سیمیں کرن نے جب اپنا ناول ”اک معدوم کہانی“ لکھنا شروع کیا، ابھی اس کے خط و خال طے ہو رہے تھے کہ کرونا شروع ہو گیا۔ اس طرح ناول کا آغاز بہت حد تک حقیقی حالات سے شروع ہوا کہ کرونا اس ناول کا حصہ ہے۔ تاریخ ؛اخباری، درسی اور ادبی کبھی ایک جیسی نہیں رہی۔ حکمرانوں نے ہمیشہ درسی تاریخ اپنی ضرورت کے تحت لکھوائی اور اپنی مدح میں لکھوائی۔ اخباری تاریخ حقائق کی حد تک تاریخ کا ماخذ بن جاتی ہے۔ تاریخ کا وہ حصہ جو ادب کا حصہ بن جاتا ہے، جب کہ وہ فرسٹ ہینڈ انفارمیشنز پر بھی مشتمل ہو، جس کا ہر شخص شاہد بھی ہو ؛وہاں لکھاری کا مشاہدہ اور تاثر اہم ہو جاتا ہے اور یوں ادب میں ایسے واقعات کی حیثیت قائم اور دائم ہو جاتی ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے جسے بہرحال سیمیں نے اپنے ناول ”اک معدوم کہانی“ میں برتا ہے۔ تاریخ لکھنا سمندر سے مچھلیاں پکڑنے جیسا عمل ہے۔ ماہی گیر نے سمندر کے کس حصے میں جال ڈالنا ہے اور کس سائز کی مچھلی کا چناؤ کرنا ہے اس کی صوابدید ماہی گیر کے تجربے میں چھپی ہوتی ہے۔

انہیں دنوں سیمیں کے سگے بھائی اور بھاوج کنکٹیکٹ شفٹ ہوئے تھے۔ اب کسی حد تک سیمیں کے ہاتھ میں ایک دوربین لگ گئی تھی جس کے عدسے سے وہ کنکٹیکٹ کو دیکھ سکتی تھیں۔ ناول کا آغاز دو ڈائریز سے ہوتا ہے جو ایک لڑکی روحا کے پاس ہیں اور ان ڈائریز کا تعلق اس کی ذات کے ساتھ ہے۔ ناول کے پہلے باب کا عنوان ہے ”مارک ٹوین کے دیس میں“ ۔

روحا نے مارک ٹوین کے ناول A Connecticut Yankee in King Arthur ’s Court پڑھتے ہوئے یہ سوچا بھی نہ تھا کہ زندگی اسے کسی خواب و خیال کی ماورائے قوت کے پنکھ پر سوار کرا کر مارک ٹوین کے دیس میں لے آئے گی۔ کنکٹیکٹ وہ ریاست ہے جہاں مارک ٹوین جیا اور پھر موت کی طرف روانہ ہوا۔ ناول کے لکھاری کے دیس میں آنا اور پھر اسی ناول کے کرداروں کو محسوس کرنا ایک عجیب اتفاق تھا۔ یہ ناول ایک ٹائم ٹریول فینٹیسی ہے جس میں مصنف کسی دماغی چوٹ و صدمے کے باعث پانچویں صدی عیسوی کے افسانوی کردار کنگ ارتھر ؔکے زمانہ میں چلا جاتا ہے۔ جہاں ابتدائی کشمکش کے بعد اسے پتا چلتا ہے کہ وہ زمانہ ماضی میں پہنچ چکا ہے وہ اپنے مستقبل کے علم کے باعث لوگوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہتا ہے کہ وہ ایک طاقتور جادوگر ہے جو اپنے علم کو بروئے کار لا کر ان کے معیار زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے مگر وہ تمام تر کوششوں کے باوجود کنگ ارتھر کو مرنے سے نہیں بچا پاتا۔ اسی طرح روحا کو محسوس ہو رہا تھا کہ وہ بھی زمانہ ماضی میں چلی گئی ہے۔ وہ ماضی کے، ان دو کرداروں کے ساتھ جی رہی ہے جو ان دو ڈائریوں میں زندہ تھے۔

وہ یہاں کنکٹیکٹ کتنے صدمے اور کتنی چوٹیں کھا کر پہنچی تھی صرف وہ جانتی ہے۔ کن صدمات نے اسے مجبور کیا تھا کہ وہ ان ڈائریوں میں سوئے دونوں کرداروں کو پہلے زندہ کرے اور پھر ان کے ساتھ دوبارہ ماضی کے سفر پر روانہ ہو اور پاتال میں جا کر کھوجنے کی کوشش کرے، جو ان کہا ہو کر بھی ایک طاقت ور احساس کی صورت اس کے ساتھ پلتا رہا، پروان چڑھا، اسے جانے اور پھر اسے بیان کرنے کی کوشش کرے۔

یہ دو ڈائریاں ؛ دو طبقات، دو نظاموں کے تصادم کی صورت اس کے سامنے تھیں اور قدرت کی ستم ظریفی پہ وہ کبھی مسکرا دیتی اور کبھی کراہ اٹھتی۔ نئی شادی شدہ لڑکی ہونے کے باوجود روحا کا رویہ ناگوار حد تک ہاشم سے لاتعلقی کا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ نئی زندگی انجوائے کرنے کی بجائے وہ کیوں کھوئی رہتی ہے؟

شادی کے فوری بعد وہ اپنے خاوند ہاشم کے ساتھ کنکٹیکٹ پہنچی ہے وہاں اس کا ٹاکرا اور دوسرے کرداروں کے ساتھ ایک بوڑھی خاتون لنڈا سے ہوتا ہے جو اس ناول کا اہم کردار ہے۔ آنٹی لنڈا کے ہاں ہر سال نومبر میں تھینکس گونگ ڈے منایا جاتا ہے جس میں لنچ کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے جس میں ہمیشہ ان کے نزدیکی پڑوسیوں اور کچھ قریبی دوستوں کو مدعو کیا جاتا ہے اور میزبانی کے فرائض ہمیشہ آنٹی لنڈا ادا کرتی ہے۔ اس دفعہ ہاشم کی بیماری کی وجہ سے اسے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ لنڈا کا شوہر ایک پاکستانی جمشید عرف جم تھا جو اب دنیا میں موجود نہیں ہے۔ لنڈا اپنے گھر میں اکیلی رہتی ہے جب کہ اس کی اولادیں امریکہ میں ادھر ادھر بکھری ہوئی ہیں۔ یہ تہوار بنیادی طور پر امریکہ کے اصل باشندوں یعنی ایبوریجنل یا نیٹو امریکن کا تھا جسے نئے امریکنوں نے بہرحال اپنا لیا تھا۔ یہ تہوار ان لوگوں کی نشانی تھا جن کو مار دیا گیا، ختم کر دیا گیا جن کی نسل کشی کی گئی ؛یہ نیٹو امریکن تھے۔

یہی کنکٹیکٹ میں وہ میوزیم بھی موجود ہے جہاں اس سرزمین کے قدیم ترین رہائشی ڈائنوسارز کے پنجوں کے نشان ہیں جنہیں محفوظ بنا دیا گیا ہے۔ وہ قدامت کے امین پہاڑوں جیسی جسامت کے حامل کب کے نابود ہو چکے۔ شاید ان ڈائنو سارز کی طرح جب قدامت جہاں کے اصلی باشندوں کی دانش کو ارتقاء نہ دے سکی تو وہ بھی معدوم ہو گئے ان کی باقاعدہ نسل کشی کی گئی تھی۔ ڈائنو سارز جو قدیم بھی تھے اور جسیم اور طاقتور بھی اس صفحہ ہستی سے کیوں معدوم ہو گئے؟ انسان تو ایک کمزور مخلوق تھا اور ان پر طاقتور حاوی ہو گئے تھے۔

یہ معدومیت کی کہانی ہے، امریکہ میں نیٹو امریکن معدوم ہو گئے جب کہ پاکستان میں 80 اور 90 کی دہائیوں میں بہت کچھ معدوم ہو گیا۔ یہ نوحہ ہے اس معدومیت کا جس کی وجہ کرونا ہو سکتا تھا۔ 1918 ء کے انفلوئنزا کے دوران لوگوں نے اپنے مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ ان مردوں کو کتوں نے کھانا شروع کر دیا تھا۔ اس سے ملتا جلتا خدشہ اب بھی موجود تھا۔

کیا قدیم دانش واقعی معدوم ہو جاتی ہے ان ڈائنوسارز کی طرح؟ انڈونیشیا کی کمبوڈو چھپکلیاں ڈائنوسارز کا تسلسل ہیں، اتنی بڑی ڈریگن چھپکلیاں، دس دس فٹ لمبی کئی کئی فٹ چوڑی جو امریکہ کی طرح سب کچھ کھا جاتی ہیں، جانور، پودے اور آدمی لیکن یہ ڈریگن چھپکلیاں ابھی زندہ ہیں لیکن سوال ہے کہ کیوں؟

آخر کار کچھ روز کے بعد لنڈا کے ہاں تھینکس گونگ ڈے پارٹی کا آغاز ہوتا ہے۔ تھینکس گونگ ڈے کی تقریب ہمیشہ لنڈا کے ادبی ذوق کی وجہ سے ایک ادبی تقریب میں تبدیل ہو جاتی ہے جس میں شرکاء اپنے تجربات، احساسات اور اپنے فن کو پیش کرتے ہیں۔ اس تقریب میں پہلے تو لنڈا اپنی ایک 30 سالہ پرانی کہانی سناتی ہے اور پھر وہ سلیویا پلاتھ کے ناول ”بیل جار“ پر اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہتی ہے : بیل جار ایک استعارہ ہے، میٹافور ہے لیکن بیل جار ذہنی قید کا استعارہ نہیں ہے بلکہ یہ عورت کی بکارت کا جھگڑا ہے۔ بات آگے بڑھتی ہے اور عورتوں کے ختنہ تک پہنچ جاتی ہے اور پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہاں بوہرہ فرقے میں ختنہ کی رسم آج بھی موجود ہے۔ بات مزید آگے بڑھتی ہے تو افریقہ تک جا پہنچتی ہے جہاں کم سن لڑکیوں کی فرج کو ہی سی دیا جاتا ہے۔ دو ننھے سوراخوں کو جو پیشاب اور ماہواری کے لیے رہ جائیں چھوڑ کر اس کی فرج کے کناروں کو سیا جاتا ہے جب کہ اس کی بظر کو بھی کاٹ دیا جاتا ہے لیکن کس لیے؟ محض اس لیے کہ اسے اس کے ہونے والے شوہر کے لیے سیل بند کر دیا جائے اگرچہ اس عمل میں اس کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔

اسی دوران ایک نیا کردار متعارف ہوتا ہے۔ یہ ہے سیم گپتا۔ وہ دیکھنے میں بھکاری لگتی ہے مگر اس کے چہرے پر عجیب تمکنت اور رقت امیز چمک ہے جو نخوت میں ڈھل چکی ہے جیسے وہ ہر چیز سے بے نیاز ہو چکی ہو۔ یہ ایک باغی اور ستم رسیدہ عورت ہے جو صاف اعلان کر چکی ہے کہ وہ ماں بنے گی مگر کسی بھی مرد کے ساتھ کے بغیر اور یوں اس نے کسی مرد کے سپرمز حاصل کیے اور جڑواں بچوں کو جنم دیا۔ مسلم اور کرسچن کمیونٹی کے احتجاج کی وجہ سے اس نے سیم گپتا کی ایک فرضی شناخت اوڑھ لی۔ سمینہ علی طرح طرح طرح کے مردوں کا ذائقہ چکھ چکی تھی جب کہ اسے ماں بننے نہیں دیا گیا نتیجۃ اس نے بھی کہہ دیا کہ مجھے کسی مرد کے ساتھ کی اس کے عضو کی ضرورت نہیں ہے وہ یوں بھی ماں بن سکتی ہے اور وہ ماں بن گئی۔ کہانیاں اور بھی ہیں۔ یہ پہلا باب ہے اس ناول کے مزید دو ابواب ہیں۔

دوسرے باب میں دو ڈائریز ہیں یہ وہی دو ڈائریاں ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ یہ دو نوخیز لوگوں کی ڈائریاں ہیں ؛ ایک سنجیدہ لڑکی اور ایک لا ابالی لڑکا۔ ان ڈائریوں میں اپنے اپنے احساسات اور تجربات کے ساتھ ساتھ اس دور کے سماجی اور سیاسی واقعات بھی موجود ہیں اور اس طرح دو کردار ڈویلپ ہوتے ہیں جو اس ناول کے بنیادی کردار ہیں۔

تیسرا باب ”کہانی ختم ہوتی ہے“ میں فیصل آباد ہے یہاں کے کچھ حقیقی کردار ہیں، کچھ تاریخی عمارات ہیں اور یوں کہانی کھلتی ہے اور اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔ یہ مردانہ معاشرہ عورت کی دانش کو ہمیشہ سے معدوم کرنے کے درپے رہا ہے اور یہاں بھی ایک عورت ہے جس کی دانش کو معدوم کیا جا رہا ہے۔ اس ناول پہ کئی طرح کی معدومیت چھائی ہوئی ہے اور یوں ”اک معدوم کہانی“ کی بنت ہوتی ہے۔

مجوزہ ناول فکشن ہاؤس لاہور اور میٹر لنکس لکھنو انڈیا سے شائع ہوا ہے۔