھوڑ ڈالے گا ”
(افضال سید)
کاکل نہیں لٹکتے ان کی چھاتیوں پر
چوکاں سے یہ کھلنڈرے گیندیں اچھالتے ہیں
(مرزا ظفری)
کیا تم نے ایک عورت کو دیکھا ہے
اس کی چھاتیوں کے درمیان ایک سانپ رینگ رہا ہے
اس کی رانوں کے درمیان سفید پانی کا چشمہ ہے
میں پیاس سے مر رہا ہوں۔
(طاہر برقی)

ان تمام چیزوں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ایروٹک یا فحاشی کے تصورات اب اضافی شمار کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ مختلف معاشروں میں بلکہ ایک ہی معاشرے کے مختلف طبقوں میں یہ تصورات مختلف شکلوں میں پائے جاتے ہیں۔ مثلاً امریکہ میں پائی جانے والی فحاشی کو ایک طبقہ انتہا پسندی سے تعبیر کرتا ہے لیکن خود امریکہ کو اٹلی کی تہذیب عریانیت کی علمبردار نظر آتی ہے۔ ان معاشروں میں برہنگی کے ساتھ جنسی اختلاط کو پیش کر دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ با ایں ہمہ! ڈاڈا ازم، کیوبک آرٹ یا ایروٹک آرٹ کے جمالیاتی اظہاریہ کے باب میں جو بھی عذر پیش کیے جائیں، مگر اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ یہ کوئی صحت مند شعری رویہ نہیں ہے۔

شاعری کے جدید ترین منظر نامے کے لئے میرا موضوع مبشر سعید کا شعری مجموعہ ”خواب گاہ میں ریت“ ہے۔ مبشر سعید کا تعلق ملتان سے ہے۔ سعیدؔ نے اپنے منفرد لب و لہجے سے جدید اردو غزل کی شعری روایت میں حصہ ڈالا اور اپنی علیحدہ شناخت قائم کی۔ اپنے شعری مجموعے ”خواب گاہ میں ریت“ سے ادبی حلقوں کا چونکا دیا۔ مبشر سعید نے روایت سے بغاوت کیے بغیر اس سے جڑ کر انفرادیت حاصل کی۔ وہ بنیادی طور پر رومانی شاعر ہیں اور اپنے تخیل کو لفظوں کا پیراہن دینا اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان کا یہ انداز ہمیں کا لرج کی یاد دلاتا ہے، جو قوت متخیلہ سے سخن کی تخلیق کا ہنر جانتا تھا اور اب اس روایت کا سراغ مبشر سعیدؔ کی شاعری میں ملتا ہے۔ سعید نے اپنی غزلیات میں قدیم و جدید اسلوب سے استفادہ کر کے اپنے لئے نئی راہ نکالی ہے۔

مبشر سعید نے اپنی عمر کا ایک حصہ مغرب میں گزارا۔ وہ جدید شاعری کی تکنیک اور ڈکشن سے مکمل طور پر واقف ہیں، انہوں نے نئے شعری تجربات کرنے کی بجائے روایتی انداز میں جدت پیدا کی اور متحیر انگیز غزلیات لکھیں۔ نئی شاعری کے جدید منظر نامے میں جہاں ایروٹک یا ڈاڈئسٹ ایروٹک اور کیوبک ایروٹک آرٹ کے اظہاریے ہر دوسرے شاعر کے کلام میں دیکھنے کو ملتے ہیں وہاں مبشر سعید کی شاعری بناوٹ اور تصنع سے سر بسر پاک ہے۔ اپنے نظریہ فن کے باب میں کہتے ہیں کہ:

خود کو اظہار میں لانے کے لئے ہوتے ہیں
شعر کب نام کمانے کے لئے ہوتے ہیں

سعید کی شاعری عشق و محبت سے عبارت ہے۔ جس میں ہجر و وصال کی باتیں، ہم کلامی و عظمت و شکوۂ خیال، شعور و آگہی کے ساتھ تصوف میں عالم وجد سے دھمال تک کی کیفیات کو خوبصورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے ۔ آپ کا تعلق ملتان سے ہے اور یہ خطہ اپنے صوفی رنگ میں ایک منفرد پہچان رکھتا ہے، جہاں یہ رنگ رقص میں اور رقص رنگ میں باہم دیگر حلولیہ نظر آتے ہیں۔ اور پھر یہی رنگ سعیدؔ کی شاعری میں بھی اتر آیا۔

تو نہیں مانتا مٹی کا دھوں ہو جانا
تو ابھی رقص کروں، ہو کے دکھاؤں تجھ کو
اب میرا عشق دھمالوں سے کہیں آگے ہے
اب ضروری ہے کہ میں وجد میں لاؤں تجھ کو

فطرت کے مظاہر کائنات کا نقش اولین ہیں۔ مبشر سعید نے فطرت کے مختلف مناظر کو اپنی شاعری میں موضوع بنایا۔ مظاہر فطرت کی طرف متوجہ ہونے کی وجہ ان مظاہر کا حسن بے کراں ہے اور پھر سعید نے ان مناظر فطرت کے ایسے پہلوؤں کو تلاش کیا جو فرد کے احساس حسن اور ذوق کی تسکین کا سبب بنے۔ مبشر کی شاعری میں داخلی کیفیات کا اظہار بھی فطری ہے اور مظاہر فطرت کے بیان میں بھی ربط و تاثر ملتا ہے۔ چند اشعار دیکھئے :

زد موسم کی اذیت کو اٹھانے کا نہیں
میں درختوں کی جگہ خود کو لگانے کا نہیں
رقص کرتی ہوئی بل کھاتی ہوئی ڈالی پر
آنکھ نے دیکھا ہے شبنم میں نہایا ہوا رنگ
باغ اثاثہ ہے اپنا
وہ بھی زرد زمانوں تک
بنچ پر پھیلی خاموشی
پہنچی پیڑ کے کانوں تک
چاند سے گفتگو رہے گی کیا؟
رات بھی خوش گلو رہے گی کیا؟
زرد موسم جو آن پہنچا ہے
پیڑ پہ اب نمو رہے گی کیا؟
موسم ہے خوش گوار، مرے ساتھ ساتھ چل
اے رشک نو بہار! میرے ساتھ ساتھ چل
(خواب گاہ میں ریت)

مبشر سعید کا مشاہدہ کافی گہرا ہے۔ وہ لفظوں کی بجائے تصویروں میں سوچتا ہے۔ میں کائنات میں موجود ہر ذرے کو بہ نظر غائر دیکھتا ہے۔ پھر یہی عناصر ان کی شاعری میں کرداروں کی صورت چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ اور پھر وہ جذبوں کی نمائندگی کے لئے فطرت سے تشبیہ اور استعارے اخذ کرتا ہے۔ انھوں نے بھاری بھرکم الفاظ کا استعمال نہیں بلکہ سہل ممتنع ان کی شاعری کا ممتاز وصف ہے۔ وہ بے جان اشیاء کو جاندار بنا کر ان کی ایک خاص شخصیت کو پیش کرتا ہے۔

ان کے ہاں موضوعات اور اسلوب دونوں حوالے سے تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جس کی بناء پر جدید شعراء میں ان کا ایک منفرد مقام ہے۔ مبشر سعید جیسے شعراء کا کلام پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ نئی اردو شاعری کا مستقبل تابناک ہے۔ جدید اردو شاعری میں جہاں نت نئے نامانوس تجربات کر کے اس کے شاعرانہ اسلوب کو مجروح کیا جا رہا ہے تو وہیں شعری صداقت اور آبروئے غزل کے تحفظ کے امین بھی موجود ہیں جو جدید شاعری بالخصوص اردو غزل کی آبیاری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس جدید منظر نامے میں مبشر سعید کی غزلیات اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments