( 4 ) سید فخرالدین بلے اور شہزاد احمد کی نصف صدی پر محیط داستان رفاقت


This is the Part 4 which is the Last one Part of the article
(ولادت:۔ 16۔ اپریل 1932۔ امرتسر) (وفات: یکم۔ اگست 2012۔ لاہور)
شہزاد احمد کے 10 ویں یوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر
داستان گو : ظفر معین بلے جعفری

مجلس ترقی ادب کے سربراہ کی حیثیت سے شہزاد احمد صاحب کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا یقیناً نا انصافی ہوگی اور انہوں نے جس طرح چیلنج سمجھ کر اس ذمہ داری کو قبول کیا اور نبھایا اور اپنے فرائض منصبی کا حق ادا کیا اس کی نظیر بھی کم کم ہی ملے گی۔ شہزاد احمد صاحب ہمارے والد گرامی سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سے عمر میں دو برس اور دس دن چھوٹے تھے لیکن بلے شاہ صاحب کا وہ حد درجہ احترام فرمایا کرتے تھے۔ شہزاد احمد صاحب کا انتقال 80 برس کی عمر میں یکم۔

اگست 2012 بمطابق 12۔ رمضان المبارک 1433 بروز بدھ شام چار بجے لاہور میں ہوا۔ ان کے سوگواران و پسماندگان میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ ہم نے برسوں پہلے شہزاد احمد صاحب کے کلام کا ایک انتخاب کیا تھا جسے خود شہزاد احمد صاحب نے اور ہمارے پیارے دوست و بھائی باکمال شاعر جناب اسم کولسری صاحب نے بے حد سراہا اور پسند فرمایا تھا اسی انتخاب سے کچھ کلام نذر قارئین ہے ملاحظہ فرمائیے

جناب شہزاد احمد کا منتخب کلام
انتخاب کلام۔ ظفر معین بلے جعفری
نظم۔ شہزاد احمد
ہم اور ہوا
گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا
میری بھی تقدیر رہا ہے
تم نے بھی دنیا دیکھی ہے
پھر بھی جب ہم ملتے ہیں
بچوں جیسی معصومی سے باتیں کرتے ہیں
تم کہتی ہو
آج سے پہلے تیرے جیسا کوئی نہیں تھا
میں کہتا ہوں
میں نے تجھ کو ہر چہرے میں تلاش کیا ہے
تم کہتی ہو
میرا دل دوشیزہ دھرتی جیسا ہے
میں کہتا ہوں
میں اس دوشیزہ دھرتی کی پہلی بارش ہوں
لیکن ہم پہ ہوا ہنستی ہے
پیار سے آ کے لپٹ جاتی ہے
اور کہتی ہے
میں بھی پہلی بار چلی ہوں۔
شاہکار غزل 1۔ شہزاد احمد
وعدہ کر کے بھی نہیں ساتھ نبھانے والے
کتنے بیدرد ہیں یہ لوگ زمانے والے
اہل کوفہ نے بلایا تو چلے آئے ہیں
کیسے سادہ ہیں محمد کے گھرانے والے
رحم کرتے ہیں تو اس کی بھی نہیں حد کوئی
کسی سفاک کو خاطر میں نہ لانے والے
فیصلہ آپ کریں، آپ کو کرنا کیا ہے؟
آپ پر چھوڑتے ہیں شمع بجھانے والے
ظلم کے تیروں سے چھلنی ہیں حسین ابن علی
غلبۂ کفر سے دنیا کو بچانے والے
ظلم کرنے پہ تلی بیٹھی ہے دنیا ساری
اور ہم لوگ فقط سوگ منانے والے
عرصۂ دہر میں باقی نہیں رہتا کچھ بھی
خاک ہو جاتے ہیں خیموں کو جلانے والے
کس کو معلوم کہ دن بھر کے تھکے ہارے ہوئے
شام کو اپنے لہو میں ہیں نہانے والے
کیا بتائیں تجھے کیا چیز ہے یہ تشنہ لبی
خشک ہو جاتے ہیں دریا نظر آنے والے
جو بچاتے نہیں کل کے لیے اک دانہ بھی
وہی درویش ہیں عقبیٰ کے خزانے والے
در مولا پہ پڑے ہیں تو بڑے ہیں شہزاد
یہ پرندے نہیں اڑ کر کہیں جانے والے
غزل نمبر 2۔ شہزاد احمد
رخصت ہوا تو۔ آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے۔ یہ بھی بتا کر نہیں گیا
وہ یوں گیا کہ۔ باد صبا یاد آ گئی
احساس تک بھی۔ ہم کو دلا کر نہیں گیا
یوں لگ رہا ہے۔ جیسے ابھی لوٹ آئے گا
جاتے ہوئے۔ چراغ بجھا کر نہیں گیا
بس اک لکیر۔ کھینچ گیا درمیان میں
دیوار۔ راستے میں بنا کر نہیں گیا
شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط
وہ اپنے۔ نقش پا تو مٹا کر نہیں گیا
گھر میں ہے آج تک۔ وہی خوشبو بسی ہوئی
لگتا ہے یوں کہ۔ جیسے وہ آ کر نہیں گیا
تب تک تو پھول جیسی ہی تازہ تھی اس کی یاد
جب تک وہ پتیوں کو۔ جدا کر نہیں گیا
رہنے دیا نہ۔ اس نے کسی کام کا مجھے
اور خاک میں بھی۔ مجھ کو ملا کر نہیں گیا
ویسی ہی بے طلب ہے ابھی میری زندگی
وہ خار و خس میں آگ لگا کر نہیں گیا
شہزاد۔ یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سے
جاتے ہوئے۔ وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا
.
غزل نمبر۔ 3۔ شہزاد احمد
اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
اک نظر میری طرف بھی ترا جاتا کیا ہے
میری رسوائی میں وہ بھی ہیں برابر کے شریک
میرے قصے مرے یاروں کو سناتا کیا ہے
پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے
ذہن کے پردوں پہ منزل کے ہیولے نہ بنا
غور سے دیکھتا جا راہ میں آتا کیا ہے
زخم دل جرم نہیں توڑ بھی دے مہر سکوت
جو تجھے جانتے ہیں ان سے چھپاتا کیا ہے
سفر شوق میں کیوں کانپتے ہیں پاؤں ترے
آنکھ رکھتا ہے تو پھر آنکھ چراتا کیا ہے
عمر بھر اپنے گریباں سے الجھنے والے
تو مجھے میرے ہی سائے سے ڈراتا کیا ہے
چاندنی دیکھ کے چہرے کو چھپانے والے
دھوپ میں بیٹھ کے اب بال سکھاتا کیا ہے
مر گئے پیاس کے مارے تو اٹھا ابر کرم
بجھ گئی بزم تو اب شمع جلاتا کیا ہے
میں ترا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر مجھ کو ترے ذہن میں آتا کیا ہے
تیرا احساس ذرا سا تری ہستی پایاب
تو سمندر کی طرح شور مچاتا کیا ہے
تجھ میں کس بل ہے تو دنیا کو بہا کر لے جا
چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتا کیا ہے
تیری آواز کا جادو نہ چلے گا ان پر
جاگنے والوں کو شہزادؔ جگاتا کیا ہے
غزل نمبر 4۔ شہزاد احمد
گلے ہزار سہی، حد سے ہم بڑھیں گے نہیں
ہے کوئی بات مگر آپ سے کہیں گے نہیں
ہم اس لڑائی کو شرط ادب سمجھتے ہیں
وہ سامنے بھی اگر آ گیا، ملیں گے نہیں
جو بات دل میں ہے، خود اپنے کان میں کہہ لے
یہ گفتگو در و دیوار تو سنیں گے نہیں
جہاں میں کوئی بھی شے بے سبب نہیں ہوتی
سبب کوئی بھی ہو، انکار ہم سنیں گے نہیں
عجب نہیں کہ، اسی بات پر لڑائی ہو
معاہدہ یہ ہوا ہے، کہ اب لڑیں گے نہیں
کسی بھی خوف سے کیوں چھوڑ دیں تری قربت
کہیں بھی جائیں، اس الزام سے بچیں گے نہیں
جو ہم نے دیکھا ہے لفظوں میں کیسے آئے گا
جو نقش دل میں ہیں، وہ ریت پر بنیں گے نہیں
ہوا کے ساتھ لپکتی ہے تیرگی شہزاد
چراغ ہوں بھی تو اس رات میں جلیں گے نہیں
غزل نمبر 5۔ ۔ شہزاد احمد
تصویر کے خطوط نگاہوں سے ہٹ گئے
میں جن کو چومتا تھا وہ کاغذ تو پھٹ گئے
انسان اپنی شکل کو پہچانتا نہیں
آآ کے آئینوں سے پرندے چمٹ گئے
بنتی رہی وہ ایک سویٹر کو مدتوں
چپ چاپ اس کے کتنے شب و روز کٹ گئے
کس شوق سے وہ دیکھ رہے تھے ہجوم کو
جب میں نظر پڑا تو دریچے سے ہٹ گئے
آخر کسی کشش نے انھیں کھینچ ہی لیا
دروازے تک نہ آئے تھے آ کر پلٹ گئے
پت جھڑ میں اک کلی بھی میسر نہ آ سکی
پس سگرٹوں کی راکھ سے گلدان اٹ گئے
بدلا ہوا دکھائی دیا آسماں کا رنگ
ذرے زمیں سے، شاخ سے پتے لپٹ گئے
اتنا بھی وقت کب تھا کہ پتوار تھام لیں
ایسی چلی ہوا کہ سفینے الٹ گئے
پابندیاں تو صرف لگی تھیں زبان پر
محسوس یہ ہوا کہ مرے ہاتھ کٹ گئے
کچھ سرد تھی ہوا بھی نظر کے دیار کی
کچھ ہم بھی اپنے خول کے اندر سمٹ گئے
ہر سو دکھائی دیتے ہیں نیزہ بدست لوگ
اے کاخ ظلم تیرے طرف دار گھٹ گئے
شہزاد پھر سے رخت سفر باندھ لیجیے
رستے بھی سوکھ جائیں گے، بادل تو چھٹ گئے
غزل نمبر۔ 6۔ شہزاد احمد
یہ سوچ کر کہ تیری جبیں پر نہ بل پڑے
بس دور ہی سے دیکھ لیا اور چل پڑے
دل میں پھر اک کسک سی اٹھی مدتوں کے بعد
اک عمر سے رکے ہوئے آنسو نکل پڑے
سینے میں بے قرار ہیں مردہ محبتیں
ممکن ہے یہ چراغ کبھی خود ہی جل پڑے
اے دل تجھے بدلتی ہوئی رت سے کیا ملا
پودوں میں پھول اور درختوں میں پھل پڑے
اب کس کے انتظار میں جاگیں تمام شب
وہ ساتھ ہو تو نیند میں کیسے خلل پڑے
شہزاد دل کو ضبط کا یارا نہیں رہا
نکلا جو ماہتاب سمندر اچھل پڑے
غزل نمبر 7۔ شہزاد احمد
اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
اک نظر میری طرف دیکھ تیرا جاتا کیا ہے
میری رسوائی میں تو بھی ہے برابر کا شریک
میرے قصے میرے یاروں کو سناتا کیا ہے
پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے
سفر شوق میں کیوں کانپتے ہیں پاؤں تیرے
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ اٹھاتا کیا ہے
عمر بھر اپنے گریباں سے الجھنے والے
تو مجھے میرے سائے سے ڈراتا کیا ہے
مر گئے پیاس کے مارے تو اٹھا ابر کرم
بجھ گئی بزم تو اب شمع جلاتا کیا ہے
میں تیرا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر مجھ کو تیرے ذہن میں آتا کیا ہے
غزل نمبر 8۔ شہزاد احمد
کبھی ان سے کبھی خود سے بھی غافل ہو گیا ہوں میں
دیار بیخودی میں اب تیرے قابل ہو گیا ہوں میں
سر محفل بہ انداز تغافل دیکھنے والے
تیری بے اعتنائی کا بھی قائل ہو گیا ہوں میں
بگولوں کی طرح اڑتا پھرا ہوں شوق منزل میں
مگر منزل پہ آ کے خاک منزل ہو گیا ہوں میں
میری ساحل نشینی انتظار سیل بے پایاں
انہیں ڈر ہے کہ اب پابند ساحل ہو گیا ہوں میں
تمہاری آرزو میں میں نے اپنی آرزو کی تھی
خود اپنی جستجو کا آپ قائل ہو گیا ہوں میں
میری سب زندگی شہزاد اسی عالم میں گزری ہے
کبھی ان سے کبھی غم سے مقابل ہو گیا ہوں میں
شاہکار غزل 9۔ شہزاد احمد
چپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی
بولتی ہے تو بدل جاتی ہے رنگت اس کی
آنکھ رکھتے ہو تو اس آنکھ کی تحریر پڑھو
منہ سے اقرار نہ کرنا تو ہے عادت اس کی
ہے ابھی لمس کا احساس مرے ہونٹوں پر
ثبت پھیلی ہوئی بانہوں پہ حرارت اس کی
وہ اگر جا بھی چکی ہے تو نہ آنکھیں کھولو
ابھی محسوس کیے جاؤ رفاقت اس کی
وہ کبھی آنکھ بھی جھپکے تو لرز جاتا ہوں
مجھ کو اس سے بھی زیادہ ہے ضرورت اس کی
وہ کہیں جان نہ لے ریت کا ٹیلہ ہوں میں
میرے کاندھوں پہ ہے تعمیر عمارت اس کی
بے طلب جینا بھی شہزاد طلب ہے اس کی
زندہ رہنے کی تمنا بھی شرارت اس کی
شاہکار غزل 10۔ شہزاد احمد
حال اس کا تیرے چہرے پہ لکھا لگتا ہے
وہ جو چپ چاپ کھڑا ہے تیرا کیا لگتا ہے
یوں تو ہر چیز سلامت ہے میری دنیا میں
ایک تعلق ہے جو ٹوٹا ہوا لگتا ہے
میں نے سوچا تھا کہ آباد ہوں اک شہر میں میں
یہاں تو ہر شخص کا انداز جدا لگتا ہے
مدتیں بیت گئیں طے نہ ہوئی منزل شوق
ایک عالم میرے رستے میں پڑا لگتا ہے
اے میرے جذبۂ دوراں مجھ میں کشش ہے اتنی
جو خطا ہوتا ہے وہ تیر بھی آ لگتا ہے
جانے کون سی پستی میں گرا ہوں شہزاد
سورج بھی اس قدر دور ہے کہ دیا لگتا ہے
( 4 ) سید فخرالدین بلے اور شہزاد احمد کی نصف صدی پر محیط داستان رفاقت
(ولادت:۔ 16۔ اپریل 1932۔ امرتسر) (وفات:۔ یکم۔ اگست 2012۔ لاہور)
داستان گو : ظفر معین بلے جعفری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments