ممنوعہ فنڈنگ: بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے


حسن کے راز نہاں ’شرح بیاں تک پہنچے۔
آنکھ سے دل میں گئے، دل سے زباں تک پہنچے
دل نے آنکھوں سے کہی، آنکھوں نے دل سے کہہ دی۔
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے میں نہ صرف بیرونی فنڈنگ سامنے آ چکی ہے بلکہ امریکہ، برطانیہ کے ساتھ ساتھ انڈیا سے فنڈنگ کے شواہد بھی سامنے آ گئے ہیں۔ عمران خان کا بیان حلفی جھوٹا قرار پایا ہے۔ بات الزام سے جرم تک جا پہنچی ہے۔ اس فیصلے سے عمران خان کی صداقت و امانت پر بھی سوالات اٹھ چکے ہیں۔ عمران خان کے جذباتی پیروکار ان سوالات کو موجودہ حالات میں زیادہ اہمیت نہیں دیں گے مگر الیکشن کمیشن کے اس دعوے کو کہ عمران خان پانچ برس تک اپنی جماعت کے لیے جمع کی ہوئی رقوم کے متعلق جھوٹا بیان حلفی جمع کراتے رہے کو سنجیدگی سے لینا ہو گا کیونکہ نواز شریف کو بیان حلفی میں اقامہ ظاہر نہ کرنے پرہی سپریم کورٹ نے کسی بھی عوامی عہدے کے لئے تا حیات نا اہل قرار دیتے ہوئے وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دیا تھا۔

عمران خان سپریم کورٹ سے ہی صادق و امین ٹھہرے تھے اس لیے انہیں اپنے بیان حلفی کا عدالت میں بہر صورت دفاع کرنا ہو گا۔ الیکشن کمیشن کے متفقہ فیصلے میں تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی طرف سے عمران خان پر فارن فنڈنگ کے لگائے ہوئے تمام الزامات درست ثابت ہو گئے ہیں کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ وصول کی۔ عارف نقوی کی کمپنی سمیت 34 غیر ملکی شہریوں، 351 کاروباری اداروں اور دیگر غیر ملکی کمپنیوں سے ممنوعہ فنڈ لیے گئے۔

عمران خان نے 8 اکاؤنٹس ظاہر کیے جبکہ 13 چھپائے۔ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی اسٹیٹمنٹس اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ریکارڈ سے مطابقت نہیں تھی۔ بینک اکاؤنٹس چھپانا آئین کے آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہے۔ فیصلے سے قبل برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں عارف نقوی اور ان کی کمپنی ابراج کے حوالے سے یہ رپورٹس شائع ہو چکی ہیں کہ کس طرح صدقات و خیرات اور عطیات کی رقوم تحریک انصاف کی سیاست چمکانے کے لیے استعمال کی گئیں۔

اپنے سیاسی مخالفین کو چور چور کہنے والے عمران خان ”چور مچائے شور“ کے محاورے کا مصداق بن گئے اور ان کی ”پارسائی“ کی حقیقت بھی ثبوتوں کے ساتھ سامنے آ گئی۔ نومبر 2014 میں اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن کے سامنے تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کے ثبوت پیش کیے تو انہیں ڈرایا دھمکایا گیا، بے ہودہ الزامات لگائے گئے اور انہیں شیشے میں اتارنے کے لئے پرکشش مالی پیشکشیں کی گئیں۔ جب ہر حربہ ناکام ہوا تو اس کیس کو 8 سال تک لٹکایا گیا۔

95 پیشیاں ہوئیں، 30 مرتبہ التوا مانگا گیا، 20 بار الیکشن کمیشن کے احکامات نظر انداز کیے گئے، 6 مرتبہ کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا گیا، 9 مرتبہ وکیل تبدیل کیے گئے اور 4 مرتبہ درخواست گزار پر اعتراضات عائد کیے گئے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عمران خان کو اپنی قانون شکنی اور منی لانڈرنگ کا پورا ادراک تھا۔ اسی لیے وہ تاخیری حربے استعمال کرتے رہے۔ چیف الیکشن کمشنر جن کی غیر جانبداری کی وہ مثالیں دیا کرتے تھے اور اس عہدے پر ان کی تعیناتی کا کریڈٹ لیا کرتے تھے جوں جوں فیصلے کی گھڑی قریب آ رہی تھی ان کے خلاف پراپیگنڈہ مہم شروع کردی، سوشل میڈیا پر ان کی دروغ گو سپاہ نے طوفان بدتمیزی مچا دیا خود عمران خان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے اور چیف الیکشن کمشنر سے نہ صرف مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا بلکہ ان کے خلاف پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں سے قراردادیں بھی منظور کروائی گئیں۔ عمران خان کی جانب سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ آنے سے پہلے ایک قرآنی آیت بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی اور اپنی بلند حوصلگی کے متعلق اپنے پیروکاروں کو پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ وہ گھبرائیں نہیں اللہ کی مدد ان کے ساتھ ہے۔

” نہ جھکو اور نہ غم کرو جیت تمہاری ہی ہو گی۔ اگر تم سچے مومن ہو۔“ (القرآن)

یہی آیت عمران خان نے وزارت عظمیٰ کی کرسی چھوڑنے سے قبل 9 اپریل 2022 کو شیئر کی تھی مگر دونوں مواقع پر وہ ناکامی سے دوچار ہوئے۔ رہی سچے مومن ہونے کی بات تو اس پر ہم کیا حرف گیری کر سکتے ہیں۔

، عمران خان اور ان کے اعوان تمام تر کوششوں کے باوجود فیصلے کا اعلان نہ رکوا سکے گویا
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا۔

فیصلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کو یورپی، مشرق وسطی کے ممالک کے علاوہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگا پور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈز اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈ موصول ہوئے۔ پی ٹی آئی نے گوش واروں میں ملکی بینکوں مسلم کمرشل بینک، بینک آف پنجاب اور بینک آف خیبر کے اکاؤنٹس بھی ظاہر نہیں کیے۔ اسی طرح 11 اکاؤنٹس سے اظہار لاتعلقی کیا اور ساتھ یہ بھی تسلیم کیا کہ یہ غیر قانونی طور پر کھولے گئے۔

یہ اکاؤنٹس اسد قیصر، شاہ فرمان، عمران اسماعیل، محمود الرشید، احد رشید، سیما ضیاء، نجیب ہارون، جہانگیر رحمان، خالد مسعود، نعیم الحق اور ظفر اللہ خٹک نے کھولے۔ متحدہ عرب امارات کے شہزادے سے رقم وصول کر کے سی پیک اور گوادر پورٹ پر کام روکا گیا۔ جس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان ملک کو نقصان پہنچانے سے بھی باز نہیں آئے سیاست وہ پاکستان میں کرتے ہیں اور ایجنڈا دوسروں کا آگے بڑھانے ہیں۔ عمران خان بیانیہ کہ وہ صادق و امین ہیں اور قوم کو حقیقی آزادی دلانا چاہتے ہیں ان کے مخالفین چور اور غدار ہیں۔

ان کے مخالفین کی حکومت اور ایجنڈا امپورٹڈ ہے۔ صرف وہی قومی غیرت کا استعارہ، سامراج دشمن، حقیقی آزادی کے داعی، نہ بکنے والے اور نہ جھکنے والے ہیں فریب کارانہ نظر آنے لگا ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ فیصلہ اس بات کا غماز ہے کہ ان کی پارٹی امپورٹڈ اور کسی مخصوص ایجنڈے پر ہے۔ اس ضمن میں حکیم سعید شہید اور ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی تنبیہات حقیقت پر مبنی دکھائی دے رہی ہیں۔ قانون کو اپنا راستہ بنانا چاہیے اور عدالت عظمیٰ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کہے کا پاس کرے کہ اگر الیکشن کمیشن میں عمران خان کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو گئی تو عدالت آئین کے آرٹیکل 62,63 کے تحت عمران خان کو صادق و امین قرار دینے کے فیصلے کو ریویو کرے گی۔

اب تک تو یہ ہوتا آیا ہے کہ کسی مقبول سیاست دان کے خلاف صرف اسی وقت کارروائی ہوئی جب اس نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغاوت کی۔ عمران خان اور ان کے ساتھی اب بھی نیوٹرلز کے ساتھ اپنے تعلقات کی موجودگی کا بار بار تذکرہ کرتے ہیں۔ ایسے میں صرف انتظار ہی کیا جا سکتا ہے کہ کیا اس بار فارن فنڈنگ کا مجرم ثابت ہونے والا سزا پا سکے گا یا ماضی کی طرح فریب کاری کا سراب ہی عوام کا مقدر ہو گا۔

بدگماں ایسا ہوا ہوں میں فریبوں سے ترے۔
سچ بھی جب سامنے آتا ہے تو ڈر جاتا ہوں۔
بہر حال بات چل نکلی ہے تو اب دیکھیں حقائق کے تناظر میں کہاں تک پہنچتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments