بچوں کے لئے ناروے سے لکھی گئی دلچسپ کتاب کی دلچسپ روداد!


تب ایک ادبی پروگرام کی ذمہ داری سپرد تھی۔ امجد اسلام امجد صاحب نے ایک رابطے میں بچوں کے لئے لکھی گئی ایک کتاب کا ذکر کیا جو ناروے کے ایک لکھاری کی تخلیق تھی اور اس کی مقبولیت اور پسندیدگی یوں تیزی سے زبان زد عام ہوئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کی ان گنت زبانوں میں اس کے ترجمے ہونے لگے۔ امجد صاحب ان دنوں اردو سائنس بورڈ کے سربراہ تھے اور یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ اس مقبول تخلیق سے صرف نظر کرتے۔ انھوں نے نہایت سبک روی سے اس کے اردو ترجمے کا اہتمام کیا اور اس کی ایک کاپی اس طرف بھی روانہ کی کہ پی ٹی وی کے ناظرین اس دلچسپ کتاب سے محروم نہ رہ جائیں۔

کتاب کے مصنف کا نام Jostein Gaarder تھا۔ اس نام کے حوالے سے امجد صاحب نے یہ تاکید کی کہ اس نام کے پہلے حصے کی ادائیگی میں ( J ) کو (Y ) کے طور پر بولا جاتا ہے لہٰذا اس کوتاہی سے ہوشیار رہا جائے۔ بلاشبہ کسی بھی گفتگو یا تقریر میں نام کی غلط ادائیگی حاضرین اور سامعین کے لئے سارے تاثر کو زائل کر دینے کے مترادف ہے۔

بصری اعتبار سے اس کتاب میں آن ائر کرنے کے لئے مصنف کی ایک ( مختصر ) تصویر کے سوا اور کچھ نہ تھا جو ایک ٹی وی پروگرام کی ضروریات اور اسے پر کشش اور قابل دید بنانے کے لئے یقیناً ناکافی تھا۔ ان دنوں سیکورٹی کے حالات اتنے خراب نہ تھے اس لئے ایسی ملاقاتوں کے لئے اتنے پاپڑ بیلنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ سو طے ہوا کہ اس معاملے میں ناروے کے سفارت خانے کو تکلیف دی جائے جو بہ ظاہر اس صورت حال میں سب سے زیادہ معاون ہونے کی پوزیشن میں تھا۔ رابطے پر سفیر محترم نے نہایت محبت سے ملاقات کے لئے اگلے روز ہی آنے کی دعوت دے ڈالی۔

ناروے کی اس طرز معاشرت اور سفارت سے لطف اندوز ہونے کے لئے اپنی کاغذی تیاریاں تمام تر حوالے سے مکمل کرنے کی کوشش کی کہ مبادا وہاں کسی قسم کی شرمندگی کا احساس نہ ہو۔ چھٹی حس شاید جب ہی متحرک ہوتی ہے جب کہیں کچھ پوشیدہ ہوتا ہے۔ سو وہی ہوا کہ ڈرائیور نے اگلے روز ساڑھے نو بجے یہ پرiشان کن اطلاع دی کہ گاڑی کہیں خراب ہو گئی ہے۔ مقررہ وقت میں صرف تیس منٹ رہتے تھے اور اس دوران کسی طور، طے شدہ منزل پر پہنچنا ممکن نہ تھا۔ نہایت شرمندگی اور بے چار گی سے فون پر نہ آنے کی معذرت چاہی اور اسی عالم میں اگلی ملاقات کے لئے کسی اور دن کی نشان دہی کی خواہش کی۔ پہلی جتنی محبت اور مروت کے ساتھ، فوراً ، اگلے دن ہی دس بجے کا کہا گیا۔

دس بجنے میں غالباً دس یا پندرہ منٹ رہتے ہوں گے جب سفارت خانے کی حدود میں اپنے ہونے کی اطلاع دی گئی اور کچھ ہی دیر میں وہ شخصیت مقابل تھی جو یکسر اجنبی تھی مگر جس کا ظاہر اس کے باطن کی سادگی اور ممکنہ رویے کے بارے میں اچھی رائے قائم کرنے پر اکسا رہا تھا اور اس کی تصدیق باتوں باتوں میں تھوڑی دیر بعد ، خود بہ خود ہوتی چلی گئی۔ ملاقات کا مقصد جان کر، اس بات پر نہایت خوشی کا اظہار کیا گیا کہ ناروے کی اس شہرہ آفاق ادبی تخلیق پر پاکستان میں بھی دلچسپی لی جاری ہے۔

اس بات کا وعدہ کیا گیا کہ اس کتاب کے حوالے سے جو بصری مواد ممکن ہے وہ اوسلو سے کچھ دنوں میں منگوا دیا جائے گا۔ اس موقع پر مصنف کی تصاویر اور اس کی دیگر تصانیف کے علاوہ اس بات کی بھی خواہش کی گئی کہ اس کتاب کے نارویجن ایڈیشن کی ایک کاپی بھی فراہم کی جائے تاکہ نارویجن طرز تحریر کو پروگرام میں شامل کیا جائے تاکہ دیکھنے والوں کو اس سے آگاہی ہو۔

اس بیرونی امداد کے علاوہ سفیر محترم سے اس کتاب پر ان کی رائے بھی آن کیمرہ ریکارڈ کرنے کی خواہش کی گئی جس پر انھوں نے اپنے اصولی موقف کو کچھ اس طرح بیان کیا ”میں سفارت کار ہوں اور میرا ادب یا ادبی تخلیقات سے کوئی تعلق نہیں اس لئے میں قطعی اس حیثیت میں نہیں کہ اس کتاب پر اپنی کوئی رائے دے سکوں۔

اس جواب کا جواب، یقیناً آسان نہ تھا۔

پھر سفیر محترم نے اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہا ”اگر آپ نے اس کتاب پر سفیر کی رائے لینی ہی ہے تو آپ ناروے میں پاکستانی سفیر کی رائے لیں جو بہت بڑے ادیب ہیں اور جن کا شمار ادب کی نمایاں شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کا اشارہ، عطا الحق قاسمی صاحب کی طرف تھا جو ان دنوں ناروے میں سفیر تعینات تھے۔

اس پر ہمیں انھیں بتانا پڑا کہ اس کتاب کی اشاعت اور ترجمے میں امجد اسلام امجد صاحب اور ان کے ادارے نے کتنا اہم کردار ادا کیا ہے اور عطاءالحق قاسمی صاحب ہی وہ شخصیت ہیں جو اس کتاب کو پاکستان تک لانے کا محرک اور وسیلہ بنے ہیں۔

پھر سفیر محترم کو جب یہ جتایا گیا کہ ان کی رائے اس پروگرام کے لئے اس لئے اہم ہے کہ ان ہی کے ملک کی ایک ادبی تخلیق، دنیا بھر میں مقبول عام ہو رہی ہے اس لئے پاکستانی ناظرین کے لئے اس بات کی خصوصی اہمیت ہوگی کہ اسی ملک کے سفیر نے اس کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

اس دلیل پر ( اور شاید، اس سے زیادہ، دل جوئی کے لئے ) سفیر محترم پروگرام کے لئے اپنی رائے دینے پر آمادہ ہوئے مگر اپنے اصول کی پاسداری کے ساتھ۔ انھوں نے کہا جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں، میرا تعلق ادب سے نہیں ہے اس لئے میں کتاب پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔ میں صرف یہ کہوں گا کہ میرے ہم وطن کی تحریر کردہ کتاب دنیا بھر میں مقبول ہو رہی ہے، یہ میرے لئے بہت خوشی اور فخر کی بات ہے۔

اس طرح ملاقات کا ایجنڈا تمام ہوا، اور اب باہمی دلچسپی کے عام موضوعات پر بات چیت شروع ہوئی۔ اس دوران انھوں نے انگریزی اور نارویجن ادب اور ثقافت پر جس تفصیل اور گہرائی کے ساتھ گفتگو کی وہ ان کی اصول پسند اور ادب دوست شخصیت کو بیک وقت اجاگر کرتی چلی گئی۔

نارویجن مصنف Jostein Gaarder کی اس تصنیف کا نام سوفی کی دنیا (Sophie ’s world ) ہے جسے اردو کے قالب میں ڈاکٹر حمید شاہد نے ڈھالا۔ کتاب کا مرکزی خیال اس تجسس پر مبنی تھا جو سوفی کو زندگی سے متعلق مختلف سوالات کی صورت میں اس کے پوسٹ بکس میں وصول ہوتے ہیں۔

1991 میں شائع ہونے والی یہ کتاب ناروے میں، تین سال مسلسل سب سے زیادہ بکنے والی کتاب قرار پائی۔ اس کے مصنف کا کہنا ہے کہ یونان کے ایک سفر میں کسی نے کہا کہ بچوں کے لئے فلسفے کی کوئی کتاب نہیں ہے اس لئے ان کے لئے فلسفہ سمجھنا آسان نہیں۔ اس ردعمل میں انھوں نے فلسفے کو آسان اور سہل بنانے کا تہیہ کیا۔ اس میں انھیں اس قدر کامیابی ہوئی کہ دنیا بھر میں پچاس سے زائد زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی اس بے مثال کامیابی اور مقبولیت کا راز سادہ زبان اور مناسب الفاظ کا چناؤ ہے۔ عنوانات رکھنے میں بھی، پڑھنے والے نوجوان اور کم عمر ذہنوں کی دلچسپی کو نہایت سلیقے سے ہدف بنایا گیا ہے۔ دنیا بھر کے اخبارات و رسائل میں اس کتاب کی زبردست پذیرائی کی گئی۔ سنڈے ٹائمز کا یہ تبصرہ اس کتاب کی نوعیت اور اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے :

” مصنف نے 3000 سالوں کے خیالات کو، 700 صفحات میں سمو دیا ہے۔ نہایت پیچیدہ مسائل کو، غیر اہم کیے بغیر، آسان کر دینا، سوفی کی دنیا کی شاندار کامیابی ہے۔“

کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس پر فلم بنائے جانے کے علاوہ بورڈ گیم اور کمپیوٹر گیم بھی تخلیق کیے گئے۔ فلم کا روپ دینے کے لئے مصنف کو ہالی ووڈ سے بھی پیش کش ہوئی مگر انھوں نے اسے، کتاب کی اوریجنل زبان میں ہی ڈھالنے کو ترجیح دی۔ ٹی وی کے لیے ، اس کہانی پر مبنی سیریز بھی بنائی گئیں۔

اس کتاب کے مصنف Jostein Gaarder جنہیں اس بے مثال کتاب کی بہ دولت اب دنیا بھر میں نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس سال اپنی سترویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ وہ 1952 میں اگست کی آٹھ تاریخ کو ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں پیدا ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments